التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

نزول قرآن مجید

قرآن مجید میں صاف اعلان ہے کہ قرآن مجید ماہ مبارک رمضان میں اترا ہے شیخ صدوق عقائد میں تحریر فرمائے دیں باب الاعتقاد فی نزول القرآن اعتقا وما فی ذالک ان القرآن نزل فی شھر رمضان فی لیلتہ القدر جملتہ واحدتہ الی البیت المغمور فی مدۃ عشرین سنتہ وان اللہ عزوجل اعطی نبیتہ العلم باب شب قدر میں قرآن کے نازل ہونے کے بارے میں اعتقادیہ میں شیخ صدوق ؒ فرماتے ہیں اس بارے میں ہمارا عقیدہ ہے کہ تحقیق قرآن مجید  ماہ رمضان کی شب قدر میں اکٹھا البیت المعمور سے بیش بریں کے عرصہ میں اترتا رہاہے اور تحقیق خداوند کریم نے اس کا علم اپنے نبی کو اجمالا دے دیا تھا اور جملتہ ثم قال لہ ولا تعجل بالقرآن من قبل ان یقضی الیک وحیہ وقل رب زدنی علما وقال لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ ان علینا جمعہ وقراٰنہ فاذا قراٰنہ فاتبع قراٰنہ ثم علینا بیانہ پھر حکم دیا کہ قرآن کے ساتھ جلدی نہ کرو اس سے قبل کہ بذریعہ وحی کے پورا نہ کر دیا جائے اور یہ دعا کرو اے پروردگار میرے علم کوزیادہ کر اور فرمایا اس کو زبان سے نہ نکالو تاکہ جلد بازی کر و تحقیق اس کاجمع کرناا ور قرات کرناہم پرعائدہے جب ہم قرات کر لیں تو تم پھرقرات کرو پھرہم پر ہے ا سکا بیان کرنا آیات مذکورہ بالا کی اس امر پر تصریح ہے کہ حضورﷺ قرآن کو نزول سے پہلے جانتے تھے اور اس کا علم لے کر ہی تشریف لائےتھے  صرف ظاہری وحی کے ہونے کے بعد اس کا اظہار کرتے تھے جیسے کہ آیات میں موجود ہے اور یہ کہنا کہ قرآن کا علم پہلے کس طرح ہو سکتا ہے جب کہ اس کے مضامین بعد کی پیداوار میں جیسے جنگ احد و بدر کی آیات وغیرہ یا دیگر مسائل و واقعات تو اس کاجواب یہ ہے کہ اگرچہ یہ واقعات بعد کے ہیں لیکن خداوند کریم اپنے علم میں ان واقعات کے خارج میں واقع ہونےکامحتاج نہیں ہے جس طرح وہ خود علیم ہے اسی طرح قبل از وقوع کسی شئیی کا علم اپنے نبی کو بھی دے سکتا ہے شب قدر کے متعلق بہت کچھ اختلافات کتب میں موجود ہیں لیکن علمائے امامیہ کے نزدیک 23-21-19 ماہ رمضان کی تین راتوں میں سے ایک غیر معین رات ہے لہذا   عمال  شب قدر انہی راتوں میں بجالائے جاتے ہیں اور آئمہ معصومین کے فرامین سے مجموعی طور پر ایسا ہی معلوم ہوتا ہے اور ان کےعلاوہ جن راتوں کے متعلق کچھ روایات ہیں وہ اس پایہ کی نہیں ہیں ہم قرآن مجید کے قدیم ہونے کے قائل نہیں بلکہ اس کو حادث جانتے ہیں اور اللہ کی مخلوق مانتے ہیں جس طرح شیخ صدوق کے الفاظ نقل کئے جا چکے ہیں

ایک تبصرہ شائع کریں