التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

تفسیر رکوع ۵، بنی اسرائیل کا ذکر

تفسیر رکوع ۵، بنی اسرائیل کا ذکر
تفسیر رکوع ۵-- بنی اسرائیل کا ذکر


يٰبَنِیٓ إِسْرَآئِيلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَ أَوْفُوْا بِعَهْدِیْ أُوْفِ بِعَهْدِكُمْ وَ إِيَّایَ فَارْهَبُوْنِ (40) وَ آمِنُوْا بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُوْنُوْا أَوَّلَ كَافِرٍ مبِهِ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِآيٰتِیْ  ثَمَنًا قَلِيْلًا وَّ إِيَّایَ فَاتَّقُوْنِ (41) وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوْا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (42) وَأَقِيمُوا الصَّلٰوةَ وَآتُوا الزَّكٰوةَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرَّاكِعِيْنَ (43) أَتَأْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ أَفَلا تَعْقِلُوْنَ(44) وَاسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلٰى الْخٰشِعِينَ (45) الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ أَنَّهُمْ مُلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ (46)
ترجمہ:
اے اولادیعقوب یاد کرو میری اس نعمت کو جو انعام کیا میں نے تمہارے اوپر اور تم پورا کرو میرے عہد کو میں پورا کروں گا تمہارے عہد کو اور صرف مجھ سے ڈرو (40) اور ایمان لاوٴ ساتھ اس کے جو میں نے نازل کی درحالیکہ وہ تصدیق کرنے والی ہے اس چیز کی جو تمہارے پاس ہے اور نہ بنو پہلے کفر کرنے والے اس کے اور نہ وصول کرو میری آیات کے بدلے قیمت تھوڑی اور صرف مجھ سے خوف کرو(41) اور نہ ملاوٴ حق کو ساتھ باطل کے اور نہ چھپاوٴ حق کو حالانکہ تم جانتے ہو(42) اور قائم کرونماز کو اور ادا کرو زکوٰة اور رکوع کرو ساتھ رکوع کرنے والوں کے(43) کیا امر کرتے ہو لوگوں کو نیکی کا اور بھلاتے ہو اپنے نفسوں کو حالانکہ تم تلاوت کرتے ہو کتاب (تورات کی) کیا پس تم نہیں سمجھتے(44) اور اللہ سے مدد چاہو ساتھ صبر اور نماز کے اور تحقیق یہ بات بڑی گراں ہے مگر اوپر خشوع کرنے والوں کے(45) جس کو یقین ہے (ظن کا معنی یہاں یقین ہے) کہ وہ اپنے ربّ سے ملاقات کرنے والے ہیں اور اسی کی طرف پلٹنے والے ہیں(46)


تفسیر رکوع ۵
یٰبَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ: اللہ نے اس سے پہلے عام انسانوں پر اپنی عمومی نعمتِ خلق کو ذکر کیا اور زمین کی تمام چیزوں کو انسان کے فائدہ کے لئے خلق کرنے کا ذکر کرکے اپنی عبادت ومعرفت کی طرف متوجہ فرمایا اور پھر حضرت آدم کی تخلیق وخلافت اور ملائکہ کا اس کے سامنے سجدہ کرنے کا بنی آدم پر خصوصی احسان بیان فرما کر انسان کو خطا کے بعد توبہ کی طرف متوجہ ہونا سکھا یا جس  کی تفصیل قدرے بیان ہو چکی ہے، اب بنی اسرائیل پر اپنے خاص احسانات کا ذکر فرما تاہے، اس مقام پر صرف توجہ دلانے کےلئے اجمالی طور پر یاد دہانی کے بعد ان کو حق پوشی سے بچنے کی اور قرآن پر ایمان لانے کی دعوت دے کر اپنی گرفت سے ڈرایا ہے، اگلے رکوع میں اُن نعمات و احسانات کی تفصیل آئے گی جن کا یہاں اجمال ہے-
 اسرائیل حضرت یعقوب کا نام ہے عبرانی زبان میں،  اِسر کا معنی عبد اور اِیل کا معنی اللہ ہو تا ہے پس اسرائیل کا معنی عربی میں عبداللہ ہو تا ہے-[1]  یعقوب ان کو اس لئے کہا گیا کہ ان کا بھائی عیص اور یہ دونوں جڑواں پیدا ہوئے پہلے عیص کا تولد ہوا اور ان کے بعدیہ پیدا ہوئے تو چونکہ یہ بعد میں پیدا ہوئے اس لئے ان کو  یعقوب کہا گیا[2]   یعنی بعد میں پیدا ہونے والا، لفظ یعقوب عقب سے مشتق ہے، اسی طرح امام حسن عسکر ی سے مروی ہے-
 اَوْفُوْا بِعَھْدِیْ اُوْفِ بِعَھْدِکُمْ: تورات میں خدا وندکریم نے بنی اسرائیل سے عہد فرمایا تھا کہ میں ایک نبی یعنی حضرت محمد مصطفی کو مبعوث کروں گا جو اس کی اطاعت کرے گا اس کو دوگنا اجر عطا کروں گا، ایک اَجر موسی اور تورات پر ایمان لانے کا اور دوسرا اَجر جناب محمد مصطفیاور قرآن پر ایمان لانے کا،  اور جو شخص ان پر ایمان نہ لائے گا اس کو سزا کے طور پر جہنم میں داخل کروں گا، پس یہاں اُسی عہد کو یاد دلا رہا ہے، یہ بنی اسرائیل جو اس وقت جناب رسالتمآب کے زمانہ میں تھے گو اُس وقت موجود نہ تھے لیکن چونکہ تورات پر ایمان کا دعویٰ رکھتے تھے لہذا وہ عہد ان کو شامل تھا اور اس کی وفا اُن پر لازم واجب تھی-[3]
تفسیر برہان میں اسی آیت کے ذیل میں ابن بابو یہv سے بسند متصل ابن عباس سے مروی ہے کہ جناب رسالتمآب نے جب یہ آیت اُتری تو فرمایا کہ جب حضرت آدم دنیا سے رخصت ہوئے تو اپنے فرزند حضرت شیث کے ساتھ وفا کرنے کا اپنی امت یعنی باقی اولاد سے عہد لیا لیکن اس عہد کی وفا نہ کی گئی اور جب حضرت نوح دنیا سے گئے تو انہوں نے اپنے فرزند حضرت سام کےلئے اپنی امت سے وفا کا عہد لیا لیکن ان کی امت نے وفا نہ کی اور حضرت ابرہیم نے دنیا سے جاتے ہوئے اپنے فرزند حضرت اسماعیل کےلئے اپنی قوم سے وفا کا عہد لیالیکن امت نے پورا نہ کیا اور حضرت عیسیٰ بن مریم آسمان پر تشریف لے گئے تو انہوں نے اس پہلے اپنی قوم سے اپنے وصی حضرت شمعون کے ساتھ وفاکرنے کا عہد لیا لیکن امت نے وفانہ کیا اب میں بھی عنقریب تم سے جدا ہونے والاہوں اورتمہارے درمیان سے رخصت ہونے والاہوں اورمیں نے بھی اپنی امت سے بھائی علی بن ابی طالب کےلئے عہد لیا ہے لیکن یہ بھی گزشتہ امتوں کے نقش قدم پر چل کر میرے وصی کی مخالفت ونافرمانی کریں گے، آگاہ رہو ! علی کے بارے میں میں اپنے عہد کو تازہ کرتا ہوں پس جو شخص اس عہد کو توڑے گا اس کا وبال اس کے سر پر ہوگا اور جو وفا کرے گا خدا اس کو اَجر عظیم عطا کرے گا-
اَیُّھَا النَّاسُ!   اے لوگو علیمیرے بعد تمہاراامام ہے اور تمہارے اوپر میرا خلیفہ ہے اور یہی میرا وصی ہے اور وزیر بھی ہے، میرا بھائی بھی ہے اور ناصر بھی ہے، میری شہزادی کا شوہر بھی ہے اور میری اولاد کا باپ بھی ہے، میری شفاعت حوض اور لواءکا مالک بھی ہے، جس نے اس کا انکار کیا اس نے میری نبوت کا انکار کیا اور جس نے میرا انکار کیا اس نے اللہ کا انکار کیا اور جس اس کی امامت کا اقرار کیا اس نے میری نبوت کا اقرار کیا اور جس نے میری نبوت کا اقرار کیا اس نے اللہ کی توحید کا اقرار کیا-
اَیُّھَا النَّاسُ!  اے لوگو! جس نے علی کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی، جس نے علی کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی-
اَیُّھَا النَّاسُ!  جس نے علی کے قول و فعل کی تردید کی اس نے میری تردید کی اور جس نے میری تردید کی اس نے عرش کے اوپر اللہ کی تردید کی-
اَیُّھَا النَّاسُ!  لوگو جس نے علی کے اوپر کسی اور امام کو ترجیح دی گویا اس نے میرے اوپر کسی اور نبی کو ترجیح دی گویا اس نے اللہ کے علاوہ کسی اور کو ربّ ہونے میں ترجیح دی-
اَیُّھَا النَّاسُ! علی سید الوصییّن ہے نوریوں کا سردار ہے اور مومنوں کا مولا ہے اس کا ولی میرا ولی اور میرا ولی اللہ کا ولی ہے اس کا دشمن میرا دشمن اور میرا دشمن اللہ کا دشمن ہے، پس علی کے بارے میں اللہ کے عہد کی وفا کرو وہ قیامت کے دن تمہارے ساتھ جنت کے عہد کی وفا کرے گا-
وَ لَاْ تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ : مجمع البیان میں امام محمد باقر سے منقول ہے کہ حیی بن اخطب اور کعب بن اشرف اور  علمائے یہود کیلئے عوام یہودیوں کی طرف سے سالانہ وظائف مقرر تھے اورجب رسالتمآب کے دین کی ترویج واشاعت میں انہیں اپنے مقررہ وظائف کے بند ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوا جس کو وہ نہ چاہتے تھے تو پس انہوں نے جناب رسالتمآب کا ذکر وجملہ اوصاف جن کا تورات میں ذکر تھا سب کو بدل ڈالاپس قرآن ان کی اسی شرارت کی خبر دے رہاہے اوران کو نصیحت کر رہاہے کہ میری آیات کے بدلہ میں دنیاوی فوائد حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو کیونکہ دنیا کا فائدہ خوا ہ کتنا زیادہ ہی کیوں نہ ہو آخرت کے فوائدکے مقابلہ میں اقل قلیل ہے-
پس یہ خطابات علمائے یہود کی طرف راجع ہیں کہ اس کتاب پرایمان لاوٴ جو تورات کی تصدیق کرتی ہے اوراس کے ساتھ کفر کرنے میں پہل نہ کرو کیونکہ تمہارے پیچھے عوام یہود بھی تم کو دیکھ کر گمراہ ہوں گے اورسب وبال آخرت میں تمہارے اوپر ہو گا اور دنیاوی مالِ قلیل کے بدلہ میں تورات کی آیات کی تحریف کرکے اپنی عاقبت کو خراب نہ کرو اورمجھ سے ڈرواورحق کو چھپانے کی خاطر حق وباطل کو خلط وملط نہ کرو حالانکہ تمہیں تورات کی روسے بھی معلوم ہے کہ ایسا کرنے والے کا انجام آتش جہنم ہے-


[1] تفسیر صافی ج۱ ص۸۲
[2] علل الشرایع
[3] مجمع البیان ج۱

ایک تبصرہ شائع کریں