التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

تعظیم ضرائح مقدسہ ”اِیَّاکَ نَعبُدُ“ کے منافی نہیں

تعظیم ضرائح مقدسہ ”اِیَّاکَ نَعبُدُ“ کے منافی نہیں

تعظیم ضرائح مقدسہ ”اِیَّاکَ نَعبُدُ“ کے منافی نہیں

اعتراض: عبادت کا معنی ہے انتہائی خضوع اور اِیَّاکَ کا مقدم ہونا دلالت کرتا ہے کہ خضوع صرف اللہ کی ذات کے لئے ہی ہے لہذاکسی غیرُ اللہ کے سامنے انتہائی خضوع موجب شرک ہے پس شیعوں کا آئمہ طاہرین کی ضرائح مقدسہ کی زیارت اوران کی تعظیم اوران کو بوسہ دینا وغیرہ یہ سب عبادت غیرُاللہ ہے اورشرک ہے اوراسی طرح ضرائح مقد سہ کی شبیہیں بنانا اور ان کی  تعظیم کر نا بھی شرک ہے اور ان افعال کو بت پرستی سے تعبیر کیا جاتا ہے؟
جواب: عبادت کا مفہوم بے شک غایت خضوع ہے لیکن غایت خضوع کا مطلب یہ نہیں کہ جس کو عبد خضوع سمجھے وہ خضوع ہے اور جس کو عبد خضوع نہ سمجھے وہ خضوع نہیں ہے؟ آقا اپنے غلام سے کہے کہ میرے آگے چل اورغلام کہے نہیں حضور اس میں گستاخی ہے میں تو آپ کے پیچھے ہی چلوں گا اس کو خضوع نہیں کہتے بلکہ خضوع یہ ہے کہ غلام اپنے آقاومولا کے ہر حکم کو بلاپس وپیش قبول کرے خواہ اس کی اپنی دانست میں اس حکم پر چلنا خضوع ہو یا کہ خلافِ خضوع؟ کیونکہ آقا اپنے حکم کی مصلحت کو جس طرح خود سمجھ سکتاہے غلام نہیں سمجھ سکتااوریہ بھی ضروری نہیں کہ وہ اپنے ہرحکم کی مصلحت کو اپنے غلام پرواضح کردے-
حجراسود،کعبة اللہ، صفاومروہ وغیرہ ان سب کی تعظیم کا چونکہ اس نے امرفرمایا اورشعائر اللہ کی تعظیم کو تقویٰ سے تعبیر فرمایا اب عبد جس نے فرائض عبدیت اداکرنے ہیں اس کویہ دریافت کرنے کا حق نہیں کہ تونے یہ حکم کیوں دیا؟ ہم ان جمادات کی تعظیم کیوں کریں جبکہ ہم اشرف المخلوقات ہیں؟ پس جب معلوم ہے کہ خداان کی تعظیم کو محبوب رکھتاہے تو ان کی تعظیم کرناہی غایت خضوع ہے اگر چہ وہ غیرُ اللہ ہیں اور در حقیقت یہ تعظیم ان چیزوں کی نہیں بلکہ اللہ کے حکم کی تعظیم ہے-
اسی طرح حجراسود کو بوسہ دینا گو مصلحت معلوم نہ ہوچونکہ ذاتِ خداکی فرمانبرداری ہے لہذا واجب ہے اورعبادت ہے اگرچہ ظاہراًغیراللہ کی تعظیم ہے، ملائکہ کا حضرت آدمکے سامنے سجدہ کرنا ملائکہ کی شانِ عبودیت کے منافی نہیں تھا بلکہ شیطان کا سجدہ نہ کرنا منافی خضوع وعبودیت تھا، پس معلوم ہوا کہ اللہ کے حکم کی اطاعت کا نام ہے خضوع اوراس کی اطاعت سے گریز کرنا ہے خلافِ خضوع-
مناسک حج میں حضرت ابراہیماورحضرت اسماعیلاورحضرت ہاجرہ کی سنت کو زیادہ تردہرایا گیا ہے اوروہ مقامات جوان کی طرف منسوب ہیں ان کو مشاعر یا شعائر اللہ سے موسوم کیا گیا ہے اوران کی حرمت وعزت واجب کر دی گئی ہے تاکہ اللہ کے مخصوص بندوں کی راہِ حق میں قربانیا ں اورخوشنودی خالق کے لیے ان کی جانفشانیاں یادگار رہ کر آنے والی نسلوں کو درسِ عبرت دیں اورقبولِ موعظہ میں مُمِد ثابت ہوں اوروہ یہ مناظر ومنازل اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ اللہ کی اطاعت کرنے والے رضائے خداکے لئے کونسی کٹھن منزلوں اور پر خطر وادیو ں اور ہوشربا مشقتوں سے دوچار ہوئے لیکن پائے ثبات میں تزلزل نہ آیا اورمقام عبودیت میں لغزش نہ آئی-
اورحضرت رسالتمآب جو تمام گزشتہ انبیا  ﷨کے سیدوسردارتھے ان کے ساتھ جن مقامات کو خصوصی نسبت وتعلق حاصل ہے جن کی یاد یقینا جناب رسالتمآب کے عہدکی یاد کوتازہ کرتی ہے جن کی زیارت آنحضور کے ساتھ رشتہ محبت کے استوار کرنے میں انتہائی مُمِدومعاون ہے خصوصا ًوہ ضریح پاک جس میں جسم اطہر صاحب ِلولاک زیر خاک ہے، وہ خطیرہ قدس جو قدسیّین کے آقا کے جسد نوری کا گہوارہ ہے وہ مقام مشرف جس کو مالک شرافت کے ابدی بیت الشرف ہونے کا شرف حاصل ہے اور وہ زمین مطہر جس کی طاہر گود میں مالک تطہیر آرام فرما ہیں وہ کیونکر شعائر اللہ سے نہیں؟ اور اس کی عظمت کا برقرار رکھنا اور اس کے عہد کا تازہ کرنا کیوں ناجائز ہے؟ اور اس کو بوسہ دینا کیوں شرک ہے؟ جبکہ حجر اسود کو بوسہ دینا عین عبادت ہے؟
اعتراض: حضرت ابراہیم و اسماعیلو ہاجرہ کی یادگاروں کی تعظیم کا حکم چونکہ ثابت ہے لہذا عبادت ہے اور جناب رسالتمآب کے روضہ اقدس کی تعظیم اور اس کو بوسہ دینا کسی حکم شرعی سے ثابت نہیں لہذا بدعت ہے؟
جواب: جب ایک عالم اپنے شاگرد کو کہے کہ فلاں شخص کی عزت کیا کرو وہ ایک عالم دین کی اولاد اور اس کی نشانی ہے، اب یہ عالم اگر مر جائے تو کیا شاگرد یہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے استاد نے اپنی اولاد کی عزت کرنے کا حکم تو نہیں دیا تھا لہذا میرے اوپر صرف اُسی عالم کی اولاد کی تعظیم کرنا واجب ہے جس کے متعلق استاد نے حکم دیا تھا؟ ہرگز نہیں بلکہ ایسے شاگرد کو احسان فراموش اور بد ترین انسان سمجھا جائے گا کیونکہ عقل بتلاتی ہے کہ جب استاد نے ایک معیار بتلا دیا تھا تو افراد کی تطبیق اپنا فریضہ تھا اور استاد کی اولاد اس معیار کی رو سے بہ نسبت بتلائے ہوئے عالم کی اولاد کے زیادہ قابل تعظیم اور لائق عزت ہے-
بعض روایات کا مفہوم ہے کہ جس نے کسی کو ایک حرف پڑھا دیا گویا اس نے اس کو اپنا غلام بنا لیا اس سے شاگرد یہ نتیجہ نہیں نکال سکتا کہ جس نے اس کو زیادہ تعلیم دی ہو وہ اس کلیہ سے خارج ہے بلکہ زیادہ پڑھانے والے کی اسی قاعدہ کی رو سے بدرجہ اولیٰ زیادہ تعظیم کرنا واجب ہو جاتی ہے اس قسم کی مثالیں بہت زیادہ ہیں-
پس حضرت ابراہیمکی یاد میں ان کی بعض سنتوں پر عمل کرنے کا ہم کو حکم ہے اور وہ تا قیامت ہمارے لئے دستور العمل ہیں تو فخر ابراہیماور سید الانبیا جن کی پوری زندگی کا ہر قول و فعل ہمارے لئے مشعل راہ اور اسوہ  حسنہ ہے ان کے نشانات اور مقدس مقامات ہمارے لئے کیوں نہ محل عزت و احترام ہوں؟ حضرت ابراہیم کی اولاد کی طرف منسوب چیزیں جن کی راہِ خدامیں قربانی ایک محدود حیثیت کی حامل تھی شعائر اللہ ہوں اور حضرت سید الانبیا  کی عترتِ طاہرین کے عتباتِ عالیات جن کی راہِ حق میں قربانی پورے عالم میں نظیرنہیں رکھتی کیوں نہ شعائر اللہ ہوں؟ اوران کی یاد کو تازہ کرنا کیوں نہ اعظم قربات سے قراردیا جائے؟ جبکہ ان کی سیرت وکردار پرعمل کرنا جسد انسانیت کی روح وجان اور عالمی تشتت و افتراق کےلئے دعوتِ اتحاد اورپیغام امان واطمینان ہے، پس ان ضرائح مقدسہ کی زیارت اوران کے آستانِ قدس پر جبہ سائی اوران کی حرمت وعظمت کی پاسبانی تاکہ ان کے واقعات کی یاد کو تازہ کرکے اپنے جسد ظلمانی کو روحِ ایمانی سے زندہ کیا جاسکے یا حضیض حیوانیت سے اوجِ انسانیت کی طرف قدم بڑھایاجاسکے، یقینامطلوب بارگاہِ ربُّ العزت ہے اورقربِ خداتک رسائی کا بہترین زینہ ہے-
اگر بوسہ دینا شرک فی العبادة ہے توگزارش ہے کہ کیا احترام کی غرض سے قرآن مجید کے حوف اور وہ کاغذجن پرقرآن لکھاہے ان کو بوسہ دینا شرک نہیں ہے؟ محبت کی غرض سے اپنی اولاد کو بوسہ دینابدعت وشرک نہیں؟ توپھر اظہارِ محبت یا مقام احترام کے پیش نظر مقاماتِ مقدسہ کو بوسہ دینا کیوں بدعت وشرک ہے جبکہ مقصود صرف یہ ہوتاہے کہ یہ اللہ والوں کی یاد گاریں ہیں جن کی یاد یادِ خداکا درس دیتی ہے اورجن کا ذکر ذکرِ خدا کا شوق دلاتاہے؟
ہاں آئمہ طاہرین کے عتباتِ عالیات کی زیارت اس لئے کی جاتی ہے کہ طبیعت میں جذبہ عبادت پیدا ہو اس لئے نہیں کہ وہ خود مقصودِ عبادت ہیں ورنہ ہمارے نزدیک ضرائح مقد سہ تو بجائے خود کعبہ (بیت اللہ) کا سجدہ کرنا بھی ناجائز ہے جبکہ بیت اللہ کو معبود قرار دیا جائے، یعنی شعائر اللہ کی تعظیم اس لئے ضروری ہے کہ ان سے درسِ عبادت حاصل ہو نہ اس لئے کہ خود ان کو مقصود عبادت قرار دیا جائے، پس صفا،مروہ، مقام ابراہیم، حجرا سود، کعبہ وغیرہ یہ سب چیزیں غیرُ اللہ ہیں اورخود ان کو معبود ماننا کفر وشرک ہے، پس جب ہم کعبہ کو معبود نہیں جانتے تو کسی اور مقام کو کیوں معبود قرار دیں ؟
یہی وجہ ہے کہ ہمارے نزدیک آئمہ کی ضرائح مقدسہ کی زیارت پڑھنے کے بعد مستحب ہے کہ دورکعت نماز زیارت سر کی جانب پڑھی جائے یعنی ضرائح کے سیدھا پیچھے ہو کر پڑھنے سے بچاجائے تاکہ ضرائح مقدسہ کے سامنے آجانے کی صورت میں یہ شائبہ تک پیدا نہ ہو کہ غیرُاللہ کو سجدہ ہو رہاہے ورنہ جب مقصودِ عبادت خود  ربُّ العزت ہوتا ہے تو ضرائح کے پیچھے نماز ادا کرنے میں کو ئی جرح نہیں ہوا کرتی؟ البتہ کوئی نااہل اپنی کو تاہ علمی کی بنا پر ایسافعل کرے جس سے شرک وکفر لازم آجائے تو یہ تعلیم مذہب نہیں بلکہ اس کا ذمہ دار وہ خود ہے -
اب رہا ضرائح مقدسہ کی شبیہات کا معاملہ جو ہمارے ملک میں مروّج ہے تو ان کی تعظیم کو بت پرستی یا شرک سے تعبیر کرنا صرف چشم کوری اورعنادشعاری سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے کیونکہ کسی ذی رو ح کی سایہ دار تصویر کو بت کہا جاسکتا ہے اورغیر ذی روح کی شبیہ قطعا ًنہ بت ہے نہ بت پرستی ورنہ اگر کسی مکان کی غیر مستقل شبیہ ناجائز ہو تو پھر مکان کی مستقل شبیہ یعنی ایک مکان جیسا دوسرا مستقل مکان بنانا تو بدرجہ اولیٰ بت پرستی ہوگا بلکہ ہر وہ کام جس میں کسی دوسرے کی نقل اتاری جارہی ہو وہ بدعت وشرک سے موسوم ہوگا حالانکہ ان چیزوں کو کوئی بھی شرک سے تعبیر نہیں کرتا اور صرف ایوانِ امامت کی نقل کو بت اس لئے کہا جاتا ہے تاکہ امامت حقہ کی یاد لوگوں کے دلوں سے اُتر جائے اور ان کی صداقت وحقانیت ومظلومیت کے قصے فراموش ہو جائیں اورمبادا بنائی ہوئی امامت کی دکان کی شہرت مدہم پڑ جائے اورلوگ اس طرف سے کنارہ کش ہو کر حق سے ہم آغوش ہوجائیں؟ بالجملہ نہ عتباتِ عالیات خود مقصودِ عبادت ہیں اورنہ ان کی شبیہات مقصودِ عبادت ہیں اور قابل احترام اس لئے ہیں کہ ان کو خدا والوں سے نسبت ہے ان کی زیارت اُن خدا والوں کی یاد تازہ کرتی ہے جن کی طرف یہ منسوب ہیں اوران کی یاد خداکی یاد کا وسیلہ اورعبادت کا ذریعہ ہے ( مجسمہ سازی کے متعلق مفصل بحث تفسیر ہذا کی جلد۱۱میں  ملاحظہ ہو)
پس اِیَّاکَ نَعبُدُ جس طرح ہم زبان سے جاری کرتے ہیں ہمارا اعتقاد بھی یہی ہے اور جو لوگ عمل شیعہ پر بے جا اعتراض کرتے ہیں وہ صرف لفظ عبادت جانتے ہیں حقیقی معنی و مفہوم عبادت سے غافل ہیں ان کے پاس صرف ظاہر ہے دامن حقیقت سے ان کے ہاتھ کو تاہ ہیں خلاصہ یہ کہ خوشنودی خدا کےلئے ہر واجب التعظیم شئے کی تعظیم کرنا مفہوم عبادت کے منافی نہیں بلکہ عین عبادت ہے پس اِیَّاکَ نَعبُدُ کی آڑ لے کر کفر و شرک وبدعت و بت پرستی وغیرہ کی ارزاں بلکہ مفت تقسیم!! اپنے ہاں ان جنسوں کی فراوانی و بہتات کی دلیل ہے اورسچ ہے برتن سے وہی چیز برآمد ہوتی ہے جو اس میں ہو- 

ایک تبصرہ شائع کریں