1۔حضرت امام رضا علیہ السلام سے بروایت عیون الاخبار مروی ہے :۔[عربی] :۔ترجمعہ جو شخص یہ کہے کہ خدا خود ہمارے افعال کا فاعل ہے اور پھر ہمیں عذاب بھی دے گا تو وہ جبر کا قائل ہے اور جو یہ گمان کرے کہ تحقیق اللہ نے خلق و رزق کا معاملہ اپنے نمائندوں :محمد وآل محمد : کے سپرد کر دیاہے تو وہ تفویض کا قائل ہے حالانکہ جبر کا قائل کا فر اور تفویض کا قائل مشرک ہے ۔
2۔ حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی مناجات کے چند فقرے ملاحظہ ہوں ۔جو عیون
الاخبار سے نقل کئے جاتے ہیں ۔[عربی ]:۔ترجمعہ ۔اللہ ہم تیرے بندوں کی اولاد ہیں
۔ہم اپنی ذات کے لئے نہ نفع نہ نقصان کے مالک ہیں نہ موت وزندگی ہمارے بس میں ہے
اور نہ ہم مرنے کے بعد اٹھنے کے خود مالک ہیں اے اللہ جو لوگ ہمیں رب سمجھتے ہیں
ہم ان سے بیزار ہیں اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ خلق ورزق کا معاملہ ہمارے سپرد ہے تو
ہم تیری طرف ایسّوں سے بے زار ہیں جس طرح حضرت عیسی ابن مریم علہیم السلام نصاری
سے بے زار تھے ۔الحدیث قرآن مجید میں ارشاد ہے ۔[عربی] الایۃ پ۹ اعراف کہہ دیجئے
کہ میں اپنی ذات کے لئے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں ۔اس بارہ میں احادیث بکثرت
موجود ہیں جن میں غلاۃ اور مفوضہ کی تردید موجود ہے غالی تو وہ لوگ ہیں جوان کی
خدائی کے قائل ہیں چونکہ ایسے عقل کے اندھوں سے بات کرنا بھی فضول ہے اوراہل انصاف
کے لئے دلیل اثبات خُدا اور دلیل توحید کا فی ہیں لیکن تفویض کے قائل لوگ بعض شکوک
و شبہات کی بناء پر اس چکر میں پھنسے ہوئے ہوتے ہیں ۔لہذا ان کی تفہیم شائد نتیجہ
خیز ہو اس لئے بیان مقصد میں طول بھی ہوگیا ہے خدا کرے فائدہ مند ثابت ہو ہماری
تائید مطلب کے لئے مذکورہ طول دو حد یثیں ہی کافی ہیں ۔اگر مزید تسلی کی ضرورت
ہوتو ہم نے کتاب مقدمہ تفسیر انوالنجف کے آخر میں رد تفویض پر جو نوٹ دیا ہے اس کو
غور سے پڑھیں ۔
قرآن مجید سے مزید وضاحت
ہم کلمہ [عربی] جو پڑھتے ہیں جس
کو آدم سے لے کر حضرت خاتم تک سب نبی دھراتے رہتے ہیں یعنی یہ کہ اللہ کے سوا ہم کسی کو الہ نہیں مانتے اور ہرروز کلمہ شہادت
میں [عربی] کا ورد بھی کرتے ہیں تو سوچنے کی بات ہے کہ وہ کیا شیءہے جس میں اللہ
کا کوئی شریک نہیں تو قرآن مجیدکا فیصلہ ہی کیوں نہ معلوم کرلیں کہ کون کون سے کام
ہیں جو اللہ بجالاتا ہے اوران میں اس کا کوئی شریک نہیں ۔