التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

پیری و مریدی کی وبا ءعام اور اس کا انجام

خدا کا دین جو انسانی شرافت کاایک بہترین دستورالعمل اور تحصیل کمال کا عمدہ ترین طریق کار تھا اور خدا ئے قدوس نے جو اپنی طرف سے اس کے مبلغ و محافظ بھیجے و ہ معصوم تھے اور ان کا مقصد صرف لوگوں کی بھلائی تھا لیکن خود غرض شکم پرست اور حرص و ہوس کے بندے جب شیطانی تحریک سے اس کو کاروباری کامیاب طریقہ سمجھ کرآگے بڑھے تو دیکھا کہ لوگ دین سے وابستگی کی جو غرض رکھتے ہیں وہ ہے بہشت کا حصول اور دوزخ کے عذاب سے نجات اور مقصد تب حاصل ہو سکتا ہے کہ خوشنودی خدا حاصل کی جائے پس انہوں نے اپنے آپ کو خوشنودی خدا کا ذمہ دار اورجنت کا ٹھیکیدار ظاہر کرنے کا پروگرام مرتب کر لیا اور پیری و مرشدی اسی جذبہ کا نام ہے اور  ان کا یہ جذبہ تشتہ تکمیل رہتا اگر یہ اپنے حق نما شیطانی جال پر دین و ایمان کا لیبل نہ لگا تے اور یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکتا اگر وہ اپنی دوکانداری اور کاروباری حیثیت پر خلوص و تقدس کا غلاف نہ چڑھاتے پس دوکان چمکی اور خوب چمکی انہوں نے سستے داموں جنت کی  نیلامی کا اعلان کر دیا اور زمانے کے انقلابات کے ساتھ ساتھ گرگٹ کی طرح انہوں نے بھی کئی رنگ بدلے اور اپنی دوکانوں کو رفتار زمانہ کے مطابق جاذ ب نظر لیبلوں سے آراستہ کیا اور مرید طبقہ میں سے ہوشیار لوگوں نے مخصوص منافی کی خاطر اپنے اپنے انداز میں اشتہار اور اعلان کا بہت بڑا کردار ادا کیا اور آخر کار مسلمہ طور پر آخرت توبجائے خود دنیا میں بھی وہ خدا ئی ٹھیکہ دار بن بیٹھے اگر کسی کو اولاد کی ضرورت ہے تو خدا سے دعا مانگنے کی کیا ضرورت ہے پیر کے دروازہ پر چلو اگر رزق میں وسعت کی ضرورت ہوتی ہے تو پیر کے دروازہ کا رخ اور بیماریوں کا دفعیہ مقدمہ میں فتح و کامرانی دشمن کی شکست بلکہ جملہ تکوینی امور میں پیر کو مختار کل سمجھا جانے لگا ہواوں کو چلانے والا بارشوں کو برسانے والا اور دریاوں کا رخ موڑنے والا گویا تقدیر و تدبیر خداوندی کا مالک اسی کوقرار دیا گیا ہمارے ملک میں یہ مرض اس قدر زوروں پر ہے کہ خدا کی پناہ پیرو مرشد کا سجدہ کرنا توایسا معمول ہے جسے واجب سے بھی زیادہ درجہ دیا جاتا ہے فرعونی مسند کو سجانے والا نمرودی آگ الا پنے والا اور   دقیانوسی سطح پر کبرو غرور کے نشے میں چور روائے ربوبیت رازق و مختار کل ہو وہ جس کو نگاہ کرم سے دیکھ لے وہ اپنے اندر پھولا نہیں سماتا اور جس پر نگاہ غضب کرے وہ موت سے  پہلے مرنے لگ جاتا ہے اگر چہ زبان سے کہنے  کی جرات ان کو نہیں لیکن عمل سے انا ربکم الاعلی کا ہی اظہارہوتا ہے ۔

بھیڑ چا ل لوگوں کا  گروہ  تو ان کے بے ہودہ اطوار پر بھی سرد ھننے لگتا ہے ان کو ان کی ہرادا بھائی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ خوش تو دنیا و آخرت میں کامیابی اور اگر یہ ناخوش تو ہر سوناکامی ہے ایسی صورت میں ان کے دل سیاہ ہو جاتے ہیں اور ناصح کی نصحیت ذرہ بھر اثر نہیں کرتی اس شرک جلی کے بعد بھی وہ مسلمان کہلانے میں ذرہ بھر شرم محسوس نہیں کرتے پیر لوگ اپنے مریدوں میں سے کام کے آدمیوں کو ٹٹول لیتے ہیں اور ان کو ہر قیمت پر اپنا  گرویدہ بنا نے میں کوئی کسر باقی نہیں اٹھا رکھتے  کیونکہ ایسوں کا پھنسا رہنا عام بھیڑوں کے پھنسانے کا موجب ہوتاہے اورایسوں کا منحرف ہونا دوکان کے پھیکا پڑنے کا پیش خیمہ ہوتاہے لہذا ایسے لوگوں پر وہ قسم کی نوازش کرنے سے گریز نہیں کرتے پیر کسی کواولاد کسی کو مال اور کسی کو فتح و نصرت کی بشارت غرضیکہ جو بھی دربار  میں آیا  اس کو کچھ نہ کچھ اپنے زعم باطل سے دے ہی دیا کیونکہ وہ  یہ باور کراتا ہے کہ خدا ئی اختیارات میرے قبضہ میں ہیں ممکن ہے فرعون کی طرح یہ لوگ اکیلے ہو کر بارگاہ ربوبیت میں گریہ کرتے ہوں اور  دنیا وی اقتدار کی بقاءکے لئے اس سے مہلت طلب کرتےہوں ورنہ ظاہری اعتبار سے ہم نے ان کو انتہائی متکبر اور ناخدا  ترس اور حرص و ہوس کا بندہ ہی پایا ہے یہ لوگ اپنے مسلک کو ضروری قرار دیتے ہیں اور عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ جس کا دنیا میں پیر نہ ہو گا و ہ جنت میں قطعا  جا سکتا ہی نہیں جؤحتاکہ بعض ان پڑھ شیعہ لوگ جو اس  قسم کے سر پرست طبقہ کی اکثریت میں بو دوباش رکھتے ہیں وہ بیچارے  بھی اس عقیدہ سے کافی متاثر ہوتے ہیں اور ان کو سمجھانے میں کافی دقت محسوس ہوتی ہے  یہ لوگ اپنے مسلک کے اثبات میں قرآن مجید کی بعض آیات کوبھی توڑ مروڑ کر پیش کرتےہیں بہر کیف مجھے اس بار ے میں طول کی ضرورت نہیں خدا کا دین آسان ہے اور توحید کےسوا کوئی کسی کو نہ بچہ دے سکتا ہے نہ مشکلیں دور  کر سکتا ہے نہ مصائب کور فع کر سکتا ہے اور نہ کسی تکوینی امر میں انقلاب پیدا کر سکتا ہے خواہ وہ پیرو  مرشد یا ولی کہلاتا پھر ے حتاکہ وہ لوگ جو خدا کی جانب سے عہدہ نبوت پر فائز تھے یا ولایت کاملہ کے حامل تھے انہوں نے بھی اس قسم کا کوئی دعوی نہیں کیا البتہ ان کے وسیلہ سے دعا مانگی جائے  تو خدا قبول کر تا ہے پس ان کی نصرت و امدا د  صرف وسیلہ کی حد تک ہے البتہ دین و شریعت کے معاملہ میں وہ ہادی کل اور رہبر مطلق ہیں ان کی رضا اللہ کی رضا ہے اور ان کی ناراضگی اللہ کی ناراضگی ہے خداوند کریم ایسے ظالمو کی اس طرح تصویر کشی کرتاہے کہ بروز قیامت و ہ کس طرح ذلیل ہوں گے

اذ تبراءالذین اتبعو امن الذین اتبعو ا   وراوالعذاب وتقطعت بھم الاسباب وقال الذین اتبعوا لو ان لنا کرۃ فتبرءمنھم کما تبراءوامنا کذالک یریھم اللہ اعمالھم حسرات علیھم وما ھم بخار جین من النار ۔ جب بیزار ہوں گے وہ جن کی پیروی کی گئی پیر ان سے جنہوں نے پیروی کی مرید اور عذاب کو دیکھ لیں گے اور ان کے باہمی تعلقات ٹوٹ  جائیں گے تو کہیں گے پیروی کرنے والے مرید کاش ہمیں واپس پلٹنا ہوتا  تو ان پیروں سے ہم بھی بیزار ہوتے ہیں جس طرح وہ پیر ہم سے بیزار ہوئے ہیں جس طرح وہ پیر ہم سے بیزار ہوئے ہیں اسی طرح دکھا ئے گا خدا ان کوا پنے اعمال باعث  حسرت اور  وہ دوزخ سے نہ نکل سکیں گے

وہاں مرید کہیں گے کہ انہوں نے  ہمیں گمراہ کیا تھا اور پیر کہیں گے نہیں بلکہ تم خود گمراہ تھے  پس  دونو  ایک دوسرے  پر لعنت  و تبرا کریں گے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہو گا  بلکہ دونو عذاب  میں برابر کے شریک ہوں گے

سورہ اعراف  رکوع 11 میں ارشاد قدرت ہے

کلما دخلت امتہ لعنت اختھا حتی اذا ادا رکوا فیھا قالت  اخرھم لاولھم ربنا ھولاءاضلو نا فاتھم  عذابا ضعفا من النار قال لکل ضعف ولکن لا تعلمون

دوزخ میں جب ایک جماعت پہنچے گی تو دوسری جماعت پر لعنت کرے گی حتاکہ جب اس میں سب کے سب پہنچ جائیں گے تو پہلی جماعت کے متعلق  کہے گی  اے پروردگار ان لوگوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا لہذا ان کو دگنا عذاب دے دوزخ کا تو وہ فرمائیگا ہرا یک کیلئے عذاب دگنا ہے لیکن تم کو خبر نہیں ہے

جس طرح دوسرے مسلمانوں  میں دین کی ٹھیکہ داری اور جنت کی ارزانی کے لئے پیرو مرشد طبقہ کمربستہ ہوا ہے ہمارے ہاں وہی ٹھیکہ اہل منبر طبقہ میں سے بعض نااہل خطیبوں نے لے لیا ہے ان کے ہاں تو البتہ خدا کی اس قدر پا س تھی کہ مساجد آ باد اورقرآن کی رونق باقی  تھی ان لوگوں نے تو اس قدر ہمت  دکھا ئی کہ مسجد و قرآن نمازیوں اور قاریوں کے لئے ترسنے لگ گئے وہاں کچھ ظاہر ی طور پر اسلامی شعائر کالحاظ تھا یہاں تو معاملہ صاف ہے حالانکہ فرمان معصوم میں عالم  کی تعریف  یہ کی گئی ہے کہ صحیح  عالم وہ ہے جو لوگوں کو جنت کی پیش کش کرکے ان کو خوف خدا سے آزاد کرتے ہوئے گناہوں سے جری نہ کر دے  اور دوزخ سے ڈرا ڈرا کر ان کو رحمت  خدا سے مایوس نہ کر دے اتنا فرق ضرور ہے کہ وہاں پیروں و مرشد وں نے خود خدا ئی کا ٹھیکہ لے لیا لیکن یہاں ان لوگوں نے محمد و آل  محمد  علہیم السلام پر ظلم  کرتے ہوئے  ہر بات  ان کی طرف  منسوب  کر دی کسی نے اپنی طرف سے اعلان کیا کہ  وہ امور تکوینیہ کے مالک ہیں اور کسی نے تجاوز کی حدیں توڑتے ہوئے  او ر عدل و انصاف  کا خون کرتے ہوئے  یہ دعوی حضرت امیر المومنین  علیہ السلام کی طرف منسوب کر دیا کہ وہ خود امور الہیہ کی انجام دہی  کے دعویدار  تھے حالانکہ یہ ان کی ذات پر بہتان عظیم اور ظلم صریح ہے ان کے اپنے  کلمات  جن میں سے مشتے نمونہ  از خرد ار ہم نے نقل کئے ہیں جو  توحید کی صٖفات میں بلاغت  و فصاحت  کے دریا بہاتے ہوئے  اپنی بندگی کے اعتراف کواپنے دامن میں لئے ہوئے ہیں  خدا کی قسم ان کی مناجات  کے کلمات  سن کر پتھر سے پتھر  دل بھی پانی ہو جاتا ہے اور توحید کے متعلق جتنا  مواد ان کے کلمات  میں مل سکتا ہے تمام عالم کے موحدین مل کر بھی ان کا عشر عشر تک ادا نہیں کر سکتے بہر کیف آئمہ طاہرین  کا دامن ایسی آلائشوں سے پاک  ہے جو  نااہل لوگ  ان کی طرف منسوب کرتے ہیں محمد  وآل محمد کا دستور تھا کہ اپنی تمام حاجات  اسی ذات سے ہی  طلب کرتے تھے کبھی انہوں نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم سے حاجات طلب کیا کر دیا ہم تم  کو اولاد دیتے ہیں یاہم بیماروں کو شفا دیتے ہیں حاشا د کلابلکہ  ان کی تعلیم یہی ہے کہ خدا   سے مانگو اور ہمیں بطور وسیلہ و واسطہ کے پیش کرو ہماری وجہ سے تمہاری دعائیں قبول ہوں گی اور اسی لئے ضروری ہے کہ انسان دعا سے قبل و بعد محمد وآل محمد پر درود بھیجے کیونکہ یہ طریقہ استجابت دعا کے زیادہ قریب ہے

ایک تبصرہ شائع کریں