حضرت آدم کے سجدہ کا حکم اورابلیس کا انکار
وَ اِذْ قُلْنَا: انسان کی ابتدائے خلقت کے ذکر کے بعد
خداوند کریم نے ان پر اپنے احسان عظیم کا ذکر فرمایا ہے کہ فرشتو ں کو اس کے سامنے
سجدہ کرنے کا حکم دیا چنانچہ جس نے سجدہ کرنے کا انکار کیا اسے بارگاہِ قرب سے
نکال دیا اوراس کو ہمیشہ کےلئے مستحق لعنت قرار دے دیا-
قرآن کے ظاہر سے ایسا معلوم
ہوتا ہے کہ سجدہ کا حکم تمام فرشتوں کو تھا جیسا کہ ایک اور مقام پر فرماتا ہے
فَسَجَدَ الْمَلٰٓئِکَةُ کُلُّھُمْ اَجْمَعُوْنَ
پس سجدہ کیا تمام
فرشتوں نے-
اور بعض نے کہا ہے کہ فرشتوں
کے ایک گروہ کو حکم تھا جنہوں نے جنوں کی سرکوبی کی تھی اور ابلیس بھی ان میں بوجہ
مصاحبت کے شامل تھا-
نیز سجدہ میں بھی اختلاف ہے
کہ سجدہ آدم کا تھا اور اس میں اس کی تعظیم و اکرام مقصود تھی یا سجدہ اللہ کا تھا اور اس
کو علمائے امامیہ نے ملائکہ سے انبیا کی افضلیت کی دلیل قرار دیا ہے- [1]
نیز یہ بھی مروی ہے کہ سجدہ
اللہ کا تھا اور آدم قبلہ تھا [2]
نیز اس میں بھی اختلاف ہے کہ کیا ابلیس فرشتہ تھا یا نہیں؟
شیخ ابو جعفر طوسیv کا مسلک یہی ہے کہ وہ فرشتہ تھا اور
شیخ مفیدv فرماتے ہیں
کہ وہ جن تھا اور اکثر علمائے امامیہ کا یہی مذہب ہے کہ وہ قوم جن سے تھا اور
متواتر روایات اسی پر دلالت کرتی ہیں، گو بعض روایات میں پہلے قول کی تائید بھی
موجود ہے، ابن عباس اور ابن مسعود سے بھی پہلا قول منقول ہے جو اس کے فرشتہ ہونے کے قائل ہیں بعض کہتے ہیں کہ وہ خازن جنت تھا بعض کے نزدیک آسمان دنیا اور زمین کا حکمران تھا- [3]
دوسرا قول یعنی ابلیس کا جن ہونا زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے اور
علامہ طبرسیv نے بھی اس
کو مختار فرمایا ہے جس کی متعدد دلیلیں دی گئی ہیں:
• قرآن میں ایک مقام پر
ارشاد ہے کانَ
مِنَ الْجِنّ یعنی ابلیس قوم جن سے
تھا -[4]
• قرآن میں فرشتوں کے
متعلق ارشاد ہے کہ وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم
ہو تا ہے یعنی وہ معصوم مخلوق ہے، پس اگر ابلیس فرشتہ ہوتا تو اس سے نافرمانی
ناممکن تھی اورچونکہ نافرمانی اس سے صادر ہوئی ہے پس معلوم ہوا کہ وہ فرشتہ نہیں تھا-
• ابلیس صاحب اولاد ہے
کیونکہ قرآن میں ارشاد ہے اے انسانو! ابلیس اوراس کی اولاد کو اپنادوست نہ بناوٴ اورفرشتوں
میں سلسلہ تناسل نہیں ہے، پس معلوم ہوا کہ فرشتہ نہیں تھا-
• روایات آئمہ میں اس کے
فرشتہ ہو نےکی صاف طور پر تردید ہے، چنانچہ جمیل بن درّاج سے منقول ہے کہ میں نے
حضرت امام جعفر صادق سے دریافت کیاکہ کیا ابلیس فرشتہ تھا یا بعض آسمانی معاملات اس کے سپر د تھے؟
تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ نہ فرشتہ تھا
اورنہ آسمانی معاملات اس کے سپرد تھے، تھا جنّ لیکن فرشتوں کی صحبت میں رہتا تھا
جس کی وجہ سے فرشتوں نے سمجھا تھا کہ یہ ہم میں سے ہے حالانکہ خداجانتا تھا کہ یہ
ان میں سے نہیں ہے، پس جب آدم کے سجدہ کا حکم ہو اتو اس سے وہی ہوا جو ہوا -
اعتراض: جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ فرشتہ تھا وہ یہ دلیل بیان کرتے ہیں
کہ اگر فرشتہ نہ ہوتا تو حکم سجدہ میں شامل نہ ہو تا لہذا سجدہ نہ کرنے سے اُسے کا فر و مستحق لعنت نہ قرار دیا
جاتا؟
جواب: تو اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتوں کے ساتھ اس کو بھی سجدہ کا حکم تھا جیسا کہ
قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے کہ مَا
مَنَعَکَ اَنْ لا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ تجھے سجدہ سے کس چیز نے روکا ہے جب کہ میں نے
تجھے حکم دیا تھا؟ معلوم ہو ا کہ یہ حکم صرف فرشتوں کے لئے مخصوص نہ تھا بلکہ
ابلیس کو بھی سجدہ کا حکم تھااورخود ابلیس نے بھی اس کی تردید نہیں کی ورنہ اس کو
امر نہ ہوتا تو عذر کر سکتا تھا کہ تو نے تو صرف فرشتوں کو حکم دیا تھا لہذا میں
اس حکم میں شریک نہ تھا بلکہ اس نے جواب میں کہا کہ میں آدم سے افضل ہوں کیونکہ وہ مٹی سے پیدا
ہوا ہے اورمیں آگ سے پید اہوا ہوں یعنی ابلیس یہ تسلیم کر تا ہے کہ مجھے حکم ضرور
تھا لہذا سجدہ سے انکار کی وجہ اس نے صرف اپنے تکبرکو قرار دیا اوراس کے حکم میں
داخل ہو نے کی مثال یوں سمجھئے کہ جس طرح ایک شہر والوں کو حکم دیا جائےکہ تم فلاں
مقام پر اکٹھے ہو جاوٴ اوراتفاقاً عارضی سکونت کی صورت میں وہاں کوئی اجنبی انسان
بھی قیام پذیر ہو تو عرفاً اس حکم میں وہ بھی شامل ہو تا ہے، اسی طرح ابلیس کی
رہائش چونکہ ملائکہ کے ساتھ تھی حتی کہ ملائکہ اس کو اپنے میں سے سمجھتے تھے لہذا
حکم مذکور اس کو شامل تھا-
نیز جو لوگ اس کو فرشتہ کہتے
ہیں بعض کہتے ہیں اس کا نام عزازیل تھا اورجن فرشتوں کی رہائش زمین پر تھی ان سب
کو جنّ کہا جاتا تھا، جب اس نے حضرت آدم کے سجدہ سے
انکار کیا تو کافر ہوگیا اوراس کا نام ابلیس وشیطان رکھ دیا گیا-
بہر کیف ابلیس حضرت آدم کے سجدہ کے
حکم میں شامل تھا اورتکبر وانکار کرنے کی وجہ سے مردود ہو گیا اورجو لوگ خیر وشرّ
ہردوکو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں، ان آیات سے ان کی تردید موجود ہے، کیونکہ اگر
اللہ نے اس سے نافرمانی کرائی ہو تی تو اس کےانکار کے بعد مستحق لعنت نہ قرار دیتا، نیز ابلیس نے بھی
اپنے انکار ونافرمانی کو اللہ کی طرف منسوب کیا ہے چنانچہ کہاہے بِمَا
اَغْوَیْتَنِیْ یعنی تو نے مجھے گمراہ کیاہے، پس معلوم ہو اکہ
گمراہی کو اللہ کی طرف منسوب کرنا ابلیس کا پڑھایا ہوا سبق ہے-
تفسیر برہان میں ایک طویل
روایت کے ذیل میں حضرت میرالمومنین سے مروی ہے کہ حضرت آدم کو مٹی سے خلق فرمایا تو چالیس برس
تک اس کا مجسمہ بغیرنفخِ روح کے پڑا رہا، جب بھی ابلیس لعین کااُدھر سے گزر ہو تا
تھا تو کہتا تھا کہ کسی اہم معاملہ کے لئےتجھے پیدا کیا گیا ہے اورمعصوم فرماتےہیں
کہ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر اللہ نے مجھے تیرے سجدہ کا حکم دیا تو اس بارے میں
میں ضرور نافرمانی کروں گا، پس جب حضرت آدم کے جسد میں نفخِ روح ہوئی تو روح جب
دماغ میں پہنچی تو حضرت آدم نے چھینک لی اورزبان سے اَلْحَمْدُ
لِلّٰہ کا کلمہ جاری کیا اللہ کی طرف سے یَرْحَمُکَ
اللّٰہ کا جو اب ملا، حضرت امام جعفرصادق نے فرمایاکہ اللہ کی رحمت اس کو پہلے پہنچ گئی، پھر اللہ نے ملائکہ
کوحضرت آدم کے سجدہ کا
حکم دیا تو سوائے ابلیس کے سب نے سجدہ کیا اورابلیس نے اپنے دل کا حسد ظاہر کردیا
اورسجدہ سے انکارکردیا، پس ارشادِ خالق ہوا کہ تو نے میرے اَمر کے باوجود کیوں
سجدہ نہ کیا؟ تو جواب دیاکہ
میں اس سے بہتر ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پید اکیا ہے اوراس کومٹی سے خلق کیا
ہے، حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں اَوَّلُ
مَنْ قَاسَ اِبْلِیْس کہ مخلوق میں پہلا قیاس کرنے والاابلیس ہے[5] اور اس نے تکبر کیا اورخدا کی پہلی نافرمانی
تکبّر ہی سے شروع ہوئی، آپ فرماتے ہیں کہ ابلیس نے عرض کیا میرے اللہ آدمکے سجدہ سے مجھے معاف رکھ تو میں تیری ایسی عبادت کروں گا
کہ ملک مقرب اور نبی مرسل سے بھی ایسی عبادت نہ ہو گی، پس اللہ نے فرمایا کہ میں
تیری عبادت کا محتاج نہیں ہوں، میں اپنی وہ عبادت چاہتا ہوں جومیری منشا کے مطابق
ہو نہ وہ عبادت جو تیری منشا کے موافق ہو، پس اس نے اپنے انکار کو بحال رکھا تو
ارشاد خدا وندی ہوا نکل جا میری بارگاہ سے تو راندہ ہوا ہے اور تیرے اوپر میری قیامت تک لعنت ہے ابلیس نے عرض کیا یہ
کیسے ہو سکتا ہے ؟ حالانکہ تو عادل ہے تیرے پاس ظلم و جور نہیں ہے کیا میرے سابقہ
اعمال کی جزا باطل ہو گی ؟ اللہ نے فرمایا
کہ نہیں بلکہ امور دنیا میں سے جو تیرا جی
چاہے اپنے اعمال کے بدلہ میں مجھ سے مانگ
لے پس:
• اس نے پہلا سوال
کیا کہ مجھے یوم الدین تک کی زندگی عطا کر پس اللہ نے فرمایا کہ میں نے
تجھے عطا کردی-
• اس نے کہا مجھے
اولاد آدم پر قابو دے فرمایا یہ بھی دے دیا-
• اس نے عرض کیا
مجھے ان کے رگ وریشہ میں گھسنے کی توفیق دے فرمایا یہ بھی تجھے دے دیا-
• اس نے کہا آدم کی اولاد
میں سے ایک کے بدلہ میں مجھے دو فرزند عطا کر اور میں ان کو دیکھوں اور وہ مجھے نہ
دیکھیں اور میں ان کے سامنے ہر شکل میں آسکوں اللہ نے فرمایا یہ بھی تجھے دے دیا-
• اس نے عرض کیا
کچھ اور بھی دے تو اللہ نے فرمایا تیرا اور تیری اولاد کا اولاد آدم کے سینوں میں وطن ہوگا-
تو ابلیس نے کہ بس اتنا کافی
ہے اور اس وقت ابلیس نے کہا تیری عزت کی قسم سوائے تیرے مخلصین بندوں کے تمام کو
گمراہ کروں گا اور ان کے پاس سامنے پیچھے دائیں اور بائیں سے حاضر ہوں گا پس اکثر
ان کے شکر گزار نہ ہوں گے جیسا کہ قرآن میں ہے فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ
اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ
الْمُخْلَصِیْنَ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّھُمْ مِنْ بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مِنْ
خَلْفِھِمْ وَ مِنْ اَیْمَانِھِمْ وَ عَنْ شَمَائِلِھِمْ فَلا تَجِدُ اَکْثَرَ
ھُمْ شَاکِرِیْنَ- [6]
بروایت زرارہ حضرت امام جعفر
صاد ق سے منقول ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو یہ طاقت عطا کی تو حضرت آدم نے عرض کیا
اے ربّ تو نے ابلیس کو میری اولاد پرمسلط کردیا اور اس کو اُن کے رگ و ریشہ میں
مثل خون کے جاری ہونے کی قوت دے دی اور اس کے علاوہ جو کچھ تو نے اس کودیا سودیا
میرا اور میری اولاد کا کیا حال ہوگا ؟ پس خدا نے فرمایا تیرے اور تیری اولاد
کےلئے یہ ہے کہ گناہ کریں گے تو ایک کا ایک اور نیکی کریں گے تو ایک کا بدلہ دس
دوں گا، حضرت آدم نے عرض کیا کچھ اور اللہ نے فرمایا
کہ ان کےلئے روح کے حلقوم تک پہنچنے تک توبہ کا دروازہ کھلا ہوگا، حضرت آدم نے عرض
کیااے ربّ کچھ اور بھی ! تو اللہ نے فرمایا کہ میں ان کے گناہ بخشو ں گا اور مجھے
اس کی پر واہ نہیں ہے، تب حضرت آدم نے عرض کیا بس مجھے کافی ہے، زرارہ
کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا میں آپ پر فدا ہوں ابلیس کس وجہ سے عطیہ خداوندی کا اس
قدر حقدار ہوا تھا؟ آپ نے فرمایا کہ اس کی ایک نیکی تھی جس کا خدا نے بدلہ دیا میں
نے عر ض کیا میں آپ پر فدا ہوں وہ کونسی نیکی تھی جو ابلیس سے ہوئی؟ آپ نے
فرمایااس نے آسمان میں دورکعت نماز پڑھی تھی جس پر چار ہزار برس صرف کئے تھے -
تفسیر برہان میں حضرت امام
موسیٰ کا ظم سے مروی ہے کہ جب جناب رسالتمآبﷺ نے خواب میں تیم ،عدی اوربنی اُمیہ کو اپنے منبر پر سوار پا یا اوراس سے
گھبرا گئے، پس خداوند کریم نے اس کو تسلی دی وَ
اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَةِ اسْجُدُوْا
لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْا اِلَّا اِبْلِیْس اَبٰی [7]
اے محمد میں نے حکم دیا تھا پس میری اطاعت نہ کی گئی تھی پس تو بھی گھبرا نہیں کہ
تو امر کرے اوراپنے وصی کے معاملہ میں تیری اطاعت نہ کی جائے-
درسِ عبرت
خداوند کریم نے جس طرح حضرت آدم کی خلقت کا
ذکر اورملائکہ کے سجود کا واقعہ ہمارے اوپر ا پنا فیض عمیم اوراحسان عظیم یاد
دلانے کی خاطر پیش فرما کراپنی عبودیت کی دعوت دی اورشیطان کی پیروی سے روکنے
کےلئے ہماری رگ ِحمیت کو حرکت دی اورواضح کیا کہ وہ وہ ہے جس نے ابتداسے تمہارے
بابا کے ساتھ یہ برتاوٴکیا تھا پھر بھی تم اسی آبائی دشمن کے دھوکے میں آکر اپنے
محسن سے روگردانی کرتے ہو؟
اسی طرح اس امر پر بھی متنبہ فرمایا کہ میری
عبادت وہ ہے جو میرے حکم اورمنشاکے موافق ہو کسی کی ایسی عبادت جو منشائےایزدی کے
خلاف ہو وہ ہر گز قابل قبول نہیں ہو سکتی اوراللہ کو پسند وہی عبادت ہے جو اللہ کا
بھیجا ہوا رسول سکھائے یا اس کے چلے جانے کے بعد اس کے صحیح قائم مقام اس کا طریقہ
تعلیم فرمائیں ورنہ ہر من گھڑت عبادت قطعاً شرفِ قبولیت کو نہیں پہنچ سکتی-
اورشیطان سجدہ کا منکر نہیں تھا صرف اللہ
کے فرمائے ہوئے طریقہ پر سجدہ کرنے کے
خلاف تھا جس سے مقصود خلیفةُ اللہ کی نافرمانی تھا معلوم ہوا کہ خلیفةُ اللہ کی
تعظیم کا انکار یا اس کی نافرمانی ہزاروں برس کی عبادت پر پانی پھیر دیتے ہیں
اورنوری مخلوق کے مدتوں کے ساتھی کو ابلیس ومردود بنا دیا کرتی ہے-
لیکن یادرہے کہ وہ سجدہ کا انکاری نہ تھا عبادت
کا منکر نہ تھا اس لئے خدا نے اس کو مشرک نہیں کہا بلکہ کافر کہا ہے اورنماز ترک
کرنے والوں کو خدا نے قرآن میں مشرک کہا ہے فرماتا ہے:
اَقِیْمُوْاالصَّلٰوةَ
وَ لا تَکُوْنُوْ ا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ نماز قائم کرواورمشرک نہ بنو- [8]
پس مسلمانوں کو خصوصاً شیعہ
کو اس واقعہ سے عبرت حاصل کرکے نماز جیسے فرائض کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرنا
چاہیے -