التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

حکومت سلیمان اور جادو کی حرمت

حکومت سلیمان اور جادو کی حرمت

حکومت سلیمان اور جادو کی حرمت

وَاتَّبَعُواْ مَا تَتْلُوْا الشَّيٰطِيْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَ مَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَ لٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ وَ مَا أُنْزِلَ عَلٰى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ وَ مَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتّٰى يَقُوْلَاْ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَاْ تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُم بِضَآرِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللّٰهِ وَ يَتَعَلَّمُوْنَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَاْ يَنْفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاْ قٍ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْاْ بِهِ أَنفُسَهُمْ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ (102) وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُواْ واتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ الله خَيْرٌ لَّوْ كَانُوْا يَعْلَمُونَ (103)
ترجمہ:
اوراتباع کی انہوں نے اس کی جس کو پڑھتے تھے شیاطین سلیمان کی شاہی میں حالانکہ نہ کفر کیا سلیمان نے اورلیکن شیاطین نے کفر کیا کہ سکھاتے تھے لوگوں کوجادو  اوروہ جو نازل کیا گیا تھا اُوپر دوفرشتوں کے بابل میں (جن کا نام ہاروت وماروت تھا اورنہیں سکھاتے تھے کسی کو یہاں تک کہ کہتے تھے سوائے اس کے نہیں ہم تو امتحان ہیں پس کفر نہ کرنا پس سیکھتے تھے ان دونوں سے وہ چیز جس کے ذریعہ سے جدائی ڈالتے تھے درمیان مرد و عورت کے حالانکہ وہ نہیں نقصان دے سکتے کسی ایک کو بھی سوائے اذنِ خداکے اور سیکھتے تھے وہ چیز جو اُن کو نقصان دیتی تھی اور نفع نہ پہنچاتی تھی اور تحقیق جان لیا اُنہوں نے کہ جو شخص یہ چیز اختیار کرے اس کا قیامت میں کوئی نہیں حصہ اور بری چیز ہے جس کے بدلہ میں انہوں نے بیچ دیا ہے اپنے آپ کو کا ش وہ جانتے ہوتے(102) اور اگر وہ ایمان لاتے اور خوف خدا کرتے تو اس کی جزا اللہ کے نزدیک بہتر تھی کاش وہ جانتے ہوتے(103)

 حکومت سلیمان اور جادو کی حرمت



تَتْلُوْا الشَّیٰطِیْنُ: تَتْلُوْا کے دومعنی کیے گئے ہیں پڑھنا، جھوٹ اور افترا
  پہلی صورت میں معنی یہ ہو گا اُنہوں نے اتباع کی اس کی جس کو پڑھتے تھے شیاطین ملک سلیمان میں-
  دوسری صورت میں معنی یہ ہوگا انہوں نے اتباع کی اس چیز کی جس کا جھوٹا افترا اور بہتان باندھتے تھے شیاطین ملک سلیمان کے متعلق حالانکہ انہوں نے کفر نہیں کیا بلکہ شیاطین نے کفر کیا جو لوگوں کو جادو کی تعلیم دیتے تھے-
وَ مَا کَفَرَ: خداوندکریم نے حضرت سلیمان سے جادو کے کفر کی نفی فرمائی، اس آیت کریمہ سے صاف معلوم ہوتا ہے  کہ جادو کر نا کفر ہے اور اس کی تعلیم کفر کی تعلیم ہے لہذا اِس کا پڑھنا پڑھانا حرام ہے-[1]
یہودیوں نے چونکہ جادو کو حضرت سلیمان کی طرف منسوب کیا تھا اور اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ حضرت سلیمان نے اپنے عہد سلطنت میں جادو کی تمام کتابیں ضبط کرلی تھیں اور اُن کو خزانہ میں یا اپنے تخت کے نیچے چھپا دیا تھا تاکہ لوگ یہ علم نہ سیکھیں اور نہ سکھائیں-
پس جب حضرت سلیما ن کی وفات ہوئی تو جادو گروں نے وہ کتابیں کسی طریقہ سے برآمد کرلیں اور مشہور کردیا کہ حضرت سلیمان کا ملک جادو کے زور پر تھا اور اُنہوں نے جنوں انسانوں اور پرندوں کو اِسی کے ذریعہ سے مسخر کیا ہوا تھا، لوگوں میں اس چیز کا بہت زیادہ پروپیگنڈہ کیا اور یہودیوں میں یہ بات پھیل گئی اور اُنہوں نے اس پروپیگنڈہ کو زیادہ ہوا دی-[2]
بروایت عیاشی حضرت امام محمد باقرسے منقول ہے کہ حضرت سلیمان کی رحلت کے بعد ابلیس نے جادوایجاد کیا اوراس کو ایک دفتر میں لکھ کر بند کیا اورکتاب کے سرِورق پر اس کی نسبت حضرت آصف بن برخیا کی طرف دے دی اوراس کو تخت سلیمان کے نیچے دفن کردیا اورپھر لوگوں کو اس پر مطلع بھی کردیا تو کافروں نے فور ًاکہہ دیا کہ حضرت سلیمان کی حکومت اِسی کے زور سے تھی اورایمان دار کہتے تھے کہ یہ نہیں بلکہ وہ اللہ کا عبد اوراس کا نبی تھا-
پس اس مقام پر خدا وند کریم نے لوگوں کے ان فاسدخیالات کی تردید فرمائی اورقرآن میں اعلان فرمایاکہ حضرت سلیمان اس کفر سے بالکل بری تھے بلکہ کفر شیطانوں نے کیا جو لوگوں کو جادوکی تعلیم دیتے تھے -
وَ مَا اُنْزِلَ عَلٰی الْمَلَکَیْنِ: اس کا ایک معنی تو یہ کیا گیاہے کہ ”مَا“موصولہ اوراس کا عطف سِحْر“ پر ہے، یعنی وہ شیاطین لوگوں کو جادوکی تعلیم دیتے تھے جو دوفرشتوں پر بابل میں نازل کیا گیا تھا اوروہ یہ تھا کہ یہ دونوں فرشتے لوگوں کو جادو کی حقیقت بتاتے تھے اوراس کی برائی سے مطلع کرتے تھے یعنی شیاطین جادوکرنا سکھاتے اورفرشتے جادوکی حقیقت بتا کر اس سے بچنا سکھاتے تھے، شیاطین سے مراد جن بھی ہو سکتے ہیں اورانسان بھی ہو سکتے ہیں، یعنی جو بھی یہ کام کرتے تھے ان کو شیاطین سے تعبیر کیا گیا ہے اوروہ دونوں فرشتے یعنی ہاروت وماروت جب بھی کسی کو جادو کی حقیقت سے مطلع کرتے تھے تو ساتھ ساتھ ان کو یہ بات سمجھادیتے تھے کہ ہمارا یہ سکھا نا تمہارے لئے امتحان ہے پس اس کو استعمال کرکے کافرنہ بننا -
اوردوسر ا معنی اس کا اس طرح ہے کہ ”مَا“کو نا فیہ قرار دیا جائے اوراس کا عطف ”مَا کَفَرَ سُلَیْمَانُ“ پر ہے یعنی نہیں کفر کیا سلیمان نے بلکہ ان شیطانوں نے کفر کیا جو لوگوں کو جادو سکھا تے تھے اورنہ جادونازل کیا گیا دو فرشتوں پر یعنی جبرائیل ومیکائیل پر کیونکہ یہودی جادو کی نسبت حضرت سلیمان کی طرف جب دیتے تھے تو کہتے تھے کہ سلیمان کو جبرائیل ومیکائیل کے ذریعہ سے جادو سکھایا گیا تھا، تو خداوند کریم نے سلیمان سے بھی اس کفر کی نفی کر دی اور جبرائیل و میکائیل سے بھی جادو کی تعلیم کی تردید فرمادی-
بابل میں جو کہ ہاروت وماروت تھے حضرت سلیمان اورجبرائیل و میکائیل ان سے بری ہیں  اور نحوی ترکیب کے لحاظ سے اس صورت میں” بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ“ بدل ہوں گے ”شَیَاطِیْن“ سے اور تثنیہ پر جمع کا اطلاق قرآن مجید میں عام ہے مثلاً کُنَّا لِحُکْمِھِمْ شَاھِدِیْنَ ہم ان دونوں کے حکم پر گواہ تھے یعنی حضرت داود اور حضرت سلیمانھم“ کی ضمیر جمع ہے اور مرجع اس کا دو ہیں اِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا  اگر دو گروہ مومنوں کے لڑیں فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا پس ان دونوں میں صلح کرادو، پہلے طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ بھی اور آخر بَیْنَھُمَا دونوں تثنیہ کے صیغےہیں اور درمیان میں اِقْتَتَلُوْا جمع ہے، بہر کیف اس صورت میں ہاروت اور ماروت دو انسانوں کے نام ہیں جنہوں نے جادو کی تعلیم پھیلائی اور اس وجہ سے ان کو کافر کہا گیا اور اس کے بعد یہ کہنا کہ ہم فتنہ ہیں  کفر نہ کرنا حالانکہ سکھاتے تو کفر کرنے کے لئے ہی تھے؟ یہ محض مسخری اور مخول کےطور پر کہتے تھے نہ کہ نصیحت کے طورپر-
بابل ایک شہر کا نام ہے جہا ں جادو کا چر چا اور زور وشور تھا، اس کے محلِ وقوع میں اختلاف ہے بعض عراق والے بابل کو کہتے ہیں اور بعض کچھ اور کہتے ہیں-
پہلے معنی کے اعتبار سے یعنی اگر ہاروت و مارو ت کو دو فرشتے قرا ریا جائے تو اُن کے زمیں پر اُتار نے اور بشکل بشریت لوگوں کو تعلیم دلوانے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ چونکہ اس زمانہ میں جادو کا چر چا عام تھا تو خدا وند کریم نے ان دو فرشتوں کو بھیجا تا کہ لوگو ں کو دین کی طرف متوجہ کریں، جادو اور معجزہ میں فرق بتائیں، پس یہ لوگوں کو جادو کی کیفیت سکھا کر اس سے بچنے کی ترغیب دلاتے تھے تاکہ اس کے نقصان سے اطلاع پاکر اس سے دوری کی کوشش کریں اوربعض نے کہا ہے کہ فرشتے چونکہ بنی آدم کی نافرمانیوں پر نکتہ چینی کیا کرتے تھے اورہاروت وماروت اس معاملہ میں بہت تیز تھے پس خداوند کریم نے ان کو انسانی جذبات عطاکرکے زمین پر بھیجا اوراس کے بعد ایک لمبی حکایت بیان کرتے ہیں کہ آخران دونوں نے خداکی نافرمانی کی اورعذاب میں گرفتار کئے گئے اورقیامت تک وہ مبتلائے عذاب رہیں گے لیکن یہ روایت اصولِ امامیہ کے اعتبار سے ضعیف ہے کیو نکہ فرشتے معصوم ہیں اوران سے گناہ کا ارتکاب قرآنی تصریحات کےخلاف ہے، ہم نے اس طویل روایت کا ذکر کرنا مناسب ہی نہیں سمجھا کیونکہ طول بلا طائل  کے سوا اورکچھ نہیں -
پس معنی یہی ہوا کہ شیاطین لوگوں کو جادو کرنا سکھا تے تھے اوردونوں فرشتے اس کی کیفیت سے مطلع کرکے لوگوں کو اس سے بچنے کی نصیحت کرتے تھے اوریہ اس طرح ہے کہ مثلاً ایک شخص کو کہا جائے کہ چوری نہ کرنا زنانہ کرنا اوروہ پوچھے کہ چوری کیا ہو تی ہے؟ تو اس کو چوری کی کیفیت سمجھا دی جائے، وہ پوچھے زناکیا ہو تا ہے؟ تو اس کو زنا کی کیفیت بتا دی جائے اوراس طرح کسی گناہ کا مطلب اوراس کی حقیقت سمجھا نا اورپھر اس سے منع کرنا کوئی عیب نہیں ہے کیونکہ جب تک ایک چیز کا معنی معلوم نہ ہو اس سے منع کرنے کا فائدہ نہیں ہے، لہذااس اعتبار سے جادو کا معنی اورحقیقت اگر کوئی سیکھے یاسکھائے تو اس میں کوئی گناہ نہیں جب کہ مطلب اس سیکھنے اورسکھانے سے جادوکی تردید ہو ورنہ اگر عمل کرنے کےلئے سیکھے یاسکھائے تو یہ گناہ کبیرہ ہے اوراس کوجائز جاننا کفر ہے -
فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْھُمَا:  اس کے بھی دو معنی ہوسکتے ہیں اگر ہاروت وماروت دونوں فرشتے قرار دئیے جائیں جو جادو سے بچاوٴ سکھاتے تھے تو معنی یہ ہو گا کہ پس یہ لوگ جن کے دلوں میں کفر تھا سیکھتے تھے یا حاصل کرتے تھے اورعمل کرتے تھے (بدلے اس چیز کے جو فرشتوں نے ان کو بطورِ نصیحت  کہی تھی) ایسا جو اُن کے لئے باعث نقصان تھا اورجس کی وجہ سے وہ عورت اورمرد میں تفرقہ ڈال دیتے تھے یعنی ان لوگوں نے فرشتوں کی بات پر عمل نہ کیا اور جادو سے بچنا نہ سیکھا بلکہ جادو میں مبتلاہو نا سیکھا جس طرح ایک شخص دوسرے شخص کو زنا اورچوری کا معنی سمجھا کر اس کو بچنے کی نصیحت کرے لیکن وہ بجائے بچنے کے یہ معنی سمجھ کر چور اورزانی ہوجائے تو کہاجاتا ہے کہ فلاں نے فلاں سے چوری اورزناسیکھا اوراگر ہاروت وماروت سے دوشیطان مراد لئے جائیں تو معنی یہی ہو گا کہ حضرت سلیمان نے کفر نہ کیا اورنہ فرشتوں پریہ جادو کی تعلیم اُتاری گئی بلکہ اُن شیطانوں نے کفر کیا جو بابل میں ہاروت وماروت کے نام سے موسوم تھے اوروہی لوگوں کو جادوسکھا تے تھے اورلوگ ایسی باتیں سیکھتے تھے جس سے مرد و عورت میں تفرقہ ڈال دیتے تھے اورضرر ونقصان کی باتیں سیکھتے تھے حالانکہ وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے بغیر اِذنُ اللہ کے اوراُنہیں معلوم تھا کہ جوشخص جادو کے عمل کو اختیارکرے اورشریعت کے احکام کو پس پشت ڈال دے اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا یعنی اس کا انجام جہنم ہو گا جس سے چھٹکارا نہیں ہو گا، آخر میں فرمایا کاش وہ جانتے اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ اپنے علم کے مطابق وہ عمل نہ کرتے تھے اسلئے ان کو جاہل کہا گیا یعنی اگر وہ اپنے اس عمل کا انجام بد جانتے ہوتے تو ایساکرنے کی جراٴت نہ کرتے -
علمائے شیعہ نے تسخیر جنات، تسخیر ملائکہ ،تسخیر ہمزاد،عمل مسمر یزم ،عمل کہانت ،تسخیر اروح،  شعبدہ بازی اور ایسے منتر جن کا معنی و مفہوم سمجھ میں نہ آئے ان سب کو جادو کی اقسام سے تعبیر کیا ہے اور ان کا ارتکاب گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے اور جو ان کو جائز قرار دے کر ایسا کرے اس پر کفر کا توفتوی ٰعائد کیا ہے اور اس کا واجب القتل ہونا فرمایا ہے چنانچہ ہم نےتفسیر ہذا کی  جلد اوّل میں اس کے متعلق اقوالِ علما کا ذکر کیا ہے وَاللّٰہ اَعْلَمْ
وافی میں جناب رسالتمآب سے مروی ہے اِنَّ السِّحْرَ وَالشِّرْکَ مَقْرُوْنَانِ یعنی تحقیق جادو اور شرک دونوں ایک جیسے ہیں-[3]
 گویا جادو مثل شرک کےہے تو جس طرح مشرک واجب القتل ہے اسی طرح یہ بھی واجب القتل ہے چنانچہ اسی حدیث میں اس سے پہلے آپ سے مروی ہے کہ فرمایا  سَاحِرُ الْمُسْلِمِیْنَ یُقْتَلُ یعنی مسلمانوں میں سے جو جادوگر ہو اس کی سزا قتل ہے- [4]





[1] مجمع البیان ج۱
[2] مجمع البیان ج۱
[3] منہاج الفقاھۃ ج۱ص ۳۸۳،الکافی ج۷ ص ۲۶۰
[4] الکافی ج ۷ ص ۲۶۰،منہج الفقاھۃ ص۳۸۴،تفسیر ابن کثیر

ایک تبصرہ شائع کریں