التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

قرآن وآئمہ اہل بیتؑ

تمام مسلمانوں کامسلمہ عقیدہ ہے کہ قرآن  مجید قیامت تک کےلئے ناقابل تنسیخ دستورالعمل ہے اس کے تمام فیصلے آخری اور قطعی ہیں  اب عقل سلیم  خود ہی فیصلہ کرسکتی ہے  کہ جب کوئی بھی دستور بغیر دستورچلا نے والے کے کارآمد اور مفید ثابت نہیں ہوسکتا تویہ کیونکر  ممکن ہوسکتاہے کہ دستور خداوندی  تنہا کافی قرار پائے  ورنہ اگر یہ تنہاہی کافی ہوتا توابتداءکسی  لانے والے کی ضرورت ہی کیاتھی؟  خدا خود کسی طریقہ سے ہر انسان کے پاس اپنا قانونی ضابطہ بھیج دیتا پس انسانوں کو راہ نجات معلوم کرنے کےلئے ایک لاکھ چوبیس  ہزار نبیوں کے لمبے چوڑے انتظام  کی حاجت نہ رہتی لیکن یقین جانیئے کہ معلم  کے بغیر صرف کتاب کا کافی ہوتا فطرت النسانیہ سے بعید  ہے اگر اس طرح باور نہ ہو تو ظاہری نظام حکومت کودیکھ لیجئے جب اکثر قوانین حکومت کا علم ہر ایک کو ہوتاہے  تو نظام کے لئے پولیس ودیگر انتظامی امور کی کیا ضرورت ہے پس صرف قانون ہی کو کافی سمجھ لیناچاہیے  ہر ڈرائیور کو قانون ٹریفک معلوم ہے  لیکن حکومت کو ہر چوک پر سنتری  مقرر کرنے کی کیاضرورت  ہے معلوم ہواکہ صرف قانو کا وجود وعلم امن کا ضامن نہیں اور صرف ضابطہ کاجان لینا  تصادم وایکسیڈنٹ سے بچاء  کا کفیل نہیں ہوسکتا جب تک قانون کی حفاظت کیلئے  مخصوص پاسبان مقرر نہ ہوں اسی طرح خدائی قانون بھی تنہاراہ حق کی تلاش اور اس پرکام کرنے کے طریقے بنانے کےلئے کافی نہیں جب تک کتاب والے کی ہدایات ساتھ  ساتھ نہ ہوں

عقل  کا تقاضا یہی ہے  کہ جو قانون بناکر بھیجنے  اس قانون کا محافظ بھی وہ خود ہی متعینکرے اگر قانون ظاہری حکومتکا ہوگا تو اس کے محافظین  ظاہری حکومت خود متعین کرے گی پبلک کو اسکا ذرابھر اختیار نہیں ہے اور اگر حکومت الٰلہیہ  کا قانون ہو تو اس کا محافظ اسی حکومت کی نامزدگی سے ہوناچاہیے ورنہ انتہائی ناانصافی ہوگی کہ قانون کی کتاب اللہ کی جانب سے ہواور مبلغ امت کی اپنی مرضی  سے ہو اور اگر انتخاب  خداوندی کے سابق طریق کار کاجائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگاکہ انتخاب مبلغین کا سلسلہ صرف اللہ کےہی ہاتھ میں رہا کیاہے ؟

 حضرت طالوت  وجالوت کا قرآنی قصہ صرف الفاظ کی بھرتی نہیں بلکہ امت اسلامیہ  کےلئے دعوت فکر اور درس حقیقت ہے جب ننی وقت نے حضرت طالوت  کینامزدگی کا اعلان فرمایا   قال لھم نبیھم ان اللہ قدبعث لکم طالوت  ملکا    انکو نبی نے فرمایاکہ تحقیق اللہ نے طالوت کو تمہارا حکمران مقرر کیا ہے تو انہوں نے شور وغوغا شروع کردیاکہ اس کے پاس کوئی پیسہ نہیں ہے اور ہمزیادہ حقدار ہیں تو اس نبی نے یہی جواب دیا ان اللہ اصطافاہ  علیکم  وزادہ بسطۃ فی العلم والجسم    ترجمہ   تحقیق اس کو اللہ نے خود ہی چن لیاہے اور اس نے اسکو علم اور طاقت جسمانی تم سے زیادہ عطافرمائی ہے  اس کی تفصیل ہمنے تفسیر انوار النجف  کی تیسری جلد میں کی ہے جو بہترین  معلومات کا ذخیرہ  ہے  یہاں صرف اس قدر کہنا ہے کہ حکومت شرعی کےلئے انتخاب خداوندی کی ضرورت ہے اور نبیکو بھی خدا کےفیصلہ میں دخل دینے کی اجازت نہیں ہواکرتی  بلکہ اللہ صرف نبی کو اطلاع دیتاہے اور نبی اعلان کردیتاہے جیسے کہ طالوت کے واقعہ سے ظاہر ہے اور حکومت الہیہ  کا معیار علم اور طاقت اس مقام پر ظاہر کی گئی ہے

باتفاق امت اسلامیہ جناب رسالتمآبؐ  کی شریعت اور کتاب کی حد قیامت ہے تو کس  قدر تعجب خیز بات ہے کہ سابقہ قابل نسخ شریعتوں  میں نبوت کا سلسلہ  جاری تھا لہذاہر نبی کے بعد جو اللہ کے دین کا محافظ آتاہے  وہ نبی ہوتا تھا جس طرح حضرت  موسٰیؑ  کے بعد انبیاء ہی محافظ تورات رہے  اور وہ معصوم ہوا کرتے تھے تو سید الانبیاء جس طرح خود اشرف الانبیاء ہیں اور انکا دین اشرف الادیان  اسی طرح انکے وصی اشرف الاوصیا ہیں اور انکی کتاب بھی اشرف الکتب  ہے  پس اشرف الادیان کی اشرف الکتب قرآن  کے مبلغ ومحافظ اشرف الانبیاءکے اشرف الاوصیاء ونائبین کو  اللہ کی ہی جانب سے منتخت  ہونا چایئے  اور انہیں  بھی درجہ  رفیعہ عصمت کبری پر فائز ہونا چاہیے  اور چونکہ حدود شریعت تاقیامت ہیں – لہذا  یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہنا ضروری  ہے اور چونکہ حضوؐر خود بنفس نفیس تمام انبیاء سابقین  سے افضل تھے تو ان کے قائم مقام کو بھی تمام  انبیاء سابقین سے افضل واشرف ہونا چائیے  پس یہ بیان اور اس سےسابق  کا بیان آئمہ  اہل بیتؑ کی نصی امامت پر عقلی دلیل کے لحاظ سےکافی ووافی ہے

 نیز اس سے یہ بھی ثابتہواہے کہ امام غیر معصوم نہیں ہوسکتا کیونکہخدااسی کو ہی عہدہ تبلیغ  کےلئے انتخاب فرماتاہے  جو زیور عصمت سے آراستہ ہو جو دلیلیں  عصمت انبیاء  پر دی جاچکی ہیں وہی یہاں پر بھی دی جاسکتی ہیں لہذا اعادہ کی ضرورت نہیں ہے پس علم وعمل  وحکمت ووقار وسخاوت  وشجاعت وغیرہ میں بھی  انکو جملہ افراد امت سے اشرف واکمل ہونا چائیے  اور صاحب اعجاز ہونا بھی انکےلئے لازمی ہے اور ہم دعویٰ سے کہتے  ہیں کہ حضرت علیؑ  سے لے کر حضرت قائم تک آئمہ طاہرین علیہم السلام  صفات فاضلہ میں جملہ امت اسلامیہ  سے اشرف واکمل تھے اور ہر امام کی سیرت وکردار علم وعمل اور شرف وکمال اپنے اپنے دور کے  مسلمانوں کے لئے مشعل راہ اور چواغ ہدایت تھا حتیٰ کہ  متعصب ترین افراد امت کو بھی انکے عیب نکالنے کی ہمت نہ ہوسکی

ایک تبصرہ شائع کریں