۞
یہ سورہ مکیہ ہے جو فلق کے بعد نازل ہوا
۞
اس کی آیات کی تعداد بسم اللہ کے علاوہ
چھ ہے
۞
سورہ فلق اور سورہ ناس کو معوذ تین بھی
کہا جاتا ہے کہ کیونکہ ان دونو کو نظر بد کے تعویذ کے طور پر لکھا اور باندھا جاتا
ہے
۞
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے
سوال کیا گیا کہ کیا معوذ تین قرآن میں داخل ہیں اور جنہوں نے ان کو قرآن میں شامل
نہیں کیا انہوں نے غلطی کی ہے اور ان کو نماز فریضہ میں پڑھا جا سکتا ہے (الخبر)
۞
حدیث نبوی میں ہے جو شخص اس سورہ کو کسی
درد پر پڑھے تواس کو آرام ہو گا باذن اللہ
۞
آپ نے فرمایا جو شخص سوتے وقت اس سورہ
کو پڑھے تو یہ سوتے وقت کا اس کا تعویذ ہو گا اور ہر درود تکلیف و آفت کے لئے یہ
سورہ تعویذ ہے اور باعث شفا ہے
۞
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے
فرمایا جو شخص اپنے گھر میں ہر رات اس سورہ کی تلاوت کرے گا وہ قوم جن اور وسواس
اس نجات پائیگا اور جو شخص اس سورہ کو لکھ کر چھوٹے بچے کے گلے میں لٹکائے تو وہ
بچہ جنات کی اذیت سے محفوظ ہو گا
قُلْ
أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ (1) مَلِكِ النَّاسِ (2) إِلَهِ النَّاسِ (3) مِن شَرِّ
الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ (4)
الَّذِي
يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ (5) مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ (6(
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے (شروع کرتا ہوں)
کہ دو میں لوگوں کے رب کی پناہ لیتاہوں (2) جو لوگوں کا مالک ہے (3) لوگوں کا
معبود ہے (4) وسواس الخناس کے شر سے (5) جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے (6)
جنوں میں سے اور انسانوں میں سے(7)
رکوع نمبر 39، ملک الناس: مالک مشتق ہے ملک سے سورہ
فاتحہ میں مالک اور ملک دونوں کا پڑھنا جائز ہوتا ہے لیکن یہاں صرف ملک ہی پڑھا
جائے گا کیونکہ ملک کے معنی میں تدیر ملک کا مفہوم ہے جو مالک میں نہیں پایا جاتا
اور خداوند کریم اگر تمام کائنات کا رب ہے لیکن صرف رب الناس اس لئے کہا گیا ہے کہ
لوگوں میں سے بعض عظیم و متکبر مزاج بھی جن کے شر سے ڈرا جاتا پس ربوبیت کو ناس کی
طرف مضاف کیا گیا تا کہ یہ ظاہر ہو سکے کہ اللہ ہر متکبر و عظیم کا بھی پروردگار
ہے اور وہ ہی کمزوروں کے لئے جائے پناہ ہے اس طرح لوگوں میں بادشاہ بھی ہوتے ہیں
جن کے شر سے رعایا کو خطرہ رہتا ہے پس ملک الناس کہا گیا ہے تا کہ یہ ظاہر ہو سکے
کہ وہ بادشاہوں کا بھی بادشاہ ہے جو کمزور رعایا کے لئے جائے پناہ ہے اور چونکہ
لوگ بعض اوقات غیر اللہ کے پجاری بھی ہوتے ہیں تو الہ الناس کہا گیا ہے کہ درحقیقت
لوگوں کے لئے عبادت اسی ایک اللہ کی کرنی چاہیے جو تمام معبود حقیقی ہے اور بعض
مفسرین نے ناس کے لفظ میں تکرار کا یہ جواب دیا ہے کہ پہلی جگہ ناس سے مراب جنین
ہیں جو محتاج تربیت ہوتے ہیں اس لئے رب الناس کہا اور دوسری جگہ ناس سے مراد اطفال
ہیں جو اپنی تدبیر کے آپ مالک نہیں ہوتے اس لئے ملک الناس کہا اور تیسری جگہ ناس
سے مراد بالغ لوگ ہیں جن پر عبادت فرض ہے پس الہ الناس کہا کہ لوگوں کا معبود
حقیقی اللہ ہے اور چوتھی جگہ ناس سے مراد
علماء ہیں کیونکہ شیطان انہی کو وسوسے سے ڈال کر اپنا ایجنٹ بنانے کی کوشش کرتا ہے
اور جاہل کے وسوسے سے شیطان کا اتنا فائدہ نہیں کیونکہ وہ اگر گمراہ ہو گا تو تنہا
لیکن اگر گمراہ ہو جائے تو ہزاروں کو وہ گمراہ کر سکتا ہے اور آخر میں ناس سے مراد
خود شیاطین ہیں جو دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں
من شر الوسواس: اس کی تقدیر اس طرح ہے من شر ذی الوسواس الخناس یعنی ایسے شیطان کے
شر سے جو صاحب وسواس ہے یا اس طرح ہوگا من شر
الوسواسالواقع من الخناس یعنی ایسے وسواس کے شر سے جو خناس کی طرف سے
ڈالا جاتا ہے اور خناس خنوس سے مشتق ہے جس کا معنی ہے ظاہر ہونے کے بعد چھپ جانا
جس طرح ستاروں خُنّس کہا گیا ہے کیونکہ ظاہر ہونے کے بعد چھپ جا یا کرتے ہیں اور
اسی طرح شیطان کا خناس کہا جاتا ہے وہ نظروں سے چھپا رہا ہے
من الجنۃ والناس: یہاں من بیانیہ ہے یعنی
وہ خناس شیطان جو وسوسے ڈالتا ہے جنوں سے بھی ہوتا ہے اور انسانوں سے بھی ہوتا ہے
اور حضرت رسالتمابؐ نے فرمایا کہ مومن کے دل میں دوکان ہوتے ہیں ایک کان میں فرشتہ
خدا کی جانب سے نمائندگی کے طور پر نیکی کا القاء کر تا ہے اور دوسرے کان میں خناس
شیطانی وسوسے ڈالتا ہے پس مومن شیطانی وساوس سے بچ کر فرشتے کی رہنمائی میں نیکی
کی طرف مائل ہوتا ہے اور اسی کے متعلق ارشاد ہے و
اید ھم بروح منہ اور اسی بناء پر اعوذ
باللہ من الشیطن الرجیم کا پڑھنا قرآن سے پہلے مستحب قرار دیا گیا ہے
تا کہ شیطان وساوس سے دل پاک و صاف رہے والحمدللہ
رب العالمین اولاً و آخراً و باطناً و ظاہراً