چونکہ پہلے ارشاد فرمایا کہ خدا یمان والوں
کا ولی ہے اور ان کو ظلمات سے نور کی طرف لے جاتا ہے اس کے بعد ایمان کی طرف لے
جانے کے مدارج اور اسبابِ ہدایت کی تفصیل کو ان آیات میں واضح فرمایا کہ ہدایت و
رشد کے تین طریقے ہیں:
دلیل و برہان: جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے نمرود کے مقابلہ میں اختیار فرمایا
پس صاحبانِ انصاف کےلئے حضرت ابراہیم ؑ کا استدلال قبولِ ایمان کےلئے کافی تھا اور
اس کے بعد جو یقین و اعتقاد پیدا ہو ا اسی کا نام ہے ایمان اور اس طریقہ سے حاصل
ہونے والے یقین کو اہل معرفت ”علم الیقین“ کہتے ہیں
شہادتِ عینی: جس طرح حضرت عزیر ؑ کو آنکھوں سے مشاہدہ کرایا گیا اس کو اہل معرفت”عین
الیقین“ سے تعبیر کرتے ہیں
علت و معلول: یعنی کسی چیز کے علت و معلول ہر دو کی سیر یعنی اصل واقعہ کا
مشاہدہ بھی ہو اور ان کی علت کی نشاندہی بھی ہو اور یہ ہدایت کا قوی ترین مرتبہ ہے
جس کو ”حقُّ الیقین“ کہا جاتا ہے جس طرح کہ حضرت ابراہیم ؑ کا پرندوں کو ذبح کر کے
ان کے قیمے کو پہاڑوں پر رکھ کر پکارنا اور ان کا زندہ ہو کر ان کے پاس آنا۔
گویا حق کو مان لینے اور تسلیم کر لینے کے
مراتب ہیں:
پہلامرتبہ یہ
ہے کہ صرف کسی کے کہنے پر سر جھکا لینا اور صاد کر دینا اور یہ ہے انقیاد و اطاعت
کی منزل کمال، نہ طلب دلیل ہو نہ طلب مشاہدہ اور نہ طلب ذوق ہو گویا ادھر سے ارشاد
ہو ا اور ادھر سے گرد ن حاضر ہو، یہ ہے حقیقی اسلام و تسلیم لیکن یہ تسلیم چونکہ
صرف تقلید ہی تقلید ہوتی ہے لہذا اس میں ثبات نہیں ہوتا بلکہ ادنیٰ سے شکوک و
شبہات سے اس کازوال متوقع ہوا کرتا ہے اس لئے کہ اس کو دلیل و برہان سے تقویت حاصل
نہیں ہوتی لہذا اس سے پختگی و دوام اور خلوصِ اتقان کی رو سے بلند مرتبہ وہ ہے جو
دلیل و برہان سے استوار ہو
دوسرا رتبہ یہ
ہے مقام تبلیغ میں تسکین قلب اور تفہیم غیر کے لئے طرق معرفت میں دلیل سے اقدام
کرنا تاکہ کسی کی تشکیک یا گمراہ کن شبہات اس کے قدموں میں لڑکھڑاہٹ نہ پیدا کر
سکیں، لہذا اب مقام ہے دلیل و برہان کا جو علم الیقین اور ایمان راسخ کی اصل ہے
تیسرا رتبہ یہ
درجہ ہے مشاہدہ کا جو ایقانِ قلب اور عین الیقین کا سبب ہے
چوتھا مرتبہ یہ ہے معلول و علت دونوں کا مشاہدہ اور یہ اطمینان اور حق الیقین کا
زینہ ہے، مثال کے طور پر کسی کے کہنے سے آگ کا وجود مان لینا ہے حسنِ یقین اور
دھواں دیکھ کر تسلیم کرنا ہے علم الیقین اور آگ کا مشاہدہ کرنا ہے عین الیقین اور
اس کی گرمی سے متاثر ہو کر اس کا اعتراف کرنا ہے حق الیقین
نمرود کے سامنے علم ایقین یعنی ایمان کا
منظر تھا اور حضرت عزیر ؑ عین ایقین اور ایقان کی منزل تک پہنچے اور حضرت ابراہیم
ؑ ؑ حق الیقین اور اطمینان کے درجہ کے طالب تھے جسے پا لیا اور یہ عرفان کی آخری
منزل ہے جس میں کوئی شک و شبہ موثر نہیں ہوسکتا ۔
بحار الانوار ج ۵۱ بابُ الیقین والبصر میں
بروایت کافی حضرت امام رضا ؑ سے یونس نے ایمان و اسلام کا فرق دریافت کیا؟ تو آپ ؑ
نے فرمایا کہ حضرت امام محمد باقرؑ نے فرمایا کہ ایمان بھی اسلام کو ہی کہتے ہیں
لیکن یہ اس سے ایک درجہ بلند ہے اور تقویٰ ایمان سے ایک درجہ بلند ہے اور یقین
تقویٰ سے ایک درجہ بلند ہے اور لوگوں میں یہ درجہ بہت کم تقسیم ہوا ہے یونس کہتا
ہے میں عرض کیایقین کیا شئے ہے؟ آپ ؑ نے فرمایا اللہ پر توکل اور اس کےلئے تسلیم و
رضا (الخبر) یعنی جب انسان کو اللہ کی وحدانیت علم قدرت حکمت تقدیر تدبیر اور رافت
و رحمت پر یقین ہو گا تو لا محالہ اپنے تمام امور میں اس پر توکل و بھروسہ کرے گا۔
اسی ذیل میں علامہ مجلسی قدہ فرماتے ہیں کہ
علم و ایمان کے مدارج و مراتب ہیں جس قدر علم میں زیادتی ہو گی اسی قدر ایمان میں
بلندی ہو گی اور ایمان کا پہلا مرتبہ ہے تصدیق جس میں شکوک و شبہات کی کم و بیش
ملاوٹ بھی ہوتی ہے چنانچہ ارشاد ہے: وَ مَا یُوْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللّٰہِ
اِلَّا وَ ھُمْ مُشْرِکُوْن اور اسی درجہ کو اسلام سے تعبیر کیا جاتا ہے جس طرح
فرماتا ہے قَالَتِ الْاَعْرَابُ آمَنَّا اس کے بعد ایمان کا وہ درجہ ہے جس میں شک
و شبہ نہ ہو جس طرح ارشاد ہے اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا بِاللّٰہِ ثُمَّ لَمْ
یَرْکَبُوْا اور اس سے بلند مرتبہ ہے محبت کا ملہ کا جس کو احسان سے بھی تعبیر کیا
گیا ہے چنانچہ ارشاد ہے ثُمَّ اتَّقُوْا وَ اَحْسَنُوْا وَ اللّٰہُ یُحِبُّ
الْمُحْسِنِیْن اور یہی یقین کا مرتبہ ہے اور پھر یقین کے تین درجے ہیں علم الیقین
عین الیقین حق الیقین اور حق الیقین و صل کی وہ آخری منزل ہے جس سے آگے بڑھنے کی
گنجائش نہیں، چنانچہ حضرت امیر المومنین ؑ فرماتے ہیں کہ اگر میرے سامنے سے پردے
اٹھ جائیںتب بھی یقین میں اضافہ نہ ہوگا۔