التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

کلام ملکوئی اور فلفسہ شیطانی میں فرق

کلام ملکوئی اور فلفسہ شیطانی میں فرق
نکتہ -- کلام ملکوئی اور فلفسہ شیطانی میں فرق
کلام وہ ملفوطات ہیں جو باہمی نسبت وربط پر مشتمل ہو کر مخاطب تک مافی الضمیر کے پہچانے کے ذریعہ ہوں اوراسے قول بھی کہا جاتاہے لیکن عرف عام ہیں ہر وہ حرکت جو مافی الضمیر کو دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ بنے اسے بھی کلام وقول کہا جاتا ہے خواہ آواز کی قسم ہو یا اشارہ ورمز کے طریقہ سے ہو آواز ایک ہو یا متعدد ہوں اورہر وہ آواز جو پورا فائدہ دے سکنے والی ہو خواہ کسی منہ سے نہ نکلے اسے کلام وقول کہنے میں تو کسی کو مجال توقف ہی نہیں۔
قرآن مجید نے وساوس شیطانی کو بھی کلام وقولِ شیطان سے متعدد مقامات پر تعبیر فرمایا ہے اگرچہ بعض مقامات پر اسے امر وسوسہ وحی اوروعدہ بھی کہا گیا ہے، چنانچہ یَامُرُیُوَسْوِسُ یُوْحِی اور یَعِدُ کے الفاظ اس امر کے شاہد ہیں پس جملہ خطرات اوروساوسِ شیطانی کو کلام وقول شیطان کہا جاتاہے۔
اس کے مقابلہ میں خدا کی جانب سے ا نسان کے دل میں جو باتیں تائیدی طور پر پہنچتی ہیں انہیں وعدہحکمت نورِسکینہ اور شرحِ صدر وغیرہ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور انہی خطاباتِ روحانیہ کو کلام و قول ملائکہ بھی کہا گیا ہے، چنانچہ آیاتِ قرآنیہ میں سیر کرنے کے بعد آسانی سے اس نتیجہ تک پہنچا جا سکتا ہے پس معلوم ہوا کہ ملائکہ اور شیاطین دل میں معانی و مطالب کے اِلقا کے طور پر انسان سے کلام کیا کرتے ہیں کلام ملکی اور وسوسہ شیطانی میں فرق یہ ہے کہ کلام ملکی میں شرحِ صدر مغفرت و فضل خدا وندی کا وعدہ ہوتا ہے اور اس کتاب وسنت کی پوری موافقت ہوا کرتی ہے لیکن بخلاف اس کے وسوسہ شیطانی میں تنگدلی بخل خواہش پر ستی وعدہ فقر اور ارتکابِ معصیت کی دعوت ہوتی ہے جس کا ماحصل خدا و رسول کی صریح مخالفت ہوتی ہے۔
انبیا کے لئے بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ ملائکہ مجسم ہو کر ان کے سامنے آئے اور ان سے ہمکلام ہوئے اور بعض اوقات شیطان بھی تجسم کے بعد ان سے گویا ہوا جس طرح قرآن میں انبیا کے قصص و واقعات میں تصریح سے مذکور ہے۔
حضرت زکریا ؑ کو ملائکہ کا ندا دے کر فرزند کی بشارت دینا ظاہر ًا تجسم کی صورت میں نہیں تھا بلکہ اِلقا قلبی کے طریقہ پر تھا جسے وہ فوراً کلام ملکوتی سمجھتے ہوئے مطمئن ہو گئے اور مزید سرورا ور شرحِ قلب کے لئے نشانی کے طالب ہوئے اور اسی کلام ملائکہ یا ان کے قول اور ندا کو دوسری آیات میں خدا وند کریم نے اپنی طرف بھی منسوب فرمایا ہے اور حضرت زکریاؑ کے تین دن تک کلام نہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تین دن متواتر آپ ؑ کی زبان سوائے ذکر خدا کے کسی اور طرف متحرک نہ ہوئی۔

ایک تبصرہ شائع کریں