تفسیر رکوع ۷ -- عصا کی حقیقت
وَ إِذِ
اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ
فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْناً قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ
مَّشْرَبَهُمْ كُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰهِ وَلَا تَعْثَوْا فِی
الأَرْضِ مُفْسِدِيْنَ (60) وَ إِذْ
قُلْتُمْ يَا مُوْسٰى لَنْ نَصْبِرَ عَلٰى طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ
يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ مِنْ مبَقْلِهَا
وَقِثَّائِهَا وَفُوْمِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ
الَّذِی هُوَ أَدْنٰى بِالَّذِیْ هُوَ خَيْرٌ اِهْبِطُوْا مِصْراً فَإِنَّ لَكُمْ مَا سَأَلْتُمْ وَضُرِبَتْ
عَلَيْهِمْ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَآءُوْا بِغَضَبٍ مِنْ اللّٰهِ ذٰلِكَ
بِأَنَّهُمْ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ بِآيَاتِ اللّٰهِ وَيَقْتُلُوْنَ
النَّبِيِّيْنَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا يَعْتَدُوْنَ
(61)
ترجمہ:
اورجب پانی طلب کیا موسیٰ نے
اپنی قوم کے لئے پس ہم نے کہا مار اپنے عصاکو پتھر پر تو انہوں نے مارا پس پھوٹ
نکلے اس سے بارہ چشمے تحقیق جان لیاہر آدمی نے اپنا گھاٹ کھاوٴ اور پیو اللہ کے رزق سے اور نہ پھرو زمین
میں فسادی بن کر(60) اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم ہر گز صبر نہ کریں گے
اوپرطعام ایک کے پس پکار ہما رے لئے اپنے ربّ کو کہ پیدا کرے ہمارے لیے ان چیزوں
سے جن کو زمین اگاتی ہے ساگ، ککٹری، گندم، دال اور پیاز فرمایا کیا تم بدلہ میں
لیتے ہو اس چیز کو جو پست ہے بجائے اس کے جو بہتر ہے اُترو شہر میں پس تحقیق
تمہارے لئے وہ ہو گا جو تم نے مانگا ہے اورماری گئی ا ن پرذلت اور خواری اور حاصل
کرلے گئے ناراضگی اللہ کی یہ اس لئے کہ وہ کفر کرتے تھے اللہ کی آیات کے ساتھ اور
قتل کرتے تھے نبیوں کو نا حق یہ بو جہ اللہ کی نافرمانیوں کے تھا اور اس لئے تھا
کہ وہ سرکش تھے(61)
تفسیر رکوع ۷
عصا کی حقیقت
مروی ہے کہ یہ عصا آسِ جنت
سے تھا جس کو حضرت آدم ساتھ لائے تھے اور یہ حضرت شعیب نے حضرت
موسیٰ کو دیا تھا، اس کی لمبا ئی دس ذراع
تھی اور حضرت موسیٰ کا قد بھی اسی قدر تھا، اس کے دو شعبے تھے جو رات کو روشن ہو کر تاریکی میں نو
رانیت کا فائدہ دیتے تھے، اسی کو دریا پر مار کے شق کیا تھا اور یہی سانپ بن جایا
کرتا تھا-
حجر
بعض کہتے ہیں کہ یہ ایک
مخصوص قسم کا پتھر تھا جس کو حضرت موسیٰ ہر وقت اپنے پاس رکھتے تھے اور بوقتِ
پیاس اس کو باہر نکا ل کر اُوپر عصا مارتے تھے اور پانی جاری ہوتا تھا، بعض کہتے
ہیں کہ عام پتھر مراد ہے، یعنی زمین کے پتھروں میں سے جس پتھر پر بھی عصا مارتے تھے پانی جاری ہوتا تھا،بعض کہتے ہیں
کہ وہ پتھر مربع شکل کا تھا،بعض نے کہا ہے کہ سرکی مانند تھا،بعض کہتے ہیں ہے کہ
اس پتھر پر بارہ گڑھے تھے اور ہر گڑھے سے ایک چشمہ جاری ہوا کرتا تھا اور کہتے ہیں
ہے کہ جس منزل پر پہنچتے تھے وہی پتھرموجود ہوتا تھا اور اس پر عصا مارنے سے پانی
کے چشمے اس سے اُبل پڑتے تھے اور ہر روز اس سے چھ لاکھ آدمی سیراب ہوتے تھے-
بنی اسرائیل جب تیہ
(صحرائےسینا)میں چالیس برس سرگردان رہے اس دوران دھوپ سے بچنے کے لئے بادل کا سایہ
ان کے سروں پر ہوتا تھا، کھانے کے لئے من وسلویٰ اُترتا تھا، پینے کےلئے پتھر سے
بارہ چشمے جاری ہوا کرتے تھے اورہر چشمہ ایک قبیلہ کےلئے ہوتا تھا اورجس مقام پر
وہ قبیلہ فروکش ہوا کرتا تھا چشمہ خود اس طرف بہہ کر جاتا تھا اوراسی کے متعلق
خدافرماتا ہے کہ ہم نے کہااس اللہ کے دیئے ہوئے بے مشقت رزق سے کھاوٴ اور پیو
اورزمین میں دنگا فسادنہ کرو اورروایات اہل بیت میں ہے کہ حضرت موسیٰپتھر پر عصا مارتے ہوئے محمد وآل محمد کے وسیلہ سے دعامانگتے تھے تب اس پتھر سے پانی جاری ہوتا تھا-
سوال: پتھر سے پانی کیسے جاری ہوسکتا ہے حالانکہ وہ جامد چیز ہے
اور پھر اتنا زیادہ پانی کہ چھ لاکھ آدمیوں کو سیراب کرے ؟
جواب : یہ حضرت موسیٰ کے معجزات میں سے ایک معجزہ تھا اور
خدا وند کریم انبیا کو ایسی خارق العادۃ چیز عطا فرما دیتا ہے جس سے عام لوگ عاجز
ہوں تاکہ ایسی چیزیں دیکھ کر ان کے لئے نبی کی نبوت کے انکار کی جراٴت نہ ہو اور
خدا کی قدرت سے یہ چیزیں بعید نہیں کیونکہ جو ذات تمام چیزوں کوکتم عدم سے معرض
وجود میں لانے پر قادر ہے اس کےلئے پتھر سے پانی نکالنا کوئی بڑی بات نہیں-
بنی اسرائیل کو جب ایک عرصہ
اسی حالت میں گزرا توحضرت موسیٰ سے سوال کیا کہ اللہ سے دعا مانگو کہ ہمیں وہی خوراک عطا کرے جو زمین سے اُ گا
کرتی ہے مثلاً ساگ، ککڑیاں ، گندم، دال اور پیا ز وغیرہ توحضرت موسیٰ نے ان کو سمجھایا کہ نعماتِ خدا کی بے قدری نہ کرو وہ بلا
مشقت تمہیں رزق دے رہا ہے اسے کھاوٴپیو اور اس کی شکر گزاری کرو، لیکن انہوں نے
ایک نہ مانی آخر کار حضرت موسیٰ نے دعا مانگی اور اللہ کا حکم ہوا کہ مصر میں جاوٴ،یہاں مصر سے بعض نے بیت
المقدس مراد لیا ہے، بعض کہتے ہیں کہ مصر فرعون مراد ہے اوربعض کہتے ہیں کہ اس سے
مراد کوئی سا شہر ہے یعنی کسی شہر میں چلے جاوٴاور جو کچھ مانگتے ہو وہی کماوٴ اور
کھاوٴ-
اس بے شکری کے نتیجہ میں عزت
کے بدلے میں ذلت، دولت مندی کی بجائے فقروفاقہ اور رضائے خدا کے بدلہ میں غضب خدا
اُن کو نصیب ہوا اور غضب خدا کے مستحق بعد میں اسلئے بنے رہے کہ اللہ کی آیات کا
انکارکرنا اُن کا شیوہ بن گیا اور بعد میں جو انبیا ان کو کلمہ حق کہتے تھے ان کے
قتل کے درپے ہو جایا کرتے تھے، چنانچہ شاہانِ وقت کے مزاج کے خلاف جو احکامِ شریعت
انبیا سے سنا کرتے تھے وہ بطور چغلخوری کے بادشاہوں کو سنا کر اُن کو انبیاکے
قتل پر آمادہ کردیتے تھے، چنانچہ روایات اہل بیت میں ہے کہ وہ لوگ خود قاتل نہ
تھے بلکہ انبیا کے راز بادشاہوں پر فاش کر کے ان کے قتل کا موجب بنتے تھے-