التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

عقل کا مراتب

یار رہے کہ عقل فطری اور عقل کسبی الگ الگ دو مفہوم نہیں ہیں بلکہ وہی عقل فطری بار ہا کےتجربہ کے بعد ترقی کرکے عقل کسبی بن جاتاہے یا اس کی وضاحت یوں سمجھئے کہ عقل کے لئے چار مراتب ہیں عقل بالقوہ عقل با لفعل عقل بالملکہ عقل مستفاد کسبی عقل اپنے پہلے مرتبہ میں صرف بد یہات و ضروریات کے سمجھنے تک محدود ہوتی ہے جیسے بچپنے کا دور اوریہی عقل بالقوہ کہلاتی ہے اوراس کو عقل ہیولانی بھی کہتے ہیں اوراسکادوسرامرتبہ بدیہیات سے قد م بڑھا کر نظریات تک پہنچتا ہے اور یہ عقل بالفعل کا مرتبہ ہے اورپھر نظریات میں غور و فکر کرکے انہیں بدیہیات تک پہنچانا اس کا چوتھا مرتبہ ہے جو عقل مستفاد یا عقل کسبی کہلاتی ہے اورپھر اس کےلئے ایک لمبا چوڑا میدان ہےاور اس کے لیے بھی بلندو پست مراتب ہیں جس قدر مرتبہ بڑھتا جائے گا اس کی قوت میں اضافہ ہوتاجائے گا خلاصہ یہ ہے کہ عقل فطری جو پیدائشی طورپر انسان ساتھ لاتا ہے وہ منازل ترقی طے کرتا ہوا عقل کسبی کے بلند ترین مقام تک پہنچ جاتاہے گویا وہ بیج ہے اور یہ ثمر ہے نیزبعض مقامات پر عقل فطری کو عقل مسموع اور عقل کسبی کو عقل مطبوع بھی کہاگیا ہے جس طرح اندھے پن کی دو صورتیں ہوا کرتی ہیں ایک مادرزاد اوردوسرے عارضہ کی وجہ سےاسی طرح عقل فطری میں عقل مستفاد کی قوت کا نہ پیدا ہونایعنی عقل مسموع میں عقل مطبوع کا نہ ہونا بھی دونوں طریقوں سے ہوا کرتاہے ایک مادرزاد اورپیدائشی جس طرح احمق و دیوانے اور دوسرے عارضی مثلا خواہشات نفیسہ یاعلائق شہویہ نےاسے معطل کر دیا ہو یا اس تک پہنچنے کے ذرائع دستیاب نہ ہو سکے ہوں بہر کیف قوت عقل ہی کی بدولت انسان علوم نظریہ کی تحصیل کی طرف اقدام کرسکتا ہے اوراس کی مضبوطی یہ نظریات کے میدان کو سر کرتی ہے یہاں تک کہ انسان بعون اللہ المتعال نظریات کو بدیہیات کے رنگ میں بدل لینے پر موفق ہو جاتاہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں