التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

اثبات و جود باری سبحانہ

ہ وہ حقیقت ہے جو تمام حقیقتوں سےواضح تر  ہے اور ایسا مسئلہ ہے جوتما م مسائل سے بد یہی تر ہے اس کی وضاحت ہی اس کی رخفا کی موجب ہےاور اس کا ظہور ہی اس کی غیبت کا باعث ہےاوریہی مسئلہ عقول سلیمہ کی فطرت اولیہ کا محسوس اولی ہے لیکن زمانہ کی کج رفتاری کے بدترین نتائج میں سے سمجھ لیجئے کہ ارباب دانش اورصاحبان ذوق بے بس ہیں کہ ایک واضح ترین اوربدیہی اولی مطلب پر دلیل و برہان پیش کریں  اور اسی میں اپنی عمر عزیز کا قیمتی حصہ خرچ کریں اور ایک ایسی شیئی کو ثابت کرنے کے درپے رہیں جو واضح سے واضح تر بلکہ اپنی ذات سے بھی جلی اور قریب ترہے مجھے اس مقام پر فلاسفہ و حکماءکے طرز بیان کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں اور نہ متکلمین کی اصطلاحات کو بروئے کار لا کر سادہ اذہان کا الجھانے کو میں بہتر سمجھتا ہوں بلکہ اس مقام پر جو انداز قرآن اورقرآن والوں نے اختیار کیاہے وہ ہی موزوں تراورعقول انسانیہ کے قریب تر ہے اس سے مطلب کے چہرے سے گردو غبار بھی ہٹ جاتاہے اورعام اذہان پرا س کے سمجھنے کا چنداں بوجھ بھی نہیں پڑتا خداوندعالم نےہر انسان کو اپنے وجود کےاثبات کے لئے اپنے نفس اورآفاق میں مطالعہ کرنے کی دعوت دی ہے اورسچ یہ ہے کہ اثبات صانع کے لئے اس دعوت سے بڑھ کر اورکوئی آسان طریقہ ہو ہی نہیں سکتا اور قرآن مجید میں ایک دو مقام پر نہیں بلکہ متعدد مقامات پر خدا ئے قدوس نے اس دعوت کو دہرایا ہے۔ بے شک کا ئنات عالم میں تدبر و تعمق وجود خالق صانع حکیم کےاثبات کابہت بڑا ذر یعہ ہے کیونکہ کوہ دجیل کاہر کنگرہ موج دریا کا ہر قطرہ ریگ صحرا کاہرذرہ وسعت زمین کا ہرچپہ اوقات و ازمنہ کاہر لمحہ اور اشجار و نباتات کا ہر پتہ اپنے خالق محسن کے وجود کاپتہ دیتا ہے اسی طرح آسمانوں کی گردشیں زمینوں کی وسعتیں شب و روز کے اختلاف میں نور و ظلمت کافرق دریاوں کی طغیانیاں پہاڑوں کی سر بفلک چوٹیاں پانی کی لطیف موجوں پر جہاز رانیاں فضا میں بادلوں کی آمد بارش کا برسنا ہواوں کامنظم ہو کر چلنا زمینوں کی سرسبزی و شادابی باران رحمت سے ان کی سیرابی و فیض یابی سورج کی روشنی چاند کی چاندنی ستاروں کی چمک دمک پھولوں کی مہک باغوں میں گل و غنچہ کی رونق باد نسیم کی صرصراہٹ بلبلوں کی چہک اورپھر تمام کائنات کے نظام اعلی واتم کا دوام وبقا اور ان کی باقاعدگی سے مصروف کار رہنا یہ سب چیزیں وجود صانع کی بولتی ہوئی زبانیں ہیں اسی طرح اگر اپنے نفس کی طرف دھیان کیا جائے تو نطفہ کی حقیقت پھر شکم مادر میں علقہ اوراس سے مصنغہ کی طرف انتقال پھر انسانی قالب میں اس ڈھلنا اور نہ معلوم کن کن ادوار سے گذر کر نفس و روح کا محل بننا اور ایک عرصہ تک ایک ایسی جگہ محبوس رہنا جہاں نہ ہوا کا گذر نہ غذا کی آمد نہ ماں کو خبر نہ باپ کو پتہ عالم وحشت و تنہائی میں اکیلا و تنہا ایک وقت خاص کا منتظر رہنے کے بعد پیدائش کی منزل تک پہنچنا وغیرہ عقل و فہم حیران ہے اوراندازہ کرنا مشکل ہے کہ اس کے کان کیسے بنے اس کی آنکھ کو کس طرح بنایا گیا اوراس کا ناک زبان چہرہ ہاتھ پاوں بلکہ تمام کے تمام اعضا کس طرح تیار ہوئے حالانکہ وہاں روشنی تک نہیں تھی اب کس کی مجال ہے کہ کیسے و ہ خود بخود بن گیا جب کہ اس کا بے عیب جسم و وجود اوربے داغ وضع و قطع ببانگ  و ہل پکار رہی ہے کہ میرا صانع بے شک بے عیب و بے داغ تصویر نہیں کھینچ سکتا اور و بے داغ ہے ماہر ترین مصور اندھیرے میں بے عیب و بے داغ تصویر نہیں کھینچ سکتا اورمالک فرماتا ہے کہ میں نےانسان کو تین تاریک پردوں کے اندر بنا یا ایک  شکم مادر کا پر دہ دوسرا رحم کا پردہ اور تیسرا اس کے جسم نازنین کے اوپر باریک جھلی کا پردہ اوراس تاریک در تاریک فضا میں ایسا پیدا کیا کہ کوئی عیب کی جگہ نہ رہی کوئی عضوبے جا نہ ہوا اور لطف یہ کہ اگر مادہ کو بنایا تواس کے مناسب اعضا میں کوئی کمی نہ چھوڑی اورنر کو بنایا تواس کو اس کی حیثیت سے اتم و اکمل بنایا اور طرہ یہ کہ آدم سے لے کر آخر دم تک جس قدر انسان پیدا کئےسب کی شکل و صورت کوایک دوسرے سےممتاز فرمایا بلکہ ان کے ہرہر عضو کوایک دوسرے کی مشابہت سےمحفوظ رکھا بہر کیف ایک بہت بڑی تفصیل ہے جو انسانی اعضا ءمیں حکمت و مصلحت کے گوناگوں تقاضو ں پر مشتمل ہے جو اپنے صانع حکیم کی بولتی ہوئی زبان ہے اورکہنا پڑتا ہے تبارک اللہ احسن الخالقین چنانچہ بعض نکات حضرت صادق علیہ السلام کے حکیم ہندی کے ساتھ مکالمہ میں واضح کئے گئے ہین جو مقدمہ تفسیر انوارالنجف میں ص 181 ص 184 پر مذکور و مسطور ہیں انسان کی جملہ خوبیوں پر مشتمل پیدائش اگر اتفاقا ہوتی تو کبھی یہ حلیہ دوسرے شکل میں پیدا نہ ہوا اورنہ کبھی اتفاقی طریقہ سے اعضا میں سے ایک کی جگہ دوسرے نے لی پس ثابت ہوا کہ ایہ اتفاق نہیں بلکہ خالق کائنات کے حسن اختیار اور لطف تدبیر کا نتیجہ ہے پس یہ کہنا کہ یہ مادہ و طبیعت کی کارستانی ہے اور اتفاقا ایسی مخلوق پیدا ہوگئی ہے بالکل غلط ہے کیونکہ جب مادہ و طبیعت میں حس و شعور ہی نہیں ہے تو ان سے ایسی پراز حکمت و تدبیر مخلوق کیسے سرزد ہو سکتی ہے معلوم ہوتاہے کہ یہ اس ذات واجب الوجود کی خلقت و صنعت کا کرشمہ ہے جو علیم و حکیم ہے اور دانا و بنیا ہے بہر کیف وجود انسا نی میں بدن کی رگ رگ خون کا قطرہ قطرہ جسم کابال بال اور ہڈیوں پٹھوں کا ریزہ ریزہ اپنے خالق مدبر کے وجود کا 

مزید وضاحت

انسا ن جب آسمان و زمین کے وجود اوران کے اندر نت نئے رونما ہونے والے عجائب و غرائب کا مطالعہ کر تا ہے توا سے یقین ہوتاہے کہ جو چیز خوادث کا محل و مقام ہے وہ خود بھی حاوث ہے پس ماننا پڑتا ہے کہ آسمان و زمین کا وجود ازلی نہیں بلکہ ایک وقت میں یہ نہ تھے اور پھر ہو گئے لہذا ضروری ہے کہ ان کو کسی نے پیدا کیا ہے پس ان کا حدوث و وجود ان کے خالق کے وجود کی دلیل ہے جو قادر ہے اوران کے وجود میں عجیب و غریب مصالح اور ان کا نظم و نسق خالق کے علم و حکمت کے ناقابل تردید دلائل ہیں نیز ان کا حدوث خالق کے قدم کاپتہ دیتاہے کیونکہ اگروہ بھی حادث ہوتواس کے لئے ایک اور موجد کی ضرورت ہوگی پس انتہا ایک ایسے موجد تک ضروری ہو گی جو تمام اشیا کا مبداءالمبادی ہواو ر وہی اللہ ہے اسی طرح شب و روز کا اختلاف اور ان کا ایک مقدار معین کے ماتحت تعاقب پھر ملحاظ موسم ایک خاص انداز کے ماتحت ایک کا گھٹنا اور دوسرے کا بڑھنا اس طرح کہ گھٹنے والے کی کمی بڑھنے والے کی زیادتی کے برابر ہے یہ سب صانع قادر حکیم کے وجود کی محکم و متقن برھانیں ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں