جب حضرت پیغمبرؐ نے
انتہائی نامساعد حالات میں اسلام کا پرچم بلند کیا تو اسلامی خدمات اور اسلام کی
سر بلندی میں عورت مرد کے دوش و بدوش رہی ہے چنانچہ حضرت ابو طالبؑ مردوں میں اور
جناب خدیجہؐ طاہرہ عورتوں میں تحریک اسلامی کے محسن ہیں اور خداوند کریم نے قرآن
مجید میں ان دونوں کی خدمات کو سراہا ہے چنانچہ حضرت ابو طالب کے متعلق فرمایا الم
یجدک یتیما فاوی کیا آپ یتیم نہ تھے پس اللہ نے تمہیں ماوٰی عطا کیا کیونکہ کافر و
مشرک لوگوں نے جب اپنی طاقت کے بل بوتہ پر تحریک اسلامی کو دبانا چاہا تو باتفاق
مورخین صرف ابو طالبؑ کی تنہا ذات تھی جن ہر مرحلہ پر حضورؐ کی ہمت افزائی کی اور
کفار و مشرکین کی کوششوں کی پنپنے نہ دیا اور شجرہ اسلام کی آبیاری کر کے لوگوں کو
اس کے سایہ میں آنے کا موقعہ فراہم کیا اور جناب خدیجہ طاہرہؑ کی خدمات کا اعتراف
قرآن مجید نے اس طرح کیا ووجدک عائلا فاغنی اور اللہ نے آپ کو تن دست پایا تو
(خدیجہ کے مال سے) غنی کر دیا ۔ کیونکہ غریب طبقہ کے لئے اسلام کے حلقہ بگوش ہونے
سے دو رکاوٹیں تھیں ایک مشرکین مکہ صنا دید قریش کا دباؤ جو حضرت ابو طالب کے قوت
بازو اور ان کی ہمت سے ختم یا بے اثر ہو گیا اور دوسرے بھوک و افلاس کا ڈر جو
خدیجہ کی مالی قربانی سے ختم ہو گیا پس جناب ابو طالب نے مرد ہو کر اپنی حیثیت سے
اسلام کی خدمت کی اور جناب خدیجہؑ نے عورت ہو کر اپنی حیثیت سے اسلام کی سر بلندی
میں نمایاں کردار ادا کیا۔
مکہ میں ان دونوں کا
انتقال ہوا تو حضرت پیغمبرؐ نے ہجرت کر کے
مدینہ کو اسلامی تحریک کے لئے بطور ہیڈ کوارٹر منتخب فرمایا اور ہجرت کر کے وہاں
چلے گئے تو مردانہ حیثیت سے حضرت علیؑ اپنے باپ کے نعم البدل ہو کر اسلام کے لئے
حصار بن گئے اور اسلام کے دشمنوں کو ہر مرحلہ پر دندان شکن جواب دیکر ان کی حوصلہ
شکنی کی پس لوگ جوق در جوق اسلام کے حلقہ بگوش ہوتے گئے اور جناب بتولؑ معظمہ
خاتون جنت نے اپنی حیثیت سے اپنی ماں کی طرح اسلامی خدمات انجام دیں چنانچہ میدان
مباہلہ میں اسلام کی صداقت کا علم بلند کرنے کے لئے نبوت و امامت کے پردوں میں
مستور ہو کر تشریف لے گئیں تو انہی کے صدقہ میں عیسائی مشن ناکام ہوا اور وہ جزیہ
دینے پر رضا مند ہو گئے۔
پھر کربلا میں جب کفر
نے اسلام پر بھر پور حملہ کیا تو جہاں حسینؑ نے مردانہ حیثیت سے اسلام کی بقاء کے
لئے قربانیاں پیش کی ہیں وہاں جناب زینبؑ خاتون اپنی ماں اور نانی کی طرح اپنی
حیثیت سے ہر قربانی کے لئے پیش پیش تھیں اور کربلا میں حاضر ہونے والی تمام مخدرات
طاہرات کا بقائے اسلام کے لئے روشن کردار قیامت تک کی تمام اسلامی عورتوں کے لئے
اسوہ حسنہ کی حیثیت رکھتا ہے پس عورتوں کا مردوں کے دوش بدوش ہو کر تعمیر کردار
میں حصہ لینا اسی کو کہتے ہیں نہ کہ سڑکوں ، گلیوں ، کوچوں اور بازاروں میں مردوں
کے ساتھ آوارہ گھومنا پھرنا۔
اسلام میں عورت کا تعمیری کردار
جب حضرت پیغمبرؐ نے انتہائی نامساعد حالات میں اسلام کا پرچم بلند کیا تو اسلامی خدمات اور اسلام کی سر بلندی میں عورت مرد کے دوش و بدوش رہی ہے ...