يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ وَأُو۟لِى ٱلْأَمْرِ مِنكُمْ (سورہ نسآء آیت 51 )
اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو
اور رسول واولوالامر کی اطاعت کروفخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں کہاہے کہ اس
مقام پر خدا نے اولوالامر کی مطلق طور پر اطاعت کا حکم دیاہے پس اس سے ثابت ہواکہ
اولوالامر وہی ہوسکتے ہیں جو معصوم ہوں کیونکہ اگر معصوم نہ ہوں تو ان سے غلطی کا
امکان ہوگا اور ان کی غطی کا امکان ہوگا اور ان کی غلط کاریوں میں بھی ان کی اطاعت
کرنی پڑے گی کیونکہ حکم میں کوئی استشناء نہیں ہے حالانکہ وہ غلط کاریوں سے منع
فرماتاہے پس آیت مجیدہ کی رو سے اطاعت کاقطعی حکم اولوالامر کی عصمت کو ثابت کرتا
ہے الخ
مخرالدین رازی کی یہ بات واقعی قابل داد ہے کہ اس نے اولوالامر میں عصمت کو
ضروری قرار دیالیکن مقام عمل میں اپنا بیڑا غرق کردیا جبکہ کرسئی خلات پر ایسے شخص
کو لاکرکھڑا کردیا جس سے عصمت کوسوں دور تھی چنانچہ کرسی سنبھالنے کے بعد وہ خود
بھی اپنی نااہلیت کا ببانگ دیل اعلان کرتے رہے چنانچہ امامت وسیاست ابن قتیبہ
دینوری کودیکھئے لست بخیرکم میں تم لوگوں
سے اچھا نہیں ہوں ان لی شیطانا یعترنینی ایک شیطان
ہے جو مجھے گمراہ کرتا رہتاہے ان رغت
فقو موفی اگر میں کجروی اختیار کرو
ں تو مجھے سیدھے راستے پر لگادینا اس قسم کا اقرار خود عصمت کے لئے چیلنج ہے جس کو فخررازی نے آیت کی رو سے اولوالامر میں ضروری قرار دے دیاہے
اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ پوری امت میں معصوم سوائے آلِ محمدؐ کے اور کوئی نہیں ہے قرآن مجید میں کی آیت
مباہلہ میں انفسنا کا لفظ اور سابقہ روایت میں رسول کا فرمانا انہ منی وانامنہ
علیؑ کی عصمت کی سندیں ہیں اس کے علاوہ علیٌ مع
القرآن والقرآن مع علی علیؑ کی
عصمت پر برہان قاطع ہے پھر ہارونؑ سے مشابہت ایمان کا خطاب جو خندق میں فرمایا اور
حدیث طیر میں خدا کے محبوب ترین ہونے کا
لقب اور حدیث علی مع الحق والحق مع علی
وغیرہ یہ سب علیؑ کی عصمت پر بنانگ دیل
ناقط ہیں تو ثابت ہواکہ اطاعت مطلقہ کا حکم صرف معصوم کی اطاعت کےلئے ہی ہوسکتاہے
اور معصوم آلِ محمدؐ کے سوا کوئی دوسرا ہے نہیں اور چونکہ صحابہ میں سےعلیؑ ہی
اس صفتکے حامل تھے پس آیت کی رو سے اولوالامر کے پہلے مصداق وہی ہیں اور وہی
رسولؑ اللہ کے بعد انکے خلیفہ بلافصل ہیں