اگر واجب الوجود ایک سے زیادہ مثلا دو یاتین ہوں تو وجوب کی صنعت میں دونو شریک ہوں گے پس ایک دوسرے سے امتیاز کے لئے ہر ایک میں جدا گانہ صنعت کا وجود ضروری ہےپس ہر واجب دو صفتوں کا مرکب بن جائے گا ایک وجود اوردوسری و ہ صفت جس کی بدولت اسے امتیاز نصیب ہوا اور واجب الوجود کا مرکب ہونا باطل ہے اولا اس لئے کہ مرکب کے لئے فاعل ضروری ہے جس نے ترکیب دی ہو پس یہ حادث ہوں گے اوروہ قدیم ہو گا جس نے ان کو ترکیب دی پھر اس کے متعلق سوال ہو گاکہ ایک ہے یا متعدد اسی طرح آگے بڑھتے ہوئے یا تو سلسلہ لا متناہی چلے گا جو محال ہے اور یا ماننا پڑے گا کہ فاعل ایک ہے جو واجب الوجود ہے ثانیا اس لئے کہ مرکب کو احتیاج لازم ہےاورجو محتاج ہو وہ واجب نہیں ہو سکتا او ثالثا اس لئے کہ مرکب کے لئے حدوث ضروری ہےا ور حادث واجب نہیں ہو سکتا پس ماننا پڑے گا کہ واجب والوجود صر ف ایک ہی ہے اس دلیل کی ادائیگی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اگر واجب دو ہوں تو دونو قدیم یا ایک قدیم اوردوسرا حادث ہوگا اور چونکہ حادث تو خدا ہو نہیں سکتا پس خدا وہی ہے جو قدیم ہو اور دونو کے قدیم ہونے کی صورت میں دونوں کے درمیان ایک حد فاصل ہو گی وہ بھی قدیم ہو گی پس ود کی بجائے تین قدیم بن جائیں گے پھر ان تینوں کے درمیان دو حدیں جو ان دونو کے درمیان حائل ہوں ماننی پڑیں گی پس تین کی بجائے پانچ قدیم ماننے پڑیں گے اوریہ سلسلہ غیر متناہی چلا جائے گا پس ماننا پڑتا ہے کہ خدا واجب الوجودجو تمام صفات کمال کاجامع ہے وہ صرف ایک ہے اور تمام عالم اکو ان کی انتہا اسی کی ذات تک ہے اور وہی سب کا مبدا ءاول اورموجد قادر ہے او ر وہی اس ساری کائنات کےنظام اتم و اکمل کا مدبر و ناظم ہے اور اسی ایک کی طرف تمام کی باز گشت ہے اللہ لا اللہ الا ھو الحی القیوم پس افہام و تفہیم اورایمان و ایقان کے لئے اتنا بیان ہی کافی و دانی ہے اس سے زیادہ طول صرف ملول کا باعث ہی ہو گا
مزید وضاحت
جب یہ ثابت ہو گیا کہ پورے عالم کی تخلیق و تدبیر میں خدا کا کو ئی شریک و
سہیم نہیں ہے تو یہ جان اپنا لینا بھی ضرور ی ہے کہ وہ تمام امور تکو ینیہ جن کے
متعلق خداوند کریم نے متعدد مقامات پر شرک کرنےوالوں کو چیلنج کیا ہے ان کی انجام
دہی میں کسی کو خدا کا شریک نہیں قرار دیا جاسکتا نہ بالذات اور بالعرض شریک
بالذات کی نفی تو دلیل توحید میں کی جا
چکی ہے کہ ایجاد عالم اور اس کے
نظام اتم و اکمل میں وہ یکاد تنہا ہے اور شریک بالعرض کا یہ مطلب ہے کہ اولہ توحید
سے خدا کی وحدانیت ثابت کرنے کے بعد یہ کہنا کہ خدا نے کسی کو اپنا نائب بنا کر
امور تکونیہ انجام دئیے ہیں یہ عقیدہ بھی شرک ہے اور قرآنی آیات صریحی طور پر اس
کی نفی کر رہی ہیں لہذا یہ کہنا کہ محمدو آل محمد نے خدا داد اختیار کی بدولت
آسمان و زمین و جملہ کائنات کو خلق فرمایا
یعنی خدا نے ان کو بنایا اور انہوں نے سب کائنات بنائی کفر اور شرک ہے بہر
کیف عقیدہ قرآنی یہ ہے کہ خلق رزق موت
حیات تدبیر امور تصویر فی فی الارحام ہواوں کا چلانا بارش کا برسانا وغیرہ جس قدر
امور تکونیہ ہیں ان میں اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے اور قرآن مجید میں خداوند کریم
نے ان کا متعدد مقامات پر صریحی تذکرہ
فرمایا ہے اللہ الذی خلقکم ثم رزقکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ھل من شرکائکم من یفعل من
ذالکم من شئیی سبحانہ وتعالی عما یشرکون پ 21 سورہ روم ع 7 اللہ ہی ذات ہے جس نے
تم کو پیدا کیا پھر رزق دیا پھر تم کو مارے گا پھر زندہ کرے گا پھر فرمایا کیا
تمہارے شریکوں میں سےکوئی ہے جو یہ کام کر دکھائے اوراس کے بعد ایسا عقیدہ
رکھنےوالوں کو مشرک کہہ دیا چنانچہ فرمایا وہ لوگ جو اللہ کے علاوہ یہ صفات کسی
اور میں ثابت کرتے ہیں وہ مشرک ہیں اور اللہ اس سے اجل و ارفع ہے جو وہ شرک کرتے
ہیں نیز فرماتا ہے ثم استوی علی العرش یدبر الامر الآیتہ سورہ یونس آیت نمبر 2
پھروہ عرش پر متمکن ہے اورنظام کی تدبیر کرتاہے نیز فرماتا ہے ھوالذی یصورکم فی
الارحام لآیتہ سورہ آل عمران وہ وہی ہے جس سے شکم مادر میں تمہاری تصویر کشی کی
اسی طرح تمام وہ امور جو خلقت عالم اوراس کی تدبیر سے متعلق ہیں چنانچہ فرماتا ہے
الالہ الخلق والامرالآیتہ کہ مخلوق کا پید ا کرنا اور اس کے نظام و تدبیر کا معاملہ
اسی کی ذات سے ہی مختص ہے تو قرآن کےان صریحی فرامین سے روگردانی کرکے عقیدہ کی
بنیا د ایسی روایات پر رکھنا جو نہ سند کےلحاظ سے درست ہوں نہ نقل کے اعتبار سے
قابل اعتماد ہوں اور نہ مضمون و معنی کے لحاظ سے قابل تسلیم ہوں انتہائی ظلم اور
ناخدا ترسی ہے نیز یہ امورجن کے متعلق ہمارے عوام کو ناخواندہ یانیم خواندہ اہل
منبر نےدھوکے میں ڈالا ہو اہے ان کے متعلق مشرکین مکہ کو بھی شک نہ تھا چنانچہ
قرآن مجید میں بطور سوال و جواب حکایتہ ان باتوں کا تذکرہ موجود ہے کہ اہل مکہ کو
ان کے متعلق خدا کی الوہییت کا ا عتراف ہے بہر کیف بے راہ روی سے بچنے کا طریقہ یہ
ہے کہ قرآن مجید کو آخری فیصل بنایا جائے اور اسی پر ہی عقید ہ کی بنیاد
کواستوار کیا جائے