التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

العروۃ الوثقٰی کی تاویل

العروۃ الوثقٰی کی تاویل
اَلْعُرْوَةُ الْوُثْقٰی: اس بارے میں چند روایات مذکور ہیں:
(۱)   برہان میں ابن عباس سے منقول ہے کہ جناب رسالتمآب نے فرمایا کہ جو شخص اَلْعُرْوَةُ الْوُثْقٰی سے تمسک پکڑنا چاہے جو کبھی نہ ٹوٹے گا تو اس کو چاہیے کہ میرے بھائی اور وصی حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کی ولایت سے تمسک پکڑے کیونکہ اس کا محب و موالی ہلاک نہ ہوگا اور اس کا منکر و دشمن نجات نہ پائے گا
(۲)   حذیفہ بن اُسید سے مروی ہے کہ حضور نے ارشاد فرمایا اے حذیفہ ! میرے بعد تم پر اللہ کی حجت علی بن ابیطالب ؑ ہے اس کا کفر اللہ کا کفر اس کا شرک اللہ کا شرک اس میں شک اللہ میں شکاس سے کنارہ اللہ سے کنارہ اس کا انکار اللہ کا انکار اور اس پر ایمان اللہ پر ایمان ہے، کیونکہ وہ رسول اللہ کا بھائی ان کا وصی ان کی امت کا امام اور اللہ کی مضبوط رسی اور اَلْعُرْوَةُ الْوُثْقٰی ہے جوٹوٹنے والا نہیں، اور اس (علی ؑ) کے متعلق دو قسم کے انسان ہلاک ہوں گےایک غالی (جو ان کو اپنی حد سے بڑھا کر خدایا خدا کی صفات میں شریک کہیں گے) دوسرے مقصر (جو ان کو اپنے حقوق سے پیچھے ہٹاکر دوسروں کو ان کی جگہ دیں گے) اے حذیفہ علی ؑ سے جدا نہ ہونا ورنہ تو مجھ سے جدا ہو جائے گا اور علی ؑ کی مخالفت نہ کرنا ورنہ تو میرا مخالف ہو گا کیونکہ علی ؑ مجھ سے ہے اور میں علی ؑ سے ہوں جس نے اس کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اور جس نے اس کو راضی کیا اس نے مجھے راضی کیا
(۳)   اسناد سابق سے جناب رسالتمآب نے فرمایا حسین ؑ کی اولاد سے ہونے والے امام کی اطاعت جس نے کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نا فرمانی کی یہی عُرْوَةُ الْوُثْقٰی ہیں اور یہی اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں
(۴)   نیز جناب رسول خدا سے منقول ہے کہ جو شخص عُرْوَةُ الْوُثْقٰی ( دستاویز محکم ) سے تمسک پکڑنا چاہے پس وہ علی ؑ اور اس کی اہل بیت کی محبت کو اختیار کرے
(۵)   جناب امام جعفر صادقؑ سے مروی ہے کہ آپ ؑ نے ایک اپنے لمبے خط میں ارشاد فرمایا کہ رسول خدا اپنی امت میں ایک کتابِ خدا اور دوسرے اپنا وصی علی ؑ بن ابی طالب چھوڑ گئے جو امیرا لمومنین امام المتین حبل اللہ المتین عروة الوثقٰی اور عہد موکد ہیں یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں، ان میں سے ہر ایک دوسرے کا مصدق ہے
(۶)   بطریق مخالفین عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے منقول ہے کہ حضرت رسول خدا نے حضرت علی ؑ کو فرمایا اَنْتَ الْعُرْوَةُ الْوُثْقٰی (تو خدا کی محکم دستاویز ہے)
(۷)   امام علی رضا ؑ سے منقول ہے کہ جناب رسالتمآ ب نے فرمایا میرے بعد تاریک فتنہ ہو گا نجات وہی پائے گا جو عروة الوثقیٰ سے تمسک پکڑے گا، جب اس کے متعلق دریافت کیا گیا کہ وہ کون تھے؟ تو فرمایا کہ سید الوصین کی ولایت پھر پوچھا گیا کہ سید الوصییّن کون ہے؟ تو فرمایا امیر المومنین پھر پوچھا گیا کہ وہ کون ہو گا؟ تو فرمایا کہ جو مسلمانوں کا حاکم اور میرے بعد امام ہو گا پھر سوال ہوا کہ آپ کے بعد امام اور مسلمانوں کا حاکم کون ہو گا؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہ میرا بھائی علی ؑ بن ابی طالب ہے
 اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: تفسیر برہان میں کافی اور دیگر کتب امامیہ سے بروایت عبد اللہ بن ابی یعفور منقول ہے کہ میں حضرت امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں لوگوں سے ملتا جلتا ہوں تو مجھے تعجب ہوتا ہے کہ بعض لوگ جو آپ ؑ سے تولّا نہیں رکھتے اور فلاں فلاں سے دوستی رکھتے ہیں ان میں امانت سچائی اور وفا پائی جاتی ہے اور ایک قوم جو آپ ؑ سے تولّا رکھتی ہے ان میں وہ امانت وفا اور سچائی نہیں پائی جاتی؟ راوی کہتا ہے کہ یہ سنتے ہی امام ؑ سیدھے ہو بیٹھے اور غصے میں میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا جو شخص ظالم امام ؑ کی ولایت کا قائل ہو جو خدا کی طرف سے نہیں اس کا کوئی دین نہیں اور جو شخص امامِ عادل منصوص من اللہ کی ولایت کا قائل ہو اس پر کوئی عتاب نہیں میں نے عرض کیا کہ اُن کا کوئی دین نہیں اور اِن پر کوئی عتاب نہیں؟ تو فرمایا ہاں ! اُن کا کوئی دین نہیں اور اِن پر کوئی عتاب نہیں، پھر آپ ؑ نے فرمایا کہ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان نہیں سنا فرماتا ہے اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُھُمْ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلٰی النُّوْرِ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا ن کو گناہ کی تاریکیوں سے نکال کر توبہ اور بخشش کی نورانیت کی طرف منتقل کر دیتاہے کیونکہ وہ امام عادل سے تولّا رکھتے ہیں جو کہ منصوص من اللہ تھا اور خدا فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَوْلِئٰٓھُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَھُمْ مِنَ النُّوْرِ اِلٰی الظُّلُمٰتِ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے وہ نور اسلام میں تھے جب انہوں نے امام ظالم کو امام مان لیا جو اللہ کی طرف سے نہ تھا کہ وہ ان کی ولایت کی وجہ سے نور اسلام سے نکل کر کفر کی تاریکی میں چلے گئے پس خدا نے کفار کے ساتھ ان کے لئے جہنم واجب کر دیا پس وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
ابن ابی یعفور کہتا ہے کہ میں نے عرض کی کیا وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا سے عام کافر مراد نہیں ہیں؟ تو آپ ؑ نے فرمایا کہ کافروں کے پاس پہلے نور ہی کون سا تھا جس سے وہ نکالے گئے؟ بلکہ اس سے وہی معنی مراد ہے جو میں نے بیان کیا ۔
بروایت ابن شہر آشوب امام محمد باقرؑ سے منقول ہے کہ آیت مجیدہ میں نور سے مراد ولایت علی ؑ ابن ابی طالب ہے اور ظلمات سے مراد دشمنانِ علی ؑ کی ولایت ہے اور طاغوت سے مراد علی ؑ بن ابی طالب کی ولایت کے منکرین اور ان کے دوست ہیں۔
ایک روایت میں امام جعفر صادقؑ سے مروی ہے کہ حضرت امیر المومنین ؑ کے دشمن ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے خواہ اپنے نزدیک انتہائی متقی زاہد اور عبادت گزار ہی کیوں نہ ہوں۔
 اقول: اس مطلب کو استدلالی رنگ میں ہم نے تفسیر ہذا کی جلد اوّل یعنی مقدمہ تفسیر میں مفصل بیان کیا ہے ، عدل احباط شفاعت اور ولایت آلِ محمد اور ضرورتِ امام کے عناوین ملاحظہ فرمائیں، نیز اسی جلد میں اسی پارہ کے رکوع ۰۱ کی تفسیر کے ذیل میں اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلام کے تحت بھی کسی قدر بیان کیا گیا ہے۔
مسئلہ  یہ دو آیتیں ویسے آیة الکرسی سے الگ ہیں لیکن بعض نمازیں جن میں آیة الکرسی پڑھی جاتی ہے مثلاً نماز و حشت یا نماز غدیر وغیرہ تو وہاں آیة الکرسی سے مراد یہ تینوں آیتیں ہوا کرتی ہیں یعنی ان نمازوں میں ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْن تک پڑھنا چاہیے جس طرح کہ کتب فقہیّہ میں مذکور ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں