شکم مادر میں کلام
حضرت یحییٰؑ سب سے پہلے حضرت عیسیٰؑ پر
ایمان لائے یہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی تھے اور حضرت یحییٰؑ چھ ماہ عمر میں
حضرت عیسیٰؑ سے بڑے تھے اور حضرت عیسیٰؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے سے پہلے شہید کر
دئے گئے تھے۔
تفسیر امام علیہ السلام سے تفسیر صافی میں
منقول ہے کہ سوائے حضرت زکریا ؑ کے حضرت مریم ؑ کے پاس کوئی بھی نہیں جایا کرتا
تھا اور آپ ؑ جس طرف جاتے تھے حضرت مریم ؑ کے حجرہ کو قفل لگا کر جاتے تھے پس جب
حضرت مریم ؑ کو حضرت عیسیٰؑ کا حمل ہوا تو حضرت زکریا ؑ نے محسوس فرمایا کہ لوگ اس
معاملہ میں مجھے تہمت دیں گے چنانچہ اپنی زوجہ سے یہ ماجرا بیان کیا تو اس نے جواب
دیا کہ آپ ؑ خوف نہ کریں اور مریم ؑ کو میرے پاس لائیں تاکہ میں اس سے حقیقت
دریافت کروں؟ پس حضرت زکریاؑ حضرت مریم ؑ کو لائے تو چونکہ حضرت زکریا ؑ کی زوجہ مریم
ؑ کی بڑی بہن تھی لہذا تعظیم کےلئے نہ اٹھی تو حضرت یحییٰؑ نے بقدرتِ خدا شکم مادر
میں آواز دی اے ماں! آپ ؑ کے پاس جہان کی عورتوں کی سردار آئی ہے جو جہاں کے مردوں
کے سردار کی ماں ہے لہذاآپ ؑ کو اس کی تعظیم کےلئے اٹھنا چاہیے پس زوجہ زکریا ؑ
تعظیم کے لئے اٹھیں۔
اہل بیت ؑ عصمت کے لئے شکمِ مادر کے اندر
کلام کرنا روایات سے ثابت ہے کہتے ہیں جناب رسالتمآب جب جناب فاطمہ بنت اسد کے پاس
تشریف لاتے تھے تو جناب فاطمہ ؑ آپ کی تعظیم کے لئے اٹھ کھڑی ہوتی تھیں ایک دفعہ
بعض بنی ہاشم نے بی بی کو اس تعظیمی قیام سے روکنا چاہا تو شکم سے آواز بلند ہوئی
کہ اماں یہ رسول و سید کائنات ہیں ان کی تعظیم کےلئے آپ کو اٹھنا چاہےے۔
کتب معتبرہ سے یہ روایت اگرچہ مجھے نہیں مل
سکی لیکن بیان کرنے والے اسی طرح بیان کرتے ہیں البتہ یہ فعل قدرت خدا سے بعید
نہیں اور نیز اس کی نظیر بھی پہلے حضرت یحییٰؑ میںموجود ہے لہذا استعجاب کی کوئی
وجہ نہیں، اسی طرح شکم اطہر میں جناب بتولِ معظمہ خاتونِ جنت کا اپنی ماں کےلئے
مونس تنہائی ہونا اور سید الشہدارُوْحِیْ وَ اَرْوَاحُ الْمُوْمِنِیْنَ لَہُ
الْفِدَا کا شکم مادر میںاپنی والدہ ماجدہ سے ہمکلام ہونا بھی روایات میں موجود
ہے۔
جو خدا درخت میں کلام پیدا کر سکتاہے
حیوانات سے کلام کروا سکتا ہے بلکہ جمادات سے بھی گویا ئی پیدا کر سکتا ہے چنانچہ
جناب رسالتمآب کے ہاتھوں پر سنگریزوں کا بولنا اور آپ کی رسالت کی تصدیق کرنا عام
کتب میں مذکورہے پس کیا عجب ہے کہ وہ بچے کو شکم کے اندر طاقت گویائی دے دے؟
ظاہری اسباب کے لحاظ سے تو بعد از پیدائش
بھی بچہ بولنے کے قابل نہیں ہو سکتا جب تک ایک خاص عرصہ اس کی تربیت ظاہری میں صرف
نہ ہو جائے پس ہر خلاف عادت چیز کو محال عقلی کہنے والے تو حضرت عیسیٰؑ کے مہد میں
تکلم کرنے یا بچے کے حضرت یوسف ؑ کی پاکدامنی کی گواہی دینے کو بھی اوپری نگاہ سے
دیکھتے ہیں لیکن قدرت خدا کو محیط جاننے والوں کےلئے جس طرح بعد از ولادت اور قبل
از وقت بچے کا بولنا ممکنات میں سے ہے اسی طرح قبل از ولادت بھی ممکنات میں سے ہے
البتہ عادتاً محال ہے لیکن بہت سے عادی محال بقدرت خدا واقع ہو جایا کرتے ہیں اور
خدا ہر شئے پر قادر ہے اور یہی چیز خاصانِ خدا کا دوسری عام مخلوقات سے طرّہ
امتیاز ہے۔