التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

معیار مذہب

میں جذبات کے کیچڑ میں اپنے قلم کے دہانے کو ملوث کرنا نہیں چاہتا بلکہ حقائق کے چہرہ سے نقاب کشائی کو اپنا فرض سمجھتا ہوں مذہب کا معنی ہے چلنے کا راستہ اور خدا کی جانب سے فرستا دہ نبی و رسول انسانوں کے لئے جو راستہ تجویز فرماتے ہیں اس کا مقصد دنیا وی و اخروی فلاح ہوتی ہے دنیاوی زندگی میں انہوں نے جہاں تدبیر نفس تدبیر منزل اورسیاست مدنیہ کی تعلیم دے کر انسانوں کو انفرادی وا جتماعی زندگیوں کا صحیح لائحہ عمل بتایا وہاں معرفت و عبادت پروردگار کے طرق کی تعلیم سےآراستہ کرکے قرب خدا وندی اور حیات اخروی کی فلاح کا دستور بھی انسانوں کو  عطا فرمایا پس مذہب سچاوہی ہے جو انسان کو دنیا میں صحیح انسان بن کر رہنے کی تعلیم دے جس میں نفس و منزل و معاشرہ کی اصلاح کے قابل قبول اصول اور قرین عقل دستور موجود ہوں اور قرب خداوندی کے ایسے طریقے اس میں موجود ہوں جو روحانیت کو صحیح طور پر پروان چڑھائیں اور اس کا کوئی دستور عقل سلیم سے متصادم نہ ہو پس اسلام ہی اللہ کے نزدیک ایک ایسا دین اور قابل قبول راستہ ہے جو ہر حیثیت سے انسان کے لئے واجب القبول ہے چنانچہ فرمایا ان الذین عند اللہ الاسلام دوسری جگہ فرمایامن یتبع غیرالاسلام دینا فلن یقبل منہ اور ہر مذہب چونکہ اصول اورفروع کے مجموعہ کا نام ہوتا ہے یعنی  چند چیزوں پر یقین رکھنا ضروری ہوتاہے جن کو عقائد کہاجا تا ہے اوروہ مذہب کے اصول ہوتے ہیں اورمقام عمل میں زندگی کےلئے کچھ اساسی دستور ہوتے ہیں جن کو اپنا ناضروری ہوتا ہے اوروہی اس کے فروعات سمجھے جاتے ہیں اور مذہب کی صداقت کا معیار یہی اصول وفروع ہواکرتے ہیں نیز مقام عمل سے چونکہ مقام اعتقاد پہلے سے لہذا سب سے پہلے عقائد کی درستی ہی انسان کی دنیاوی وا خروی زندگی کی کامیابی کاسنگ بنیاد ہے یعنی پہلے پہل جملہ بیہود گیوں اور خرافات سے پاک و صاف عقائد صحیحہ مٖضبوط طریقے سے ذہن نشین ہوں مبدا ءمباد پر ایمان راسخ ہو اپنے صانع حکیم کے وجود اور اس کی توحید پر یقین کامل ہو اور قیامت کا علم ہو جس میں سعادت و آئمہ یا شقاوت ابدیہ سے ہمکنار ہونا ہو گا اس کے بعد عمل و کردار کے صحیح لائحہ عمل و دستور کی نوبت آئے گی

مبداءو معاد کے اہم نظریے جو پہلی بار ہر حساس ذہن کو کھٹکتے ہیں وہ یہ ہیں کہ میں کہاں سےآیا مجھے کس نے بنایا اور کیوں بنا یا اور چونکہ موت سے ہمکنار ہونا بھی یقین بات ہے تو سوچنا پڑتا ہے کہ مجھے کہاں جانا ہے اور نتیجہ کیا ہوگا پس مبداءکی فکر انسان کو وجود باری تعالی کے تسلیم کی دعوت دیتی ہے کیونکہ خودبخود جب معمولی سے معمولی چیز نہیں بن سکتی تو تخلیق عالم کا اتنا بڑا کارنامہ خود بخود کیسے سر انجام پا سکتا ہے پس ماننا پڑتا ہے کہ اس اشرف المخلوقات انسان کی حیرت انگیز تخلیق جس مبداءفیض کی پرازحکمت صنعت اور اس کے احسان و کرم کی رہین منت ہے وہی مبدا ءفیض باقی تمام عالم  علوی و سفلی کی ایجاد و تخلیق کا فاعل حقیقی ہےاور نظام عالم میں محکم اورلازوال حکمتوں کا وجود اس کے جامع صفات کمال ہونے کی بولتی ہوئی زبان ہے اور اسی سے اس کے عدل کے سربستہ رموز بھی عیاں ہوتے چلے جاتے ہیں اوریہی فکر جوں جوں آگے بڑھتی چلی جاتی ہے معرفت خالق میں اضافہ ہوتا چلا جاتاہے چنانچہ تمام کائنات علوی و سفلی کا پرازحکمت نظام اور اس میں کبھی کسی خامی اور نقص کا نہ ہو نا نیز موجودات کا تصادم سے بچار ہنا صاف پتہ دیتا ہے کہ اس نظام کامالک خالق اور مدبر صرف ایک ہی ذات ہے پس صفات ثبوتیہ خدا وندی اسی طرح آسانی سے ہر ذی شعور انسان ذہن نشین کر لیتاہے اورمعاد کی فکر انسان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیارو ح و بدن کے افتراق کے بعد کوئی اور مقام بھی ہے یا نہیں اگر ہے تو کیا اس زندگی کا اس پر کچھ  اثر ہوگا یا نہ اور اگر ہوگا اور یقینا ہوگا تو نیکی کا اثر اچھا ہونا چاہیے جس کو سعادت ابدیہ سے تعبیر کیا جائے اوربرائی کا اثر برا ہو نا چاہئیے جسے شقادت سے تعبیر کیا جائے پس سعادت ابدیہ کا نام اسلام کی زبان میں جنت ہے اور شقادت کا نام جہنم ہے بنا بریں انسان خود بخود سمجھنے پر مجبور ہو جاتاہے کہ نیکی ہر وہ عمل ہے جو خالق حکیم مبد اءفیض کے منشا ئے تخلیق کے موافق ہوا ور جو اس کے قرب ورضا کی موجب ہواور برائی ہر وہ عمل ہے جو خالق کی منشائے ایجاد کے خلاف اور اس کی ناراضگی کا باعث ہو۔

ایک تبصرہ شائع کریں