surah feel read online sura al feel pdf al feel sharif arabic english urdu
سورة الفيل (105) -- al-Fil -- The Elephant -- الفِیْلِ
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
أَلَمْ
تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ (1) أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ
فِي تَضْلِيلٍ (2) وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ (3) تَرْمِيهِم
بِحِجَارَةٍ مِّن سِجِّيلٍ (4) فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍ (5)
اللہ کے نام سے جو رحمان و
رحیم ہے (شروع کرتا ہوں)
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ
تیرے رب نے اصحاب الفیل سے کیا کیا؟ (1) کیا ان کی باطل تجویز کو اس نے بے کار
نہیں کر دیا تھا؟ (2) اور اس نے ابابیل بھیج دیئے (3) جو ان کو سخت سنگریزے مارتے
تھے (4) پس کر دیا ان کو بھوسے کی طرح جس کو حیوان کھاتے ہیں (5)
سورہ الفیل
· یہ سورہ مکیہ ے سورہ الکافرون کے بعد نازل ہوا۔
· اس کی آیات کی تعداد بسم اللہ الرحمن الرحیم کو ملا کر چھ ہے ۔
· حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ جو شخص اس سورہ کو نماز فریضہ میں پڑھے تو بروز محشر ہر سہل و جہل اس کی نماز کی گواہی دیں گے اور خداوند کریم کی طرف سے ندا آئے گی کہ تمہاری گواہی مقبول ہے بے شک میرے بندے کو جنت میں داخل کر دو۔ یہ ان لوگوں میں سے ہے جو اللہ کے دوست ہیں اور اللہ کو ان کا عمل محبوب ہے ۔
· مسئلہ۔ فقہائے امامیہ کے نزدیک سورہ الفیل اور سورہ لایلاف قریش ایک سورہ کے حکم میں ہیں لہذا اگر یہ سورہ نماز میں پڑھا جائے تو اس کے بعد سورہ لایلاف کا بھی پڑھنا ضروری ہوگا۔
· حدیث نبوی میں ہے کہ جو شخص اس سورہ کو پڑھے گا خدا اس کو عذاب سے امان دے گا اور دنیا میں مسخ ہو نے سے محفوظ رہے گا اگر حملہ آور کے نیزہ پر پڑھی جائے تو اس کے نیزے کا پھل ٹوٹ جائے گا۔
· حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر کسی مصیبت زدہ پر یہ سورہ پڑجھی جائے تو اس کا دشممن فوراً بھاگ جائے گا۔ اور اس کا پڑھنا قوت طلب کا باعث ہے ۔
· عمل برائے حفاظت۔ کتاب ادارد میں ہے کہ اگر ظالم حاکم کے پاس جانا ہو تا کھٰیصص کو پڑھے اور ہر حرف پر دائیں ہاتھ کی انگلی انگوٹھے سے شروع کر کے بند کرتا جائے اور آخر میں مٹھی بند کرے پھر حم عسق کو پڑھے اور ہر حرف پر بائیں ہاتھ کی ایک انگلی بند کرتا جائے انگوٹھے پر ختم کرے اور مٹھی بند کر لے پس کمرے میں داخل ہو اور حاکم کے روبرو سورہ الفیل کو پڑھے اور لفظ ترمیھم کو دس دفعہ پڑھے کہ ہر دفعہ ایک انگلی کو شروع سے کھولتا جائے جب سب انگلیاں کھل جائیں تو سورہ کو پورا کرے پس حاکم کے شر سے محفوظ رہے گا۔
رکوع نمبر30۔ ابابیل ۔ اس کی واحد ابول یا ابالہ ہے ایک پرندے کا نام ہے جو چڑیا سے
بھی چھوٹا ہوتا ہے ۔ سجیل ۔ ایک سخت قسم کے پتھر کو کہا جاتا ہے جا عام پتھروں کی بن نسبت زیادہ سخت ہو تا ہے ۔
کعصف ۔ بھوسے کو اور گھاس کے خشک تنکوں کو عصف کہا جاتا ہے یعنی جس طرح بھوسہ بیکار زمین پر پھیلاتا رہتا ہے اور اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اسی طرح ان کی لاشیں بھی زمین پر بکھری پڑی تھیں کہ ان کا پرسان حال کوئی نہ تھا۔
اصحاب الفیل کا واقعہ
تفسیر مجمع البیان میں ہے کہ تبع کو جب یمینیوں نے قتل کر دیا تو اس کا بیٹا قیصر روم کے پاس فریاد لے کے گیا پس قیصر روم نے سوڈان کے بادشاہ نجاشی کو اس کی سفارش لکھی یہ نجاشی پیغمبر کے زمانہ کے نجاشی کا دادا تھا پس نجاشی نے ساتھ ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر جوار اہل یمن کی سرکوبی کےلئے روز بہ نامی شخص کے زیر کمان روانہ کیا چنانچہ یمن فتح ہوا اور وہاں پر قابض قوم حمیر کا اقتدار ختم ہو گیا پس روز بہ
وہاں کا حکمران ٹھیرا جو نجاشی کے زیر اثر تھا روز بہ کی فوج کا ایک افسر جا کا
نام ابرہہ اور کنیف ابو یکسوم تھی نہایت چسپ و چالاک تھا اس نے پوری فوج میں اپنا
اثر و رسوخ بڑھا کر روز بہ کی مخالفت شروع کر دی اورآخر کار اس کی حکومت کا تختہ
الٹ کر خود اس کی جگہ حکمران بن بیٹھا اور نجاشی کو اپنی اطاعت کا یقین دلا کر اس
کو راضی کر لیا جب اس کا اقتدار مضبوط ہو گیا تو اس نے کعبہ کے مقابلہ میں یمن
کعبہ تعمیر کرایا تا کہ لوگ بیت اللہ کو چھوڑ کر یمنی کعبہ تعمیر کرایا تا کہ لوگ
بیت اللہ کو چھوڑ کر یمنی کعبہ کی حج کریں اور اس کو عوام کی آنکھوں میں دھول
جھونکنے کےلئے دیدہ زیب اور جاذب نظر بناتے ہوئے اس کو سنہری محرابوں سے خوب سجایا چنانچہ یمنی لوگ اس کا طواف کرنے لگ گئے۔
ایک دفعہ عرب کا ایک بڑا قبیلہ بن کنایہ وارد یمن ہوا تو بنی کنایہ کے آدمی نے یمنی کعبہ کو دیکھنے کے بہنانہ سے اندر جا کر پاخانہ جب ابرہہ خود اپنے کعبہ کی زیارت کےلئے آگے بڑھا تو اس نے کعبہ کے اندر غلاظت دیکھ کر اپنی نصرانیت کی قسم کھائی کہ عربوں کے کعبہ کو مسمار کر کے رہوں گا چنانچہ اس نے اپنی فوج کو جسمیں ہاتھی سواروں کا دستہ بھ حجاز کی طرف پیش قدمی کا آرڈر دے دیا اشعرون و خثعم کے قبائل نے اس کی دعوت کو قبول کر کے فوج میں شمولیت اختیار کر لی اور تاریخ مقرر پر ابرہ کی فوج یمن سے روانہ ہوئی ۔ راستہ میں بھی ابہہ کے حکم سے اس کے ایک فوجی نے عرب قبائل کو یمنی کعبہ کے طواف کا مشورہ دیا لیکن پھر بنی کنانہ کے ایک شخص نے اس فوجی کا سرتن سے جدا کر دیا جس کی خبر سنتے ہی ابرہہ کو بہت غصہ آیا اور اس انتقام کا جذبہ اس کے دل میں زیادہ تیز ہو گیا یہ لشکر طائف کے پاس سے گذرا تو وہاں کے رہنے والے قبیلہ ھذیل کے ایک آدمی نفیل نامی کو راستہ معلوم کرنے کے لئے ساتھ لے لیا حتی کہ مکہ سے چھ میل دور مقام خمس پر انہوں نے فوجی مورچے بنا کر قیام کر لیا اور ایک دستہ مکہ کی وادیوں میں گھومنے اور حالات کا جائزہ لینے کے لئے روانہ کر دیا مکہ میں بسنے والے عرب قبائل نے جونہی ابرہ کی فوج دیکھی وہ گھروں کو چھوڑ کر ادھر ادھر روپش ہو گئے حضرت عبدالمطلب بچ گئے جن کے قبضہ میں چاہ زمزم کا چارج تھا اور دوسرے شیبہ بن عثمان عبدری جو بیت اللہ کا دربان تھا مکہ میں موجود تھا ابرہہ کے گشتی فوجی دستے نے قریشیوں کے اونٹ قبضہ میں کر لئے جن میں دو سو اونٹ صرف عبدالمطلب کے تھے جن ان کو معلوم ہوا تو وہ اپنے اونٹوں کی واپسی کےلئے ابرہہ کی فوجی چھاؤنی میں داخل ہوئے اور ابرہہ کی قیامگاہ کے درازہ پر پہنچے اس وقت دروازہ کا سنتری اشعرون قبیلہ کا سپاہی تھا جو عبدالمطلب کی شخصیت سے خواب واقف تھا اس نے اندر جا کر اجازت لی اور اچھے انداز سے عبدالمطلب کا تعارف کرایا جب آپ اندر تشریف لے گئے تو ان کی ظاہری شکل و شباہت اور باوقار نورانی چہرہ کی عظمت سے متاثر ہو کر تخت سے نیچے اترا اور آپ کے ہمراہ فرش پر بیٹھ کر احوال پرسی کے بعد آپ سے تشریف آوری کی وجہ دریافت کی آپ نے فرمایا تمہاری گشتی فوج نے ہمارے اونٹ چرا لئے ہیں اور ان کی بازیابی کےلئے آیا ہوں ابرہہ ایک مرتبہ دریائے حیرت میں ڈوب گیا اور کچھ سنبھل کر کہنے لگا میں تو آپ کو بہت بڑا دانا سمجھتا تھا لیکن آپ کے اس سوال سے میں کچھ شش و پنج میں پڑ گیا ہوں آپ نے فرمایا وہ کیسے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں یمن سے اس قدر لشکر جرار لے کر تمہارے کعبے کو ڈھانے کے لئے آیا ہوں جس پر تمہارے وقار اور شرف کا دارومدار ہے دانشمندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ آپ اپنے دو سو اونٹ نظر انداز کر کے اپنے بیت الشرف کعبۃ اللہ کی سفارش فرماتے اور اس اہم حاجت کا ذکر کرتے اور میں یقناً آپ کے احترام کی خاطر مان لیات۔ آپ نے نہایت اطمیانان و متانت سے ابرہہ کی بات سن کر جواب دیا ۔ کہ میں تو اپنے مالک کی واپس کےلئے حاضر ہوا ہوں جس گھر کو گرانے کےلئے تم لوگ آئے اس کوا بھی ایک مالک ہے وہ اس کی حفاظت کا خود ذمہ دار ہے اس بات کو سن کر ابرہہ گھبرا گیا اور اونٹوں کی واپسی کا حکم دے دیا آپ اپنے اونٹ لے کر واپس پلٹ کر آ گئے اس رات ابرہہ اور اس کی فوج یوں محسوس کر رہی تھی کہ گویا عذاب خداوندی ان کے سروں پر منڈلا رہا ہے پس بے حس و حرکت موت کے سایہ میں انہوں نے رات گذاری
ان کے ہمراہ قبیلہ ھذیل کا جو آدمی رہنمائی کے لئے آیا تھا وہ چھوڑ کر بھاگ اور اشعرون و خثعم نے بھی بیت اللہ پر چڑھائی سے انکار کر دیا حضرت عبدالمطلب جب واپس آنے لگے تھے تو ابرہہ کی فوج کے بڑے ہاتھی محمود نامی کے پاس سے گذرے اور ہاتھی کے
کان میں کہا کہ تمہیں پتہ ہے ابرہہ تم کو کیوں لایا ہے؟ اس نے سر ہلا کر نفی میں
جواب دیا پھر آپ نے فرمایا یہ تو بیت اللہ کو مسمار کرنے کے لئے آئے ہیں کیا تم ان کا ساتھ دو گے تو پھر ہاتھی نے سر ہلا کر نفی میں جواب دیا پس آپ چلے گئے ۔
جب صبح سویرے ابرہہ کی فوج نے ہاتھیوں کو مکہ کی طرف بڑھانا چاہا تو بڑے ہاتھی کے قدم رک گئے ہر چند اس پر تشدد کیا گیا لیکن وہ نہ ہلا جب اس کو پیچھے کی طرف چلاتے تھے تو چلتا تھا لیکن جب آگے بڑھانا چاہتے تھے تو وہ رک جاتا تھا اور دوسرے ہاتھی محمود نامی ہاتھی کی اقتداء میں رک جاتے تھے ۔ ادھر حضرت عبدالمطلب نے اپنے کسی غلام کو حکم دیا کہ پہاڑ پر چرھ کر دیکھو کوئی چیز نظر آتی ہے اور بعض روایات میں ہے کہ اپنے فرزند ارجمند حضرت عبداللہ کو حکم دیا کہ کوہ ابو قبیس پر چرھ کر دیکھو اگر کوئی چیز ہو مجھے خبر دینا چنانچہ جناب عبداللہ کوہ ابو قبیس پر چڑھے تو سمندر کی جانب سے ابابیل کے غولوں کو سیلاب کی طرح آتے دیکھا کہ ان کی سیاہی شب تاریک کی طرف تھی پس وہ پرندے کوہ ابو قبیس پر اترے پھر کعبہ کے ساتھ چکر انہوں نے لگائے اور ساتھ طواف صفاو مروہ کے کئے یہ ماجرا دیکھ کر حضرت عبداللہ نے اپنےوالد ماجد کو اطالع دی اور دوسری روایت کے ماتحت جب غلام نے خبر دی اور بتایا کہ ہر ہر پرندے کی چونچ میں ایک سنگریزہ ہے اور دو پاؤں میں دو سنگریزے ہیں تو عبدالمطلب کے رب کی قسم یہ اس قوم کے لئے ہی آئے ہیں مجمع البیان کی روایات کے مطابق طلوع شمس کے وقت پرندے پہنچ گئے ہر ایک پرندہ کے پاس تین سنگریزے تھے اور وہجہاں پڑتے تھے جس سے پار ہو جاتے تھے گویا خدائی فوج کا ہر سپاہی دشمن فوج کے تین تین سپاہیوں کے لئے کافی تھا پس جب ایک پرندہ تین فائر کر چلتا اور تین دشمنوں کو واصل جہنم کر لیتا تو وہ غائب ہو جاتا تھا اور دوسرا نمودار ہو جاتا تھا یہاں تک
کہ ابرہہ کا لشکر مارا گیا اور ابرہبہ کو ایک سنگریزہ لگا جس سے بھگ کھڑا ہوا اور
وہ زخم بڑھتا رہا حتی کہ یمن کی زمین پہنچ کر وہ فی النار ہو گیا اور قبیلہ اشعرون
اور خثعم نے چونکہ کعبہ پر چڑھائی کا انکار کر دیا تھا لہذا ان کا کوئی آدمی قتل
نہ ہوا اور مروی ہے کہ وہ پرندے بادل کی طرح ابرہہ کی فوج کے سروں پر مندلا رہے
تھے اور ان میں سے ہر ہر پرندہ تین تین دشمنوں کے مارنے کے لئے قدرت کی جانب
سے مامور تھا پس وہ کافر کے سر کے اوپر سنگریزے کو چھوڑتا تھا اور وہ سنگریزہ اس کی
دبرسے پار ہو جاتا تھا اور منقول ہے کہ صرف ایک آدمی ان میں سے بھاگنے میں کامیاب
ہو گیا اور اس کے حصہ کا ایک پرندہ بھی سنگریزہ چونچ میں پکڑ کر اس کے تعاقب میں
رہا جب اس شخص نے فوج ابرہہ کی تباہی کا ذکر سنایا اور کہا کہ پرندون نے فوج کو
مارا ہے تو لوگوں نے دریافت کیا کہ وہ پرندہ کس قدر تھا پس ان نے اوپر کو دیکھا تو
وہی پرندہ اوپر پھر رہا تھا اس نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ پرندے اسیقسم کے تھے چنانچہ اس کے یہ الفاظ ختم ہوئے تو اس پرندے نے سنگریزہ چھوڑ دیا اور وہ اس کے سر پر لگ کر دبر سے نیچے پار ہو گیا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا اور یہ
پرندے نہ اس سے پہلے کسی نے دیکھے تھے اور نہ بعد میں دیکھے گئے۔
تنبیہ : جو ولگ معجزات کا انکار کرتے ہیں ان کے لئے اصحاب الفیل کی تباہی کا قصہ مہمیز عبرت ونصیحت ہے کیونکہ ملحد و بے دین لوگ طوفان نوح یا فرعون کی غرقابی یا تیز آندھی وغیرہ کا عذاب کے عادی و طبعی اسباب کہ کر معجزہ کا انکار کر دیتے ہیں لیکن اصحب الفیل کی تباہی ایک غیر عادی طور پر ہونے کے باوجود نا قابل انکار حقیقت ہے اور جو لوگ حضرپیغمبرؐ کی تکذیب پر ہر وقت کمر بستہ رہتے تھے اصحاب الفیل کا قصہ سن کر انکو آپ کے جھٹلانے کی جرات نہ ہو سکی کیونکہا س وقت یہ قصہ پرانا نہ تھا اور عرب لوگ اخبار متواترہ سے اس کو جانتے تھے نیز بعض سن رسیدہ لوگوں کا تو چشم دید واقعہ تھا اور یہ قصہ رسولؐ اللہ کی صداقت اور اسلام کی حقانیت کا کھلا ہوا ثبوت ہے جسکا انکار صرف کور باطن کر سکتا ہے ۔