پہلے یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ تفویض کے عقیدہ کی تین صورتیں ہیں
1. خدا
وند کریم نے حضرت محمد مصطفی اور آئمہ طاہرین علہیم السلا م کو خلق فرماتا اور
پھر ان کو باقی مخلوق کے پید ا کرنے رزق دینے اور ان کی موت و حیات کا کلی اختیار
دے دیا پس یہی سب کام کرتےہیں اوراللہ کا ان افعال سے کوئی واسطہ نہیں ہے
2. خدا
وند کریم نے محمدوآل محمد علہیم السلام کو پیدا کرنے کے بعد ان کو باقی مخلوق کے
خلق و رزق کا جزوی اختیار دیاکہ کسی کو وہ خود پیدا کرتاہے اور کسی کو یہ پیدا کر
دیتے ہیں کہیں وہ رزق دے دیتا ہے اور کہیں یہ رزق دیتے ہیں نہ ان کے کام کو وہ روک سکتا ہے اورنہ اس
کے کام کو یہ روک سکتے ہیں وہ بھی جو چاہتا ہے کرتا ہے اور یہ بھی جو چاہتے ہیں
کرتے ہیں
3. خداوند
کریم کا محمد وا ٓل محمد کو خلق و رزق وغیرہ امور کا اختیار دینے کا مطلب یہ ہے کہ
اس نے ان کے ذمہ ایک ڈیوٹی سپرد فرمائی ہے جس طرح بادلوں بارشوں سبزیوں انگوریوں
ہواوں اور دریاوں وغیر ہ میں ملائکہ کی الگ الگ ڈیوٹی ہے اوریہ چونکہ ملائکہ سے
افضل ہیں لہذا ملائکہ کے سپرد شدہ تمام امور ان کے زیر نگیں ہیں اور ملائکہ ان کے
حکم سے سارے کام سر انجام دیتے ہیں اورچونکہ اللہ نے ہی ان کو یہ عہدہ عطافرمایا
ہے لہذا ان کے کام کو اللہ کی طرف بھی منسوب کیا جا سکتا ہےدرحقیقت کرتے فرشتے ہیں
اورکرواتے یہ ہیں اورجس خدا نے ان کو یہ اختیار دیا ہے وہ خو د فارغ نہیں بلکہ
اصلی اختیار اس کا ہے اگر وہ ان سے اختیار واپس لے لے تو اس کے لئے کوئی ممانعت و
روکاوٹ نہیں وہ ان کا محتاج نہیں بلکہ یہ اس کے محتاج ہیں اور اس کے عابد و شاکر عبد ہیں
پہلی صورت
کفر و شرک ہے اوردلیل توحیدکےبالکل
منافی ہے خداوند کریم کا خلق میں کوئی شریک نہیں اور نہ اس نے کسی کواپنا شریک بنایا ہے
دوسری صورت
یہ بھی شرک محض اورکفر صریح ہے آئمہ طاہرین علہیم السلام خود بھی اس قسم کے
مشرکا نہ عقائد سے بری و بیزار ہیں
تیسری صورت
یہ عقیدہ محمد و آل محمد کے اصلی مقام کو نہ پہچاننے کا نتیجہ ہے اورا ن کا
ملائکہ سے افضل ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ امور تکوینیہ میں سربراہ مملکت الہیہ
ہیں نہ اس پرکوئی حدیث صحیح ناطق ہے اور نہ قرآن مجید کی کوئی آیت اس مطلب کی
تائید کرتی ہے اور اس قسم کا عقیدہ اگرچہ موجب شرک تو قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ
یہ باعث کفر ہے لیکن دلیل قطعی نہ ہونے کیوجہ سے اس کے بے بنیاد ہونے میں کوئی کلام
نہیں