آیاتِ فاتحہ ابوابِ جنت کی کنجیاں ہیں
عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے حضرت رسالتمآب ﷺنے فرمایا کہ شب معراج جب آسمانوں کی سیر کرائی گئی تو جنت کی نعمات کو دیکھا
اور جہنم کے عذاب کو بھی دیکھا جنت کے آٹھ دروازے تھے کہ ہر دروازے پر چار ایسے
کلمات مرقوم تھے کہ اُن کا ہر ایک کلمہ جاننے اور عمل کرنے والے کے لیے دنیا و
مافیہا سے بہتر ہے مجھے جبرائیل نے کہا کہ پڑھو تو میں نے پڑھا:
پہلے دروازے پر لکھا تھا:
لا اِلٰہَ
اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُولُ اللّٰہِ عَلِیّ وَّلِیُّ اللّٰہِ ہرشئے کے لیے حیلہ ہوا کرتا ہے اور آرام کی زندگی کے چار
حیلے ہیں: (۱) قناعت (۲) بجاخرچ (۳) کینے
کا ترک کرنا (۴) نیکوں کی صحبت
دوسرے دروازے پر مرقوم تھا:
لا
اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُولُ اللّٰہِ عَلِیّ وَّلِیُّ اللّٰہِ
ہر شئے کے لیے حیلہ ہوتا ہے اور آخرت کی خوشی کے چار حیلے ہیں: (۱) یتیموں کے سر
پر ہاتھ پھیرنا (۲) بیواوٴں پر رحم کرنا (۳) مومنین کی حاجت برآوری
میں کوشش کرنا (۴) فقرا اور مساکین کی خبر گیری کرنا
تیسرے دروازے پر تحریر تھا:
لا اِلٰہَ
اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُولُ اللّٰہِ عَلِیّ وَّلِیُّ اللّٰہِ ہر شئے کے لئے حیلہ ہوتا ہے اور دنیا کی تندرستی کے چار
حیلے ہیں: (۱) کم بولنا (۲) کم سونا (۳) کم چلنا (۴) کم کھانا
چوتھے دروازے پر منقوش تھا:
لا اِلٰہَ
اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُولُ اللّٰہِ عَلِیّ وَّلِیُّ اللّٰہِ (۱) جو شخص اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہو پس اس کو لازم
ہے کہ مہمان کی عزت کرے (۲) جو شخص اللہ اور یوم قیامت پر ایمان رکھتا ہو اس کو
چاہیے کہ اپنے ہمسایہ کی حرمت کا خیال رکھے (۳) جو شخص اللہ اور یوم قیامت پر
ایمان رکھتا ہو ضروری ہے کہ اپنے والدین کا احترام کرے (۴) اور جو شخص اللہ اور
یوم قیامت پر ایمان رکھتا ہو پس وہ نیکی کی بات کہے ورنہ خاموشی اختیار کرے
پانچویں دروازے پر مکتوب
تھا:
لا اِلٰہَ
اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُولُ اللّٰہِ عَلِیّ وَّلِیُّ اللّٰہِ (۱) جو شخص اپنے اوپر ظلم برداشت نہ کرے تو وہ دوسرے پر
ظلم سے اجتناب کرے (۲) جو شخص گالی دیا جانا نہ پسند کرے اُسے چاہیے کہ خود بھی
کسی کو گالی نہ دے (۳) جو شخص ذلیل ہونا نہ چاہے وہ کسی دوسرے کو ذلیل نہ کرے (۴)
اور جو دنیا و آخرت میں مضبوط تعلق سے وابستگی چاہے پس اِس کلمہ کو پڑھے لا
اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُولُ اللّٰہِ عَلِیّ وَّلِیُّ اللّٰہِ
چھٹے دروازے پر درج تھا:
لا اِلٰہَ
اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُولُ اللّٰہِ عَلِیّ وَّلِیُّ اللّٰہِ (۱) جو شخص قبر میں کشادگی کا تمنائی ہو اُسے چاہیے کہ
مساجد کی بنا کرے (۲) جو شخص چاہے کہ میں قبر میں بوسیدہ نہ ہوں پس (عبادتِ خدا
کےلئے) مساجد میں سکونت کرے (۳) جو شخص چاہے کہ زمین کے نیچے مجھے کیڑے مکوڑے نہ
کھائیں پس وہ (یادِ خدا کےلئے)مساجد میں بسیرا کرے (۴) اور جوشخص جنت میں اپنا گھر دیکھنا چاہے (پس ذکر ِخدا کےلئے)مساجد
میں رہے
ساتویں دروازے پر ثبت تھا:
لا اِلٰہَ
اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُولُ اللّٰہِ عَلِیّ وَّلِیُّ اللّٰہِ نورانیت چار چیزوں میں ہے: (۱) بیمار پرسی (۲) تشییع جنازہ
(۳) کفن کو خرید کر رکھنا (۴) قرض کا ادا کرنا
آٹھویں دروازے پر رقم تھا:
لا اِلٰہَ
اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُولُ اللّٰہِ عَلِیّ وَّلِیُّ اللّٰہِ جو شخص اِن دروازہ ہائے جنت سے گزرنے کا متمنی ہو وہ اپنے
اندر چار خصلتیں پیدا کرے: (۱) سخاوت (۲) خوش خلقی (۳) صدقہ (۴) اللہ کے بندوں کو
ایذا رسانی سے پرہیز (الخبر) [1]
ملا صدر الدین شیرازی vاپنی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں جس کا ماحصل یہ ہے کہ نماز چونکہ بفرمانِ
معصوم مومن کی معراج ہے پس اِس معراج کی تیاری کےلئے پہلے پہل ظاہری نجاسات و کثافات کو بدن ولباس سے دور
کرے تاکہ اس کی روح اِس معراج پر فائز ہونے کے قابل ہو سکے پھر بار گاہِ ربُّ
العزت میں حاضر ہو کر پورے سکونِ قلب اورتوجہ خاطر کے ساتھ زبان سے اللہ اکبر کے
کلمات جاری کرے، جلال و عظمت خداوندی کے سامنے اپنے آپ کو جمیع ماسواءُ اللہ سے
علیحدہ پائے، پس یہ دعائے تو جہ جو مستحب ہے پڑھے وَجَّھتُ
وَجھِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرض[2] اور یہ مقام حضرت
ابراہیم خلیل الرحمن کا ہے کہ اُنہوں نے یہی کلمات ادا
فرمائے تھے، جب روحانیت کے منازل اس حد تک طے ہوگئے تو جنت کے دروازے کھلنے شروع ہوتے ہیں جن کی ترتیب
یہ ہے:
بابُ المعرفة: اَعُوذُ
بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم پڑھنے سے کھلتا ہے کیونکہ اس
میں اغوائے شیطانی سے برائت کا اظہار ہے اور تکبر سے یکسوئی ہے-
بابُ الذکر: بِسمِ
اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم کے زبان سے جاری کرنے سے کھلتا ہے-
بابُ الشکر: اَلحَمدُ
لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِینَ کے پڑھنے سے کھل جاتا ہے -
بابُ الرجا: اَلرَّحمٰنِ
الرَّحِیمِ کے پڑھنے سے کھلتا ہے -
بابُ الخوف: مَالِکِ
یَومِ الدِّین کی تلاوت سے کھلتا ہے -
بابُ الاخلاص:
اِیَّاکَ
نَعبُدُ وَاِیَّاکَ نَستَعِین کے پڑھنے سے باز ہوتا ہے -
بابُ الدعا: اِھدِنَا
الصِّرَاطَ المُستَقِیم کے زبان پر جاری کرنے سے کھلتا ہے -
بابُ الاقتدا:
صِرَاطَ
الَّذِینَ اَنعَمتَ عَلَیھِم غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیھِم وَ لاَ الضَّآلِّین کے پڑھنے سے کھلتا ہے -
پس جس طرح جنت ُالخلد کے آٹھ
دروازے ہیں اسی طرح معارفِ ربانیہ کی جنت کے بھی آٹھ دروازے ہیں اور یہ اُن کی
روحانی کنجیاں ہیں اور نماز کا معراجِ روحانی یہی ہے زیادہ وضاحت کےلئے میں نے ملا
صدرا مرحومv کے بیان کو اپنے بیان سے مخلوط کردیا
ہے-