اس سے بڑھ کر مصیبت عظمی اور کیا ہوگی کہ موسم باراں میں مادر گیتی کے شکم سے پیدا ہونے والے بے شمار حشرات الارض کیطرح وادی علم کی خودرو پیدوار علمائے حقہ سے اصول وعقائد مذہب کے بارے میں دست گریباں ہیں اور طور زمانہ اور دور دہر کے تقاضے ہمیں بعض ایسے احمقوں کے ساتھ الھجنے پر مجبور کرتے ہیں ۔جن کے ہاں حقائق کا بازار نرم اور اوہام کا بازار گرم ہے اور وہ حق کی مضبوط چٹانوں اور علم معرفت کے آہنی کہ قلعوں کے ساتھ ٹکرانے کے لئے صڑف انکار ہی انکار کو پیش کرنے کی جرات کرسکتے ہیں ایسے علمی نسل کے مادر ذات یتمیوں کی حالت زار بے شک قابل رحم ہے اور بلا مبالغہ ہم نے بہت سوں کو دیکھا ہے جو نادانستہ طور پر تحیصل مبادی کے بغیر علوم فنون کے میدان میں آگے بڑھے اور انجام کار اپنی ذہنی اختراعات اور غیر مذہب افکار کے تخیلاتی پنجوں سے علم کے لباس کو کو تار تار کر نےمیں مشغول ہوگئےانہوں نے ماہرین علم پر ناروحملے کرنا اپنا شیواہ بنا لیا اور اپنی جہالت اور کج بحشی کے تیز ناخنوں سے وقار علم کو ذخمی کرنا اپنا محبوب مشغلہ سمجھ لیا۔اور لوگوں میں یہ وباء عام ہے اور ایسی مصیبت ہے جس کی کوئی حد نہیں کہ جو شخص شئے کو کسی حد تک جانتا ہے اس سے زیادہ کا دعواہ کرتاہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ معمولی سے معمولی فرعی مسئلہ کو جاننے کی بمشکل صلاحیت رکھتے ہیں ۔وہ بڑے مسائل کلامیہ و اعتقاد میں خواہ مخواہ اپنی ٹانگ پھنسانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں اور تعجب ہے ان عقل آندھوں پر جو کہیں ہر معمولی سی معمولی فن سیکھنے کا محتاج ہے لیکن اصول عقائد کے کے سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں بس جس کے ذہن میں جو کچھ سما جائے وہی درست ہے اور اصول میں تقلید کی کی نفی کو اس کی سند میں پیش کرتے ہیں کاش ایسے لوگ عقائد کی عظمت کو سمجھیں کیونکہ علم عقائد کی ہر شخص پر وحی نہیں ہوتی ۔فطرت صرف تحریک کرتی ہے اور عقل کے قدموں پر چل کر آگے بڑھنا انسان کی اپنی ہمت ہے اور جب تک عقل کی صحیح رہنمائی قرآن وحدیث کے پائیدار آصولوں پر نہ ہو۔اس کے قدم قد م پرلڑکھڑانے اور ڈگمگانے کاخطرہ ہے اور عام گرے ہوئے انسانوں کا دستور ہے کہ جب کسی فن کی جہالت کا اپنے دامن سے داغ دھونا چاہیں تو اس فن کیعظمت و ضرورت کا سرے سے انکار کردیتے ہیں ہم سے مشکیکن کے کلمات کو غورو فکر اور تصفح و تبتیع کی نگاہ سے دیکھا تو ان کی دامن میں سوائے وہم خیال کے اور کچھ نہیں ہے اور وہ یقین کا مقابلہ احتمال سے پانی کا سراب سے اور سورج کا ہباب سے کرنا جانتے ہیں اور بس ۔زمانہ کی کجروی کے ناخوشگوار اور بدترین نتائج میں سے ہے کہ علماء ایسی بے سرد پا باتوں میں اُلجھے رہیں اور کوئی دوسراٹھوس قدم نہ اٹھاسکیں ۔بہر کیف گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔اپنی ہمت کے مطابق عقائد حقہ کی وضاحت اور ان سے شکوک و شبہات کے ند نما داغوں کو دھونا ہمارا فرض ہے لہذا ہمیں مہر خاموشی کو توڑ کر میدان حمل میں قدم بڑھانا چاہیئَے ۔اولہ ساطعہ اور براہین قاطعہ ہی جو شرف ذاتی اور کمال ملکوتی کی طرف لے جانے والی معرفت الہیہ میں فکرو نظر کے نتائج ہیں ۔بشرطیکہ ان کی بنا صحیح اصولوں اور مضبوط بنیادوں پر ہشیریں چشمے اور پاکیزہ گھاٹ ان کا ماخذ ہوں ۔ ان کی بدولت ہم نے حقیقت کے چہرہ سے نقاب الٹنا ہے اور یہ ہمارا ذاتی و ظیفہ ہے ۔
وہ نیک اثرات جو انسان
اپنے پیچھے چھوڑ کر آتا ہے وہ بہت بہتر اور نہایت خوشگوار نتائج کی شکل میں کئی
گنا زیادہ ہو کر واپس اس کی طرف پلٹے ہیں ۔جب تک وہ آثار باقی رہیں گے اور آنے
والی نسلیں ان سے استعفادہ کرتی رہیں گی خواہ وُہ آثار خیر کسی نوعیت کے ہوں ۔اس
کو اسی نوعیت کا صلہ ضرور ملے گا ۔کیونکہ ہر عمل کی جزاع اسی جنس سے ہوتی ہے اور
احسان کا بدلہ احسان ہونا معلوم ومسلم ہے ۔نماز روزہ و تسبیح وغیرہ جس قدر عبادات
ہیں اپنے اپنے مقام پر ان کی کو فضیلت حاصل ہے لیکن ان کی حد معین اور مقدار معلوم
ہےاور انسان کی موت سے یہ خیر کا سلسلہ ختم ہو جاتاہے ہے کیونکہ ان کے آثار کوقوم
وملت کے استعفادہ کے لئے بقاء و دوام حاصل نہیں ۔لہذا قوم ونسل کے استعفادہ کے لئے
ایسی خدمت کرنا ضروری ہے جس آثار و دائمی و پائیدار ہوں جس کی بدولت خفتہ قوم کے
خفتہ بخت بیدار ہوں ۔پس عقائد حقہ کی وضاحت و حفاظت اور اصول مذہب کی صراحت و
صیانیت ہی بہترین خدمت ہے اور اس بناء پر عقیدہ توحید کے متعلق شکوک و شبہات کا
ازالہ ضرروری ہے ۔