انقلابات زمانہ اور تطورات کونیہ سے محفوظ فطرت انسانیہ کے تقاضوں میں سے یہ ایک بدیہی اورناقابل انکار حقیقت ہے کہ کہ زندہ دل اور حساس انسان بچپنے کی فارغ البالی سادہ خیالی اورپراز عیش و آرام زندگی کے بعد جب ابتدائی حیوانی طور سے انسانی عرفانی دورکی طر ف مستقل ہوتا ہے تو اس کی غور و فکر کا پہلا قدم طبعی نیند سے آنکھ کھلنے کے بعد میدان علم و ادراک میں اس کی پہلی حرکت اورجہالت کی موت کے بعد اس تازہ زندگی کی پہلی روح جو اس میں نفوذ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مادی دنیا کے نت نئے تغیرات و تطورات کے واقعی ا مباب و علل کیاہیں اور غیر مانوس انداز سے بعض حوادث کا رونما ہونا ان علل و اسباب کی جستجو میں پڑنے کی تحریک کو اور زیادہ تیز کر دیتا ہے جیسے کسوف خسوف زلزلے اورومدار ستار ے وغیرہ اور فطرت کاتقاضا بھی یہی ہے کہ درطہ عدم سے منصہ شہود پر ظاہر ہونے والی ہر شے کے سبب کی طرف ذہن متوجہ ہو یہ توجہ دو طر ح سے ہوتی ہے ایک وہ جو آنی ہو یعنی ذہن متوجہ ہونے کے بعد پھر غفلت کی نیند سو جائے یعنی یہ توجہ بجلی کی چمک کیطرح ہے جو ظاہر ہو کر ختم ہو گئی اورعامتہ الناس میں یہ توجہ اسی انداز سے ہی ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بڑھاپے کے دور تک انسا ن اسی بچپن کی سی غفلت کے بحر میں غرقاب رہے اورمادیات کے بارہا کے تجربہ سےوہ صرف فانی اور کثیف بدن کی اصلاح و بہبود کا کفیل رہے یعنی خوردونوش سیرو تفریح اوربہیمانہ زندگی کے لئے ذرائع عیش و عشرت میں فراوانی کی تحصیل میں مصروفیت ہی اس کی زندگی کامآل ہوتاہے دوسری وہ جوآنی نہ ہو بلکہ مستمرد پائیدار ہو او ر اس توجہ کے حامل وہ بلند بخت لوگ ہوتے ہیں جوشرف انسانی اور اس کے عرش رفعت کے بلند ترین کنگرہ تک پہنچنے کی سعادت حاصل کرنے کے خواہش رکھتے ہوں پس وہ دائمی توجہ کائنات کی ہر چیز کےاسباب کی تلاش میں ہر دم فکر کو متحرک رکھتی ہے ایک سبب کے بعد دوسرے کی تلاش پھر تیسرے کی اوریہ سلسلہ ختم نہیں ہوتابلکہ جب تک روح انسانی قفس عنصری میں بند اور ہیکل مادہ کی قیود میں محبوس ہے فکر و نظر کی تگ و دو اور اس کی انتھک کوشش حقیقت کے تعاقب میں لگا تار مصروف کار رہتی ہے او ر اس میں شک و شبہ نہیں کہ طبیعت سلیمہ فطرت صحیحہ اور عقل مستقیم رکھنے والوں کے افکار و انظار جو کج روی کے عیب سے پاک و منزہ ہوں طبیعت کی تحریک اور فطرت کی قیادت میں اسباب و ذرائع کےانداز سے اپنی ذاتی قابلیت و استعداد کی بدولت علم و ادراک کی بلندیوں او رمعرفت کی چوٹیوں کو تاجدار امکان سر کرلینے میں کامیاب ہو کر ایسے انجام تک پہنچ جاتے ہیں جہاں سے ممکنات نے کتم عدم س ےفضا ءوجود میں قدم رکھااور جہاں اسباب کا سلسلہ ختم ہوا جو ہر شیئی کا مبدا ءہے اور اس کا کوئی مبداءنہیں یہاں تک پہنچ کر ہم اپنے اصلی مقصد کی طرف رجوع کرتے ہین جس کےلئے اس کتاب کی تدوین معرض وجود میں آئی اورو ہ ہے اصو ل اسلام کا اثبات قابل قبول انداز سے جس کو ہر فہم مستقیم قبول کر سکے اور یہی وہ اصول ہیں جن کو اپنانے پر نجات اخروی کا داومدار ہے کتاب کا نام لمعتہ الانوار فی عقائد الابرار تجویز کیاہے خداوند کریم ہمیں سمجھانے اورقارئین کو صحیح طورپر سمجھنے کی توفیق مرحمت فرمائے اورخداوند قدوس سے پر امید ہوں کہ اس کو بارگاہ قبولیت میں جگہ عطا فرمائے اور اس کو میرے اورمیرے آبا ءمومنین کے باقیات صالحات میں سے قرار دے کر اس کو ہمارے لئے روضات الجنات میں پہنچنے کا وسیلہ قرار دے وما توفیقی الاباللہ العلی العظیم ط
التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔
یہاں کلک کریں
علامہ حسین بخش جاڑا کی تصانیف ، تفسیر انوار النجف، قرآن مجید کی بہترین تفسیر ، لمعۃ الانوار، اس میں شیعہ عقائد ، اصحاب الیمین، شہداء کربلا کے بارے ، مجالس کا مجموعہ، مذہب شیعہ کی حقانیت پر مدلل کتاب ، احباب رسول، کتاب اصحاب رسول کا جواب ، اسلامی سیاست، اصول دین کی تشریح پر مفصل بحث ، امامت و ملوکیت ، خلافت و ملوکیت کا جواب ، معیار شرافت، اخلاقیات ، انوار شرافت، خواتین کے مسائل، انوار شرعیہ، مسائل فقہیہ ، اتحاد بین المسلمین پر مبنی مناظرہ ، نماز امامیہ، شیعہ نما زکا طریقہ اور ضروری مسائل