جَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ: حضرت عیسیٰؑ کی
الوہیت کی نفی کےلئے گزشتہ آیت بیان خداوندی ہونے کے علاوہ ایک ناقابل تردید برہان
ساطع اور دلیل قاطع بھی تھی اسی لئے اس کو دوسری آیت میں علم سے تعبیر فر ما رہا
ہے یعنی اگر وہ آیت نہ بھی ہوتی تب اس کی بر ہانیت یقین و اطمینان کےلئے بذات خود
کافی تھی پس مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَکَ مِنَ الْعِلْمِ فرمایا اور مِنْ بَعْدِ مَا
بَیَّنَّا نہیں فرمایا۔
فَقُلْ تَعَالَوْا: گویا حق کے اثبات کےلئے
دو طریقے تھے: ایک دلیل و برہان کا اور دوسرا استجابت دعا کا
چونکہ پہلا طریقہ استعمال کرنے کے بعد جب
معلوم ہوا کہ وہ اپنے ضد پر اڑے ہوئے ہیں لہذا دوسرے طریقہ کی ان کو دعوت دی گئی
اور وہ یہ کہ آپس میں مباہلہ کر لیں یعنی ایک دوسرے کےلئے ہلاکت کی اللہ سے دعا
مانگیں پس جو جھوٹا ہو گا ہلاک و بر باد ہو گا مباہلہ کا معنی ہے ایک دوسرے پر
لعنت کرنا۔
تَعَالَوْا نَدْعُ: اصل مباہلہ میں طرفین سے
ایک ایک آدمی تھا کافی تھا لیکن اپنے دعویٰ پر انتہائی اطمینان و وثوق ثابت کرنے
کےلئے اَبْنَآء، نِسَآء اور اَنْفُسْ کو دعائے ہلاکت میں شریک کیا گیا کیونکہ
انسان بعض اوقات اپنے ضد پر اڑ کر اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے کی پرواہ نہیں کیا
کرتا لیکن بال بچوں اور اعزاو اقربا کو کسی صورت میں معرض ہلاکت میں ڈالنا پسند
نہیں کرتا جیسا کہ فطری محبت کا تقاضا ہے۔
اس آیت میں غور کرنے سے چند چیزیں بخوبی
سمجھ میں آ تی ہیں:
آیت کا لب ولہجہ بتلاتا ہے کہ اَبْنَآء،
نِسَآءاوراَنْفُسْ سے مراد وہ نفوس ہیں جو اصل دعویٰ میں مدعی کے ساتھ شریک ہوں
صرف طرفین سے کثرت کی خاطر مزید بھر تی کر کے رطب دیابس کو جمع کرکے لانا مقصود
نہیں تھا اورظاہر ہے کہ نصاریٰ کی طرف سے جو زن ومرد اس میں شرکت کرتے وہ صرف وہی
ہوسکتے تھے جو بدل وجان حضرت عیسیٰؑ کی الوہیت کے مدعی تھے تاکہ اس بارہ میں اپنی
جانوں پر کھیل جانا آسان سمجھتے ہلمل یقین اورمذبذب مزاج لوگوںکا مباہلہ میں قدم
رکھنا قطعاً معقول نہیں تھا اوراس طرف سے جو زن ومرد نصاریٰ کے مقابلہ میں جائے وہ
وہی ہونا چاہیے جس کو حضرت عیسیٰؑ کے عبد اورمخلوق خداہونے کا یقین کامل ہو
اوررسالتمآب کے ساتھ دعویٰ مذکورہ میں شریک ہو اوردعوت اسلام میں بھی ان کے ساتھ
حصہ دار ہو ورنہ بزور شمشیر کلمہ اسلام کو منہ پر جاری کرنے والوں کے ساتھ لے جانے
کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ:
٭ اطمینان قلب اور سکوں
خاطرکے بغیر مخلصانہ طور پر جھوٹے کے لیے ہلاکت کی دعا مانگنا نہایت مشکل ہے ورنہ
یہ خیال پیداہو گا کہ شاید میں خود جھوٹا ہوں تو پس کیسے دعا میں خلوص رہے گا؟
خلوص تب ہی ہو سکتا ہے جب اپنی طرف سے سو فیصد ی یقین ہو نیز آیت کی ابتدامیں ہے
کہ اگر وہ لوگ اس علمی گفتگو اور عقلی دلیل کو تسلیم نہ کریں تو مباہلہ کاطریق
اختیار کر لویعنی مباہلہ میں ساتھ جانے والے افراد کا دلیل وبرہان کی ناکامی کے
بعد ساتھ لے جانا اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ جس طرح دلیل دعویٰ کو منوانے کے لیے
تھی یہ بھی اسی دعویٰ کو منوانے کے لیے میدان میں اترے ہیں تو اس کا لازمہ یہ ہے
کہ صرف وہی ہستیاں ہی ساتھ جا سکتی تھیں جو دعوت اسلام میں اور دعویٰ عبدیتِ حضرت
عیسیٰؑ میں جناب رسالتمآب کے ساتھ برابر کے شریک تھے چنانچہ آیت کے اختتام میں
کَاذِبِیْن جمع کا صیغہ اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ رسول کے ہمراہ جانے والے
صَادِقِیْنَ تھے اگر دعوت نصاریٰ کے علمبردار اور مدعی صرف آپ ہی ہوتے اور ساتھ
جانے والے افراد کی حیثیت گواہ کی سی ہوتی تو کَاذِبِیْنَ جمع نہ لایا گیا ہوتا
کیونکہ نصاریٰ کی نگاہوں میں اگر معاذ اللہ کَا ذِبِیْنَ تھے تو سب کے سب جانے
والے تھے اور خدا کے علم میں اگر صَادِقِیْنَ تھے تو بھی سب جانے والے تھے تو
معلوم ہو ا کہ نصاریٰ کی نظروں میں بھی یہ سب کے سب دعوت دہندہ اور مدعی عبدیت
عیسیٰؑ تھے اور عند اللہ بھی یہ سارے جناب رسالتمآب کے شریک کار تھے
٭ اَبْنَآء، نِسَآءاور
اَنْفُس یہ تینوں صیغے کے جمع ہیں اور مضاف بھی اور ظاہر ہے کہ جمع مضاف سے
استغراق مستضاد ہوا کرتا ہے گویا معنی یہ ہوا کہ اپنے تمام بیٹوں عورتوں اور نفسوں
کو لاﺅ، لیکن چونکہ لانا صرف انہی کو تھا جو دعوتِ مذکورہ اور دعویٰ عبدیت عیسیٰؑ
میں شریک رسول تھے تو مقصد یہ ہوا کہ تمام وہ بیٹے وہ عورتیں اور وہ نفس جو اس
مدعا میں بحیثیت مدعی کے ہیں بلائے جائیں پس نظر انتخاب رسالت میں اس معیار کے
لحاظ سے بیٹوں میں سے سوائے حسنین ؑ کے کوئی بچہ اس قابل نہ تھا اور عورتوں میں سے
سوائے مخدومہ کائنات خاتون ِجنت کے اور کوئی نہ تھی اور مردوں میں سے سوائے علی ؑ
کے اور کوئی نہ تھا
سوال: رسول
کریم کے دیگر جلیل القدر اور اکابر صحابہ جو اس وقت موجود تھے اسی طرح زوجات
محترمات بھی سب کے سب مذکورہ دعوی اور دعوت میں شریک رسول تھے اور ان کو پورا پورا
اطمینان حاصل تھا اور میدان مباہلہ میں جانے کےلئے اہل تھے لیکن چونکہ وہاںصرف
بطور نمونہ کے مختصر افراد کو لے جانا تھا اس لئے جناب رسالتمآب نے صرف حسنین ؑ
اور فاطمہ ؑ اور حضرت علی ؑ کے لے جانے پر اکتفا کرلی؟
جواب: اَبْنَآء، نِسَآءاور اَنْفُس کی اضافت جو مفید
استغراق ہے نمونہ کے طور پر چند افراد کو ہمراہ لے جانے کے خلاف ہے اور گر بالفعل
استغراق نہ مانا جائے تب بھی جمع ہو نے میں کوئی شک و شبہ نہیں اور نمونہ کےلئے
بھی لے جانا تھا کہ کم از کم اتنے افراد کا انتخاب ہر صنف سے ضروری تھا کہ اقل جمع
تو صادق آسکتی پس اس صورت میں اَبْنَآ ءکےلئے تین اور نِسَآءکے لئے بھی تین البتہ
اَنْفُس کےلئے صرف ایک اور بڑھانا پڑتا کیونکہ آپ خود بنفس نفیس مل کر تین ہو
جاتے؟ پس اس طرح نہ ہونا صاف بتلاتا ہے کہ اس میدان میں سوائے ان ہستیوں کے جانے
کا کوئی دوسرا اہل نہیں تھا؟
٭ نصاریٰ
نجران کی تفہیم کےلئے جب قرآن کی پیش کردہ دلیل و برہان کا ر گر نہ ہوئی تو میدانِ
مباہلہ کی تشکیل دیتے ہوئے عترتِ طاہرہ کو پیغمبر کو ساتھ لے جا کر حق و باطل کے
درمیان امتیازی نشان قائم کرنا تا قیامت امت اسلامیہ کےلئے دعوت فکر ہے جس کہ طرح
نصرانیوں کے مقابلہ میں یہ لوگ رسول کے شریک کار ہیں اور صرف قرآنی ادلّہ پر اکتفا
نہیں کی جا سکتی اسی طرح تا قیامت اہل اسلام کےلئے بھی ان کی قیادت ضروری ہے اور
صرف کتابُ اللہ سے تمسک پکڑ کر ان کو نظر انداز کرنا یقینانادرست ہے
٭ چونکہ
قرآن مجید میں جہاں نِسَآء کو اَبْنَآ ءکے مقابلہ میں استعمال کیا گیا ہے وہاں اس
سے مراد بیٹیاں ہیں لہذا بعید نہیں کہ نِسَآءسے مراد یہاں بیٹیاں ہوں پس اس کی
مصداق صرف خاتونِ جنت ہی ہوں گی اور اگر نِسَآءکے معنی میں تعمیم کی جائے تو عورت
کی تین اہم حیثیات میں سے خاتونِ جنت ہر طرح مصدق آیت ہےں، کیونکہ دعوتِ مباہلہ
میں چار جانے والے مردوں میں سے دو کی ماں ایک کی زوجہ اور ایک کی دختر ہےں،
کیونکہ نِسَآءکا لفظ اِمْرَاَة کی جمع ہے خلاف قیاس اور اس کا معنی ہے عورت اور
عورت کےلئے رشتہ کے اہم پہلو صرف یہی تین ہیں کہ زندگی میں قدم رکھتے ہی پہلے پہل
بیٹی ہوتی ہے پھر زوجہ بنتی ہے اور پھر ماں بن جاتی ہے
٭ اَبْنَآ
ءجمع ہے اِبْن کی اور آیت مجیدہ میں اَبْنَآ ءکو ہی مباہلہ میں شریک قرار دیا گیا
ہے اس سے معلوم ہوا کہ اصطلاحِ قرآن میں لڑکی کی اولاد کو بھی اِبْن کہنا مبنی بر
حقیقت ہے پس حسنین ؑ شریفین جناب رسالتمآب کے بفرمانِ قرآن فرزند ثابت ہوئے
٭ اَنْفُس
جمع ہے نفس کی ، قرآنی الفاظ بتلاتے ہیں کہ جناب رسالتمآب کو اس میدان اور اس دعوت
میں ان مردوں کو شریک کرنے کا حکم تھا جن کی رسول کے ساتھ یگانگت اور یک جہتی اس
طرح ہو جس طرح جسم سے نفس کی نسبت ہوا کرتی ہے اور وہ شخص ہی ساتھ جانے کا اہل ہو
سکتا تھا جو رسول کے لئے بمنزلہ نفس کے ہو پس اس آیت کی رو سے علی ؑ کا نفس رسول
ہونا ثابت ہوا اور جمع کے صیغہ سے خطاب کے باوجوود صرف حضرت علی ؑ کا انتخاب اس
امر کی دلیل ہے کہ صحابہ رسول میں جانثاری اور وفا شعاری کے لحاظ سے دوسرا کوئی
ایسا فرد موجود نہ تھا جس کو جناب رسالتمآب اپنے نفس کی حیثیت سے مباہلہ میں لے
جاتے؟ پس یہی آیت حضرت علی ؑ کی جملہ صحابہ بلکہ باقی تمام انبیا سے بھی افضل ہونے
کی نص صریح ہے کیونکہ نفس اور شئے کا حکم ایک ہوا کرتا ہے، تو جن لوگوں پر رسول کی
فضیلت ثابت ہو گی انہی پر رسول کے بعد حضرت علی ؑ کی فضیلت بھی ثابت ہو گی اور اسی
سے حضرت علی ؑ کی خلافت بلافصل بھی قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے اورجناب رسالتمآب
کا فرمان یَا عَلِیّ اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْکَ جِسْمُکَ جِسْمِیْ دَمُکَ
دَمِیْ رُوْحُکَ رُوْحِیْ لفظ قرآن اَنْفُسَنا کی تفسیر ہے
٭ آیت
مجیدہ میں پہلے اَبْنَآئَنَا کا ذکر تھا چنانچہ جناب رسالتمآب نے بھی عمل کی صورت
میں ان کو پہلے رکھا پس حضرت امام حسن ؑ کو انگلی سے اور حضرت امام حسین ؑ کو گود
میں اٹھا لیا اور ا س کے بعد آیت میں نِسَآء کا ذکر تھا تو حضور نے مقام عمل میں
اپنے پیچھے خاتون جنت کو رکھا اور آیت میں آخر پر اَنْفُسَنا کی لفظ تھی لہذا مقام
عمل میں سب سے پیچھے حضرت علی ؑ تھے اگرچہ اس ترتیب کے عمل میں لانے کا امر نہیں
تھا تاہم جناب رسالتمآب نے ظاہری مفہوم سے واقعی مصداق کی ترتیب کو اپنے عمل سے اس
طرح منطبق کر کے دکھایا کہ کبھی کوئی فرد آیت کے مصادیق کی تعیین و تطبییق میں
ٹھوکر نہ کھانے پائے
٭ جناب
خاتونِ جنت کو درمیان میں رکھنے سے مقام عمل میں مخدومہ کائنات کے پردہ کی اہمیت
کو بھی واضح کرنے کی طرف اشارہ ہوسکتاہے تاکہ سامنے نصاریٰ نظر اٹھا کر ادھر دیکھیں
تو ان کے آگے رسالت کی نوری دیوار حائل ہوجائے اورپیچھے سے مسلمان جاتے ہوئے
دیکھیں تو ان کے سامنے امامت کا پر دہ آجائے اورعصمت مآب بی بی پر کسی نامحرم کی
نظر نہ پڑ سکے حتی کہ قدموں کے نشان بھی رسالت وامامت کے نقوش پاکے درمیان مستور
ہوکر رہ جائیں
٭ میدانِ
مباہلہ میں اس طرف سے پانچوں بزرگواروں کا جانا اورمقابلہ میں نصاریٰ کا جزیہ
منظور کرتے ہوئے مباہلہ سے ہٹ جانا اس امر کاکاشف ہے کہہ پانچ ہستیوں کی صداقت کو
وہ ان کی پر اطمینان روش اورہمہ تن سکون پیش قدمی سے بھانپ گئے تھے اورمباہلہ کے
بعد انہیں یقین تھا کہ اگر ایسا ہوا تو مور د عذاب ہوجائےں گے پس انہوں نے جزیہ
منظور کرنے کے عمل سے ان پانچوں کی صداقت کا اعتراف کر لیا اورقرآن کی آیت نے اس
پر حقیقت کی مہر ثبت کردی
٭ اس پورے
واقعہ اورقرآنی فرمان میںتدبر کرنے سے انسان بخوبی وبآسانی اس نتیجہ پر پہنچتاہے
کہ ان کے مقابلہ میں آنے والے جھوٹے اورمستحق لعنت تھے اورقصہ کا تعلق اگر چہ صرف
ایک واقعہ سے تھا لیکن قرآن کا پورے اہتمام کے ساتھ ان کی صداقت اوران کے مد مقابل
کے جھوٹ کا اعلان کرنا اس امر کاکاشف ہے کہ ان کی صداقت صرف اسی جزوی واقعہ میں
منحصر نہیں تھی اوران کا دعوت اسلام اوردعوائے عبدیت حضرت عیسیٰؑ میں جناب
رسالتمآب کے ساتھ شریک کار ہونا بھی اسی کا شاہد ہے ورنہ اگر ان میں صداقت کاوجود
صرف اسی دن کے لئے ہوتا تو یقینا ان کا انتخاب اس قسم کے اہم مقابلہ کے لئے
ناموزوں ہوتا، پس معلوم ہوا کہ یہ واقعہ صر ف ان کی صداقت کے اعلان کا بہانہ تھا
ورنہ تمام اصحاب رسالتمآب میں سے کوئی آدمی ایسا موجود نہ تھا جو اس فضلیت میں ان
کے ہم پلہ ہوسکتا اوراگر ایسا ہوتا تو آپ اس انتخاب میں یقینا اس کو نظر انداز نہ
فرماتے اس لئے اس آیت کے الفاظ اَبْنَآء، نِسَآءاور اَنْفُس کی جمع اور استغراق کے
وسیع الدلیل الفاظ زیادہ سے زیادہ قابل انتخاب افراد کو اپنے دامن میں جگہ دینے کو
تیار تھے اورجناب رسالتمآب کی نظر انتخاب میں بھی بخل نہ تھا بلکہ وہ خلق عظیم کا
مالک رسول کشادہ روئی سے ساتھ ملانے کو تیار ہوجاتا بشرطیکہ کوئی ادھر آنے کی
صلاحیت رکھ پاتا پس ثابت ہوا کہ اس معیار پر پورے اترنے والے صرف یہی تھے جن کو لے
جایا گیا تو اس وقعہ میں ان کاانتخاب اورچناﺅ اوران کے مقابل والوں کو جھوٹے کی سند کا ملنا تاقیامت ایک دستو رالعمل ہے
کہ جب بھی یہ لوگ کسی میدان میں پہنچیں اورحق وباطل میں امتیاز مشکل ہوجاوے تو
معیار یہی ہے کہ جس طرف یہ لوگ ہوں گے صداقت اورحق اسی جانب ہوگا اوران کی مقابل
جماعت کاذب وباطل پرست ہوگی
٭ چونکہ
حسنین ؑ شریفین باوجود کم سنی کے مباہلہ کے پروگرام میں شامل اورخداوند کریم کی
جانب سے مدعو تھے لہذا یہ آیت ان کے کمال عقل پر نص قطعی ہے کیونکہ ایسے پروگراموں
میں ناقص العقل کی شرکت یقینا ناموزوں ہے اورجناب بتول معظمہ کی شمولیت اوران کا
مدعوہونا بھی ان کے کمال عقل کی برہان قطعی ہے یعنی جس طرح بچپن حسنین ؑ کے کمال
عقل سے مانع نہیں اسی طرح نسوانیت جناب زہراؑ کے کمال میں مخل نہیں اوریہی اس
خانوادہ عصمت کا اُمت کے عام مردوں اورعوررتوں سے امتیازی نشان ہے