التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

سورة البروج (85) -- al-Buruj -- the Constellations -- البُرُوجِ

سورة البروج (85) -- al-Buruj -- the Constellations -- البُرُوجِ

سورة البروج (85)  --  al-Buruj  --  the Constellations  --  البُرُوجِ


بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

وَالسَّمَاء ذَاتِ الْبُرُوجِ (1) وَالْيَوْمِ الْمَوْعُودِ (2) وَشَاهِدٍ وَمَشْهُودٍ (3) قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ (4) النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ (5) إِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُودٌ (6) وَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودٌ (7) وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (8) الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (9) إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ (10) إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ (11) إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ (12) إِنَّهُ هُوَ يُبْدِئُ وَيُعِيدُ (13) وَهُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ (14) ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدُ (15) فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ (16) هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْجُنُودِ (17) فِرْعَوْنَ وَثَمُودَ (18) بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي تَكْذِيبٍ (19) وَاللَّهُ مِن وَرَائِهِم مُّحِيطٌ (20) بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌ (21) فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ (22)

اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم (شروع کرتا ہوں)
برجوں والے آسمان کی قسم (1) وعدہ شدہ دن (روز قیامت) کی قسم (2) شاہد و مشہود کی قسم (3) لعنت ہے اصحب اخدود پر (4) جنہوں نے بھڑکتی ہوئی آگ روشن کی (5) جبکہ وہ (مومنوں کو جلانے کے لئے) اس کے ارد گرد بیٹھنے والے تھے (6)اور  وہ جو کچھ مومنوں کے ساتھ کر رہے تھے اس پر خود گواہ تھے (7) اور انہوں نے ان سے انتقام نہیں لیا مگر اس کا کہ وہ لائق حمد اللہ غالب پر ایمان لائے (8) جس کے پاس آسمانوں اور زمین کا ملک ہے اور اللہ ہر شی پر گواہ ہے (9) تحقیق جن لوگوں نے مردوں اور عورتوں کو آزمائش میں دالا پھر توبہ نہ کی (اور مر گئے)  تو ان کےلئے جہنم کا عذاب ہو گا اور ان کےلئے جلنے کا عذاب ہو گا (10) تحقیق جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کئے اس کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں یہ بڑی کامیابی ہے (11) تحقیق تیرے رب کی گرفت سخت ہے (12) تحقیق وہ پیدا کرتا ہے اور مرنےکے بعد لوٹاتا ہے (13) اور وہ غالب لائق محبت ہے (14) عرش کا مالک ہے بزرگ ہے (15) جو چاہتا ہے اسے کرنے والا ہے (16) کیا تیرے پاس لشکروں کا قصہ پہنچا (17) فرعون و ثمود کا (کہ کس طرح –مسنگ—ہوئے) (18) بلکہ جو لوگ کافر ہیں جھٹلانے میں ہیں (19) اور اللہ ان پر احاطہ کرنے والا ہے (20) بلکہ یہ قرآن مجید ہے (21) لوح محفوظ میں ہے (22)
سورہ البروج
·       یہ سورہ مکیہ ہے
·       اس کی آیات کی تعداد بسم اللہ الرحمن الرحیم کو ملا کر تیئیس (23) بنتی ہے۔
·       حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ جو شخص سورہ البروج کی نماز فریضہ میں (مسنگ) تلاوت کرے گا وہ بروز محشر انبیاء و مرسلین کے ساتھ محشور ہو گا (برہان)
·       حدیث نبوی میں ہے کہ جو شخص سورہ بروج کی تلاوت کرے گا تو ہر جمعہ و عرفہ میں جمع ہونیوالے لوگوں کی تعداد سے دس گنا نیکیاں اس کی لکھی جائیں گی اور اس سورہ کی تلاوت خطرناک اور سخت مقامات سے بچاتی ہے۔
·       حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا جس بچے کا دودھ چھڑانا ہو یہ سورہ لکھ کر اس کو باندھ دی جائے تو آسانی سے دودھ چھوڑ دے گا اور اگر سوتے وقت یہ سورہ پڑھ لیا جائے تو صبح تک امام خداوندی میں رات بسر ہو گی ۔
رکوع نمبر 10 والسماء ذات البروج۔ آسمان میں بارہ برج ہیں اور علمائے ہیئت و نجوم کے نزدیک ان کے نام یہ ہیں حمل، ثور، جوزا، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان ، عقرب، قوس، جدی، دلو، حوت ، ہر ماہ سورج ایک برج میں رہتا ہے ان برجوں میں سے پہلے چھ برج دائرۃ الاستواء سے جنوب کی طرف ہیں اور آخری چھ (6) دائرہ مذکورہ سے شمال کی طرف ہیں عموماً اکیس مارچ کو سورج برج حمل میں داخل ہوتا ہے اور اس وقت دن اور رات تقریباً برابر ہوتے ہیں اور اس کے بعد دن بڑھنا شروع ہوتے ہیں اور تدریجاً رات کم ہوتی جاتی ہے حتی کہ اکیس جون کو جبکہ سورج برج سرطان  میں داخل ہوتا ہے تو بڑے سے بڑا دن اور چھوٹی رات ہوتی ہے اس کے بعد دن میں گھٹاؤ شروع ہو جاتا ہے اور جب اکیس ستمبر سورج نقطہ اعتدال خریفی پر پہنچ کر برج میزان میں داخل ہوتا ہے تو دوبارہ دن و رات برابر ہو جاتے ہیں اور سورج دائرۃ الاستوار سے جنوب کی طرف مائل ہو تا جاتا ہے  پس دن تدریجاً گھٹتے جاتے ہیں اور راتیں تدریجاً بڑھتی جاتی ہیں حتا کہ 21 دسمبر کو سورج جب برج جدی میں داخلہ لیتا ہے تو چھوٹے سے چھوٹا دن اور بڑی سے بڑی رات ہوتی ہے اس کے بعد رات تدریجاً کم ہوتی جاتی ہیں اور دن بڑھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ حسب سابق 21 مارچ کو سورج نقطہ اعتدال ربیعی پر پہنچتا ہے تو دن رات برابر ہو جاتے ہیں یعنی برج حمل کے بعد سورج دائرۃ الاستوار سے شمال کی طرف مائل ہوتا ہے اور اس کے میل شمالی کی آخری حد 21 جون کو تقریباً 24 درجے ہوتی ہے اور برج میزان کے بعد میل جنوبی شروع ہوتی ہے جس کی آخری حد 21 دسمبر کو ہوتی ہے علم ہیئت کے جاننے والوں کے لئے ان بروج کی سیر بڑے دقائق و حقائق کے سمجھنے کا پیش خیمہ ہے۔
تفسیر برہان میں ابن عباس سے مروی ہے کہ حضورؐ نے فرمایا کہ اللہ کا ذکر عبادت ہے میرا ذکر عبادت ہے ، علیؑ کا ذکر عبادت ہے اور اس کے بعد اس کی اولاد میں سے آئمہ کا ذکر عبادت ہے مجھے قسم اس ذات کی جسم نے مجھے برحق نبی مبعوث فرمایا اور مجھے تمام مخلوق سے افضل قرار دیا میرا وصی تمام اوصیاء سے افضل ہے اور وہ تمام بندوں پر اللہ کی حجت ہے اور اسکی مخلوق پر اس کا خلیفہ ہے اور میرے بعد آئمہ اسی کی اولاد سے ہونگے ان کی بدولت خدا زمین والوں سے عذاب کو ٹال دیتا ہے ان ہی کی بدولت آسمان زمین  پر نہیں لٹوٹ پڑتا انہی کی وجہ سے پہاڑ اپنی جگہوں پہ قئام ہیں انہی کی بدولت لوگوں پر باران رحمت برستی ہے اور انہی کے صدقہ میں زمین انگوریوں کو جنم دیتی ہے وہ واقعی اللہ کے اولیاء اور اس کے خلفاء مہیں ان کی تعداد مہینوں کی تعداد کے برابر ہے اور وہ بارہ ہیں جس طرح کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نقباء کی تعداد تھی اس کے بعد حضورؐ نے یہی آیت تلاوت فرمائی والسماء ذات البروج الخ اور فرمایا اے ابن عباس ! کیا تو سمجھتا ہے کہ اللہ نے اس آسمان اور اس کے برجوں کی قسم کھائی ہے ؟ ابن عباس کہتا ہے میں عرض کی حضورؐ تو پھراللہ نے کس چیز کی قسم کھائی ہے تو آپ نے فرمایا وہ آسمان میں ہوں اور بارہ برج میرے بعد میں ہونے والے بارہ امام ہیں جن کا پہلا علیؑ اور اخری مہدی ہوگا۔
و شاھد و مشھود: اس میں متعدد اقوال ہیں #شاہد یوم جمعہ اور مشہور یوم عرفہ # شاہد حضرت رسالتمآبؐ اور مشہود یوم قیامت تفسیر مجمع البیان میں ہے کہ ایک شخص ایک دفعہ مسجد نبوی میں داخل ہو تو دیکھا کہ ایک شخص احادیث نبویہ بیان کر رہا ہے تو اس نے اس سے شاہد و مشہود کا معنی پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ شاہد یوم جمعہ ہے اور مشہود یوم عرفہ ہے پس وہ شخص آگے بڑھا اور ایک دوسرے کو احادیث بیان کرتے دیکھا تو اس سے شاہد و مشہود کا معنی پوچھا اس نے جواب دیا کہ شاہد کا معنی ہے یوم جمعہ اور مشہود سے مراد یوم نحرم ہے پس اس سے آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک نہایت خوبصورت نوارنی چہرے والا نو عمر شہزادہ احادیث نبویہ بیان کر رہا ہے تو اس شخص نے ان سے بھی شاہد و مشہود کا معنی دریافت کیا پس انہوں نے جواب دیا کہ شاہد مراد حضرت رسالتمآبؐ ہیں اورمشہود سے مراد یوم قیامت ہے اور ساتھ انہوں نے یہ آیت بھی پڑھی انا ارسلنک شاھدا الآیہ وہ شخص کہتا ہے جب میں نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ پہلا شخص حدیثیں بیان کرنے والا ابن عباس تھا اور دوسرا ابن عمر تھا اور تیسرا حضرت امام حسن علیہ السلام تھا # شاہد یوم نحر اور مشہود یوم عرفہ # شاہد یوم عرفہ اور مشہود یوم جمعہ اور ابوالدرداء سے مروی ہے حضورؐ نے فرمایا میرے اوپر جمعہ کے روز درود زیادہ بھیجا کرو کیونکہ یہ ملائکہ کی حاضری کا دن ہے اور جو شخص بھی اس دن میرے اوپر درود بھیجتا ہے مجھے اس کی اطلاع دی جاتی ہے تو راوی کہتا ہے میں سوال کیا کہ آیا موت کے بعد بھی آپ پر درود بھیجا جائے تو آپ کو معلوم ہو جاتا ہے پس آپ نے فرمایا کہ زمین پر انبیاء کے جسموں کا کھانا حرام ہے اور جو نبی ہوتا ہے وہ ظاہری موت کے بعد بھی زندہ ہوتا ہے اور اللہ کا رزق کھاتا ہے # شاہد فرشتے اور مشہور یوم قیامت# شاہد سے مراد وہ جو بروز محشر لوگوں پر گواہی دیں گے اور مشہود جن پر گواہی دی جائے  گی # شاہد یہ امت اور مشہود گذشتہ امتیں # شاہد اعضاء بنی آدم اور مشہود خود نبی آدم # شاہد حجر اسود اور مشہود حاجی # شاہد شب و روز اور مشہود ابن آدم # شاہد انبیاء مشہود خاتم الانبیاء # شاہد اللہ مشہود کلمہ توحید # شاہد خلق اور مشہود حق پس یہ 13 اقوال جو مجمع البیان میں بیان کئے گئے ہیں اور تفسیر برہان میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ شاہد حضرت رسالتمابؐ و حضرت امیر المومنین علیہ السلام ہیں۔
اصحاب الخدود۔ زمین کھودے ہوئے شگاف جس طرح آج کل فوجی لوگ زمین میں مورچے بنا لیا کرتے ہیں اور اصحاب الاخدود سے مراد زمانہ سابق کے وہ ظالم حکمران ہیں جنہوں نے تبلیغ اسلام کرنے والوں اور ایمان لانے والوں کو نشانہ عذاب بنایا اور زمین نالیاں و نہریں کھود کر ان کو آگ سے بھر دیا اور ایمان لانے والوں کو اس آگ میں زندہ جھونک دیا چنانچہ تفسیر مجمع البیان و دیگر تفاسیر میں متعدد واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے ہم عبرت و نصیحت کی خاطر ان میں سے بعض کا تذکرہ کرتے ہیں۔
تفسیر مجمع البیان میں صحیح مسلم سے منقول ہے کہ حضرت رسالتمآبؐ نے فرمایا سابق زمانہ میں ایک بادشاہ تھاجس نے رعایا پر تسلط قائم رکھنے کےلئے ایک جادو گر کی خدمات حاصل کی ہوئی تھیں جب جادوگر کا بڑھاپے کا زمانہ آیا تو اس نے بادشاہ سے خواہش کی کہ مجھے ایک لڑکا دیا جائے جس کو میں اپنا فن جادو سکھا دوں تا کہ میری موت کے بعد وہ شاہی خدمات انجام دیتا رہے چنانچہ جادو کی تربیت حاصل کرنے کےلئے بادشاہ نے ایک لڑکا نامزد کر دیا اتفاق سے بادشاہ اور جادوگر کی منزلوں کے درمیان ایک عبادت گزار راہب کا مکان تھا وہ بچہ آتے جاتے ہوئے جب اس راہب کے پاس گذرتا تو اس کی نصیحتوں کو سننے کے لئے کچھ دیر ٹھہر جاتا تھا جس کے نتیجے میں جادوگر کے پاس دیر سے جاتا تو جادوگر سزا دیتا تھا اور گھر دیر سے جاتا تھا تو گھر واوں سے سرزنش  کا مستحق گردانا جا تا تھا پس اس لڑکے نے اپنی اس مشکل کا ذکر راہب سے کر دیا تو راہب نے کہا کہ میرا نام نہ لیا کرو بلکہ اگر گھر والے دیر کی وجہ پوچھیں تو جادوگر کے پاس ٹھہر جانے کا بہانہ کر لیا کرو اور اگرجادوگر  دیر سے پہنچنے کی وجہ پوچھے تو گھر والوں کی روکاوٹ کا عذر پیش کر لیا کرو پس اس طریقہ سے اس لڑکے نے راہب سے دین سیکھ لیا ایک دفعہ لوگوں پر ایک خوانخوار جانور نے حملہ کر دیا اور اس لڑکے کا دھر سے گزر ہو پس اس نے ایک پتھر اٹھایا اور دعامانگی کہ اے اللہ اگر راہب کا دین بر حق ہے تو اس جانور کو موت دیدے  پس اس زور سے پتھر مارا کہ وہ جانور کے لئے پیغام موت ثابت ہوا اور لوگ اس سے نجات پا کر گھروں کو چلے گئے لڑکے نے اس واقعہ کا تذکرہ راہب سے کیا تو اس نے کہا بیٹے! تم پر امتحان آئے گا لیکن یاد رکھنا کہ ہمارے متعلق کسی کو کچھ نہ بتانا نچنچہ وہ لڑکا نہایت دیندار اور مستجاب الدعوات ہو گیا حتی کہ کوڑھ اور برص کی بیماریوں  والے اس کی دعا کی برکت سے شفایاب ہونے لگے ایک دفعہ بادشاہ کے مصاحبین میں سے ایک شخص نابینا ہو گیا تواس نے لڑکے کو کافی دولت پیش کش کی کہ تو مجھے شفایاب کر دے تو لڑکے نے جواب دیا میں کسی کشفا نہیں دے سکتا کیونکہ یہ اللہ کا کام ہے پس اگر تو ایمان کو قبول کرے تو میں تیرے لئے اللہ سے دعا کروں گا اور خدا تجھے آنکھوں کی بینائی عطا فرمائے گا چنانچہ وہ لڑکے کی نصیحت کو مان کر مومن ہو گیا اور لڑکے نے اس کے حق میں دعا کی پس اللہ نے اس کو قوت بینائی دیدی  جب وہ مصاحب دربار شاہی میں شفایابی کے بعد حاضر ہوا تو بادشاہ نے دریافت کیا تجھے کس نے شفا بخشی ہے؟ تو اس نے صاف کہہ دیا کہ مجھے  اللہ نے شفا بخشی ہے بادشاہ  کہنے لگا میرے علاوہ کوئی اور اللہ بھی ہے؟ تو اس نے کہا للہ وہ ہے جو تیرا بھی خدا ہے اور میرا بھی خدا ہے بادشاہ نے پوچھا تجھے یہ سبق کس نے پڑھایا ہے؟ تو اس نے لڑکے کا نام لیا پس بادشاہ نے اس لڑکے کو بھر سے دربار میں منگوایا اور پوچھا کہ کیا تو لوگوں کو شفایاب کرتا ہے تو اس نے جواب دیا ہاں وہ خدا ہے جو تیرا بھی خدا ہے اور میرا بھی خدا ہے پس لڑکے پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ اس نے راہب کی نشاندہی کر دی چنانچہ سب سے پہلے اس راہب کو آرے سے چیر دیا گیا اور لڑکے کے لئے حکم جاری کر دیا گیا کہ اگر یہ اپنے دین سے باز نہ آئے تو اس کو پہاڑ کی چوٹی سے زمین پر گراد دیا جائے تا کہ اس کی ہڈیاں پسلیاں چور چور ہو جائیں چنانچہ جب جلاد لوگ اس کو لے چلے تو اس نے اللہ سے دعا کی اے پروردگار ! تو مجھے ان لوگوں کے شر سے نجات عطا فرما پس پہاڑ کو زلزلہ آیا اور سب کے سب دب کر مرگئے اور لڑکا صحیح و سالم دربار شاہی زندہ واپس پہنچا اور بادشاہ کے سوال کے جواب کہہ دیا مجھے اللہ نے ان کی گرفت سے بچالیا  ہے تو بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کو سمندر میں لے  جا کر غرقاب کر دیا جائے چنانچہ جب لوگ اس کو کشتی میں سوار کر کے گہرے سمندر کے پانی میں لے گئے تو لڑکے کی دعا سے کشتی الٹ گئی اور وہ سارے ڈوب کر مر گئے اور لڑکا زندہ بچ کر واپس آ گیا جب بادشاہ نے وجہ پوچھی تو لڑکے نے صاف کہہ دیا کہ مجھے اللہ نے محفوظ رکھ لیا ہے اس کے بعد لڑکے نے کہا اے بادشاہ اگر تو مجھے مروانا چاہتا ہے تو جس طرح میں بتاؤں اس طریقہ سے مجھے قتل کرو تب کامیاب ہو گے اور وہ یہ کہ تمام رعایا کو جمع کر لو اور مجھے کھجور کے تنے پر لٹکا کر میرے ترکش سے تیز نکالو اور تیر کو کمان پر رکھ کر یہ کلمہ کہو اس لڑکے کے پروردگار کے نام سے تیر مار رہا ہوں چنانچہ بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور تیر اس لڑکے کی کنپٹی میں مارا جس سے وہ لڑکا درجہ شہادت پر فائز ہو گیا اور تمام حاضرین نے اسی وقت کلمہ توحید زبان پر جاری کر لیا اور کہا کہ ہم اس لڑکے کے خدا پر ایمان لائے ہیں بعض مصاحبین نے بادشاہ سے کہا کہ لڑکا اپنی قربانی دیکر لوگوں کو توحید کا درس دینے میں کامیاب ہو گیا ہے کہ وہ تو خود تو مر گیا لیکن ہزاروں کو مسلمان کر گیا پس بادشاہ کو طیش آیا اور اس نے اخدود کھودنے کا حکم دیا چنانچہ شہر کی ہر گلی کے سرے پر ایک ایک اخدود کھودی گئی اور لکڑیاں ڈال کر ان میں آگ روشن کرائی گئی اور مومنوں  کو اس آگ میں جلانے کا حکم دیا گیا لیکن مومن لوگ خود بخود اپنے ایمان کی حفاظت کی خاطر اس میں چھلانگیں لگانے لگ گئے سب سے آخر میں ایک عورت آئی جس کی گود میں ایک بچہ تھا تو اس بچہ نے ماں سے کہا اماں جان صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا کیونکہ تو حق کے راستہ پر گامزن ہے۔
اور اب مسیب سے منقول ہے کہ عمر بن خطاب کے زمانہ خلافت میں یہ رپورٹ پہنچی کہ لوگوں نے ایک جگہ کھو دی ہے اور وہاں سے اس نوجوان کی میت نکلی ہے جس نے اپنی کنپٹی پر ہاتھ رکھا ہوا تو عمر نے ان کو تحریراً حکم دیا کہ اس جگہ کو بند کر دو اور اسے وہیں دفن کر دو۔
دوسری روایت میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہے کہ ایک بادشاہ نے حالت نشہ میں اپنی لڑکی یا بہن سے زنا کر لیا جب نشہ ٹوٹا تو اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لئے اس نے علاج سوچا تو کسی مشیر نے اسے مشورہ دیا کہ عذر بہانہ سوچنے کے بجائے تم حکم دے دو کہ بہن بیٹی سے وغیرہ سے نکاح جائز ہے اور اس کو آئین مملکت قرار دیدے اور حکم عدولی کرنے والے افراد کو سنگین سزائیں دو چنانچہ اس نے حکم نافذ کر دیا اور خلاف ورزی کرنے والے (مسنگ) اور شاہی حکم کے خلاف زبان کھولنے  والے افراد کے لئے زمین میں نہریں کھددا دیں اور ان میں آگ روشن کرادی پس جو بادشاہ کے دین کو قبول کرتا تھا اس کو انعامات سے نوازا جاتا تھا اور حکم عدولی کرنے والوں کو آگ میں جھونک دیا جاتا تھا
تیسری روایت میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہے کہ خداوند کریم نے حبشیوں کی طرف ایک حبشی کو نبی بنا کر بھیجا تو انہوں نے اس کو جھٹلایا اور اس کے بادشاہ نے اس نبی اور اس پر ایمان لانے والوں کو گرفتار کر لیا اور اخدود کھدوا کر آگ روشن کرائی اور لوگوں کو جمع کر کے حکم دیا کہ جو ہمارے دین پر ہے وہ آگ میں کود جائے چنانچہ مومنوں نے آگ میں چھلانگ لگا دی آخری میں ایک عورت آئی جس کے پاس ایک ماہ کا بچہ تھا پس آگ میں جاتے ہوئے اس عورت کو بچے پر رحم آیا تو بچہ نے زبان کھولی اور کہا اماں جان گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے مجھے آگ میں بھینک دے اور خود بھی آگ میں کود جا کیونکہ خدا کی قسم اللہ کی راہ میں یہ قربانی ایک معمولی بات ہے چنانچہ اس عورت نے بھی آگ  میں چھلانگ لگا دی اور مہد میں بولنے والے بچوں میں سے ایک بچہ یہ بھی ہے ۔
ایک روایت میں ہے کہ جن لوگوں نے اخدود کھدوا کر مومنین کو آگ میں جلایا ان کی تعداد دس ہے اور ایک روایت میں ہے کہ وہ تین ہیں ایک شام میں تھا جس کا نام انطیاخوس تھا جو رومی باشندہ تھا دوسرا فارس میں تھا اور وہ بخت نصر ہے اور تیسرا عرب کی سر زمین میں بخران کا رہنے والا تھا جس کا نام یوس بن زوالنواس تھا اور اس کا قصہ اس طرح ہے کہ حضرت عیسٰ علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے بعد عرب میں دو آدمی انجیل کے قاری تھے ایک زمین تہماہ میں اور دوسرا بخران میں جو علاقہ یمن میں تھا پس یہ بخران والا قاری کسی بڑے آدمی کے ہاں ملازم تھا اور انجیل کو پڑھا کرتا تھا اس امیر کی لڑکی نے ایک دفعہ دیکھا کہ انجیل پڑھتے ہوئے اس کے چہرہ سے نور  ساطع ہے تو اس لڑکی نے اپنے باپ کو بتیا کہ ہمارا ملازم کوئی ایسی کلام پڑھتا ہے جس کی بدولت اس کے منہ سے نور ساطع ہوتا ہے چنانچہ اس امیر نے اس نور کا مشاہدہ کیا تو اپنے ملازم کو بلا کر حقیقت دریافت کی کافی اصرار کے بعد اس نے بتایا کہ میں دین عیسی پر ہوں اور اللہ کی  کی کتاب انجیل کی تلاوت کرتا ہوں پس وہ امیر اپنے پورے خاندان سمیت مسلمان ہو گیا اور تقریباً زن و مرد 87 کی تعداد میں مسلمان ہو گئے جب یوسف بن زونواس بن شر اجیل  بن تبع حمیری کو اس معاملہ کی رپورٹ پہنچی تو اس نے زمین میں خندقیں  کھدوا کر ان میں آگ روشن کرائی پس جو شخص دین عیسی سے مرتد ہو جاتا تھا اس کو معافی دی جاتی تھی اور جو ثابت قدم رہتا تھا  اس کو آگ میں جھونک دیا جاتا تھا چنانچہ مومن آگ میں ڈال دئے گئے اور سب سے آخر ایک عورت کو لایا گیا جس کی گود میں چھوٹا سا بچہ تھا جو بول نہ سکتا تھا جب ماں نے بچے کو دیکھا تو ترس کھانے لگی لیکن بچہ فورا گویا ہوا اے اماں جان! جو آگ اس کے بعد ہو گی وہ کبھی خاموش نہ ہو گی لہذا اس آگ سے ہر گز نہ گھبراؤ چنانچہ بچے کی بات کو سن کر اس نے بھی آگ میں چھلانگ لگا دی اور اللہ نے ماں بیٹے دونوں کو جنت میں داخل کر دیا اور کل 77 آدمی تھے جنہوں نے آگ میں چھلانگ لگائی  تھی اور ابن عباس سے منقول ہے جو آگ میں جانے سے انکار کرتے تھے ان کو تازیانوں سے پیٹا جاتا تھا حتا کہ آگ میں جانے سے پہلے ان کے روح جنت میں پہنچ جاتے تھے اور تفسیر برہان میں قمی سے منقول ہے کہ یہ شخص قوم حمیر کا آخری بادشاہ تھا اور مذہب یہود اس نے اختیار کیا تھا اور نصرانیوں کو یہودیت کی طرف جبراً لاتا تھا اور جن لوگوں کو اس نے مرتد کرنے کےلئے قتل کیا ان کی تعداد بیس ہزار تھی۔
ایک روایت میں ہے بخت نصر کے بیٹے بہر قیہ نے حضرت دانیال اور اس کے ماننے والوں کو ایک کنیوں میں ڈال کر اوپر آگ روشن کر دی تھی جو ان کےلئے گلزار بن گئی تھی پھر خونخوار درندوں کے حوالے ان کو کیا تھا لیکن خدا نے ان کو محفوظ رکھا (برہان)
اذھم علیھا قعود: یعنی وہ لوگ کناروں پر بیٹھ کر مومنوں کے جلنے کا تماشا دیکھتے تھے اور منقول ہے کہ ان کے دو گرو تھے ایک تو وہ تھا جو مومنوں کو جلاتا تھا اور دوسرا گروہ جلانے میں شریک نہ تھا لیکن تماشائی  تھا اور جلانے والوں کے فعل پر راضی تھی پس خدا نے ان دونوں پر لعنت بھجیجی ہے منقول ہے کہ خداوند کریم نے مومنوں  کے ارواح کو آگ میں جانے سے پہلے جنت میں پہنچا دیا اور خدا کی کرنی یہ ہوئی کہ ہی آگ خندقوں سے نکل کر کافروں کے کپڑوں میں لگ گئی اور وہ خود اپنی جلائی ہوئی آگ کی لپیٹ میں آکر اجل ہو گئے (مجمع البیان)
شھود: قعود جمع ہے قاعد کی اور شہود جمع ہے شاہد کی اس جگہ مراد وہ لوگ ہیں جو واقعہ میں حاضر تھے۔
لم یتوبوا ۔ یعنی مومنوں کو ستانے کے بعد اپنے کفر و شرک پر برقرار رہے اور توبہ کئے بغیر مر گئے  ایسے لوگوں کے لئے جہنم میں قسم و قسم کا عذاب ہو گا اور دیگر عذابوں کے علاوہ آگ میں جلنے کا عذاب بھی ہو گا اسی بناء پر عذاب جہنم اور عذاب حریق کو الگ الگ ذکر کیا گیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ عذاب جہنم  سے اخروی عذاب مراد ہو اور عذاب الحریق  سے مراد دنیا عذاب ہو جس طرح کہ منقول کہ وہ جبمومنوں کو آگ میں جھونکتے تھے تو آگ کے شعلے ان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتے تھے اور وہ خود بھی جل کر خاکستر ہو جاتے تھے اور مومنوں کے ارواح کو خدا آگ سے پہلے جنت میں پہنچا دیتا تھا
الودود: ممکن ہے فعول بمعنی فاعل ہو یعنی مومنوں سے محبت کرنے والااور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فعول بمعنی مفعول ہویعنی وہ ذات جس سے مومنوں کو محبت کرنی چاہیے یعنی لائق محبت اور اللہ دونوں اعتبار سے ودود ہے ۔
المجید: جن لوگوں نے مجید کو رفع کے ساتھ پڑھا ہے تو انہوں نے اس کو اللہ کی صفت قرار دیا کہ وہ اللہ صاحب مجد و بزرگی ہے۔ اور عرش کا مالک ہے اور جن لوگوں نے مجید کو جرکے ساتھ پڑھا ہے انہوں نے اس کو عرش کی صفت قرار دیا ہے اور معنی یہ ہو گا اللہ عرش مجید کا مالک ہے اور اکثر قاریوں نے اس کو رفع کے ساتھ پڑھ کر اللہ کی صفت بنایا ہے ۔
الجنود یعنی وہ کفار جنہوں نے اپنے لشکروں اور فوجوں کے ساتھ انبیاء اللہ کو خوفزدہ کیا جس طرح فرعون و ثمود وغیرہ تو خداوندکریم نے انبیا کو صبر کی توفیق دی اور اپنے دشمنوں کو عبرتناک سزائیں دیں جن کو رہتی دنیا تک یاد کیا جاتا رہے گا۔
فی تکذیب: یعنی اگر کفار مکہ آپ کو جھٹلاتے ہیں تو آپ پرواہ نہ کریں وہ خدا کی گرفت سے ہر گز بچ نہیں سکتے
قرآن مجید : یعنی کفار نے جادو یا شعبدہ کہانت کہکر لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالنے کی ہر چند کوشش کی لیکن بالاخر ان کے غلط پروپیگنڈے باطل ہوئے اور ثابق ہو گیا کہ یہ قرآن مجید اللہ کا بھیجا ہوا کلام ہے جس میں اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ ہے اور اس کے عذاب کا ذکر بھی ہے اور اس کی گرفت کے قصے بھی ہیں تا کہ ہر ممکن طریق سے لوگوں کو راحق کے قریب کیا جائے ۔
فی لوح محفوظ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ محفوظ لوح کی صفت ہو یعنی لوح مفوظ میں ہے اور تفسیر مجمع البیان میں ہے کہ وہ ایک سفید موتی کی طرح ہے جس کی لمبائی  آسمان و زمین کے مابین فاصلہ کے برابر ہے اور چوڑائی مشرق و مغرب کے فاصل کے برابر ہے اور بعضوں نے اسرافیل کی پیشانی کو لوح محفوظ قرار دیا ہے اور بعضوں نے عرش کے دائیں طرف اس کا مقام بتایا ہے۔
اور اگر محفوظ کو قرآن کی صفت قرار دیا جائے تو معنی یہ ہو گا کہ قرآن مجید تغیر و تبدل اور نقص و عیب سے محفوظ ہے اور لوح میں موجود ہے جس سے جبرائیل حسب ضرورت بحکم پروردگار احکام انبیاء کی طرف لایا کرتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں