التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

جنگ اُحد

 وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ ٱلْمُؤْمِنِينَ مَقَـٰعِدَ لِلْقِتَالِ ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (121) إِذْ هَمَّت طَّآئِفَتَانِ مِنكُمْ أَن تَفْشَلَا وَٱللَّهُ وَلِيُّهُمَا ۗ وَعَلَى ٱللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ ٱلْمُؤْمِنُونَ (122) 

 اورجب صبح  کو آپ گھر سے باہر نکل کرمعین فرمارہے تھے مومنوں کے لئے ٹھکانے لڑائی کے اورخداسننے اورجاننے والا ہے (121) جب ارادہ کیاتم میں سے دو گروہوں نے کہ بزدلی کریں اورخدا ان کاناصر تھا اوراللہ پر ہی مومنوں کو توکل کرنی چاہیے (122)

  رکوع ۴

جنگ اُحد

وَاِذْغَدَوْتَ اس کے نزول میں اختلاف ہے لیکن امام جعفر صادق علیہ السلام یہی مروی ہے کہ یہ جنگ اُحد کے متعلق ہے جیسا کہ تفسیر مجمع البیان میں منقول ہے جنگ اُحد   ۳ ھ؁  ماہ شوال میں پیش آیا واقعہ اس طرح ہے کہ جب قریش مکہ جنگ بدر میں بری طرح شکست خوردہ ہو کر وآپس مکہ میں پہنچے کیونکہ جنگ بدر میں ان کے ستر سر برآور دہ ادمی قتل ہوئے تھے اور ستر قید ہوئے تھے ابو سفیان نے قریش سے کہا کہ عورتوں کو آپنے مقتولین پرر ونے نہ دیا جائے کیونکہ جہاں ایک طرف ہمارے دشمن (محمدؐ) خوش ہوں گے وہاں دوسری طرف رونے اور آنسو بہانے سے غم غلط ہو جائے گا اور دل میں جذبہ انتقام نہ رہے گا پس نبی کنانہ اور دیگر آپنے حلیف قبائل عرب سے کافی فوج اور اسلحہ مہیا کر کے آمادہ جنگ اُحد ہوئے چنانچہ پانچ ہزار کا لشکرلے کر نکلے جن میں تین ہزارسوار اور دو ہزار پیادہ تھے اور عورتوں کو بھی ساتھ لائے تاکہ  آپنے مرودوں کو جوش دلائیں ابو سفیان آپنے ساتھ ہند بنت  عتبہ کو لایا نیز عمرہ بنت علقمہ حارثیہ بھی ان کے ساتھ تھی جب جناب رسالتماب کو اطلاع پہنچی تو آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ مجھے بذریعہ وحی خبر پہنچی ہے کہ قریش ایک لشکر عظیم لے کر مدینہ پر چڑھائی کر رہے ہیں پس آپ نے صحابہ کو جہاد پر آمداہ کیا عبداللہ بن ابی سلول اور اس کے ساتھیوں  نے کہا کہ ہمیں مدمینہ سے باہر نہ جانا چاہیے بلکہ یہیں لڑیں گے کیونکہ یہاں رہتے ہوئے ہمارے کمزور آدمی عورتیں غلام کنیزیں بھی گلیوں کے موڑ میں چھتو پر آپنا بچائو کر کے دشمن سے حسب استطاعت لڑ سکیں گے اور ہمرا تجربہ ہے کہ جب کبھی ہم دشمن سے اس طرح لڑے ہیں تو ہم کامیاب ہوئے ہیں اور جب بھی ہم گھروں کو چھوڑ کر لڑنے کے لئے باہرنکلے ہیں توہم شکست خوردہ ہوئے ہیں پس سعد بن معاز اور قبیلہ اوس کے بعض ادمی اٹھے اور عرض گذار ہوئے  حضور ؐ جب ہم مشرک تھے اور بت پرست تھے اس وقت بھی عرب کا کوئی قبیلہ ہم سے لڑنے کی جرات نہ رکھتا تھا اب جبکہ آپ کا سایہ ہمارے سروں پر ہے کس طرح دشمن ہم پر فتح یابی کی توقع رکھتا ہے ہم بزدلی اور کمزوری کاا ظہار کیوں کریں بلکہ ہم ضرور باہر نکل کر کھلے میدان میں جان توڑ کر لڑیں گے ہم میں سے جو قتل ہو گا شہید ہو گااور جو بچ جائے گا مجاہدوں میں اس کا نام باقی رہے گا پس آپ        ُٓ کو یہ مشورہ پسند آٰ اور آپپنے صحابہ کی جامع تکے ساتھ نکل کھڑے ہوئے اور لڑائی کے واقع پر صحابہ کو تعینات ف۴ر۵مایا  چنانچہ یہ  آیت اسی واقعہ کی طرف اشارہ کر تہی ہے
جناب رسالتماب صحابہ سے مشورہ لینے کے بعد گھر تشریف لے گئے اور زرہ پہن کر باہر آئے اور فرمایا کسی نبی کیلئے درست نہیں کہ زرہ پہن کر لڑئی کیے بغیر اسے اتار دے پس آپ ساتھ سو مجاہدں کے ہمراہ روانہ ہوئے اور عبداللہ ابن ابی بمع آپنی فوج کے نہ آیا اور بعض روایت میں ہے کہ ایک ہزار کی جماعت کے ساتھ نکلے لیکن جب مدینہ اور اُحد کے درمیان ایک مقام پر پہنچے تو عبداللہ بن ابی وآپس  پلٹ گیا اور اس کے ساتھ ایک تہیائی فوج بھی وآپس ہو گئی مسلمانوں  کے دو گروہ بنو سلمہ قبیلہ خزرج سے اور بنو حارثہ قبیلہ اوس سے جو انصار میں سے تھے انہوں نے بھی عبداللہ بن ابی کو جماعت سے مل کر وآپس ہو نے کا اردہ کیا لیکن توفیق خداوندی ان کے شامل حال ہوئی پس وہ ثابت قدم رہ گئے چنانچہ  قرآن مجید کی آیت میں انہی کی طرف اشارہ ہے پس جانب رسالتماب و ہ آپنی فوج کے ساتھ کوہ اُحد کے دامن میں قیام  پزیر ہوے اور فوجی کیمپ کیلئے ایسی جگہ کومنتخب فرمایا جہاں پیچھے سے پہاڑ اور سامنے کی طرف لڑنے کا میدان تھا پہاڑ میں ایک درہ تھا جہاں سے یہ امکان تھا کہ شاید دشمن اس درہ سے آکر پیچھے سے حملہ کر دیں تو وہاں عبداللہ بن جبیر کو پچاس تیر اندازوں کے ساتھ متعین فرمایا اور حکم دیا کہ اگر دشمن (خدا نخواستہ ) غالب آکر ہم کو مدینہ پہنچا دیں یا ہم غلبہ میں صورت میں دشمن کو مکہ پہنچا دیں ہر دوصورت میں جب تک میرا حکم ثانی نہ پہنچے تم لوگ اس  درہ پر ثابت قدم رہنا اور اس کو نہ چھوڑنا اس طرف ابو سفیان نے خالد بن ولید کو سو سپاہویں کے ساتھ کمین گاہ پر مقرر کیا کہ جب دونو ج فوجیں آپس میں گھتم گھتا ہو جائیں تو تم اس درہ سے گذر کر پیچھے سے حملہ آور ہو جا نا
حضرت رسالتماب نے فوج کا علم حضرت امیر المومنین  علیہ السلام کے حوالہ کیااور لڑائی شروع ہو گئی انصار نے ایک ہی حملہ میں کفار قریش کے دانت کھٹے کر دیتے پس ان میں بھاگڑ پڑ گئی تو ادھر صحابہ نے کفار کے اموال میں لوٹ شروع کر دی خلد بن ولید نے درہ سے آنا چاہا لیکن عبداللہ بن جبیر کے ہمرہیوں نے اس کو پسپا کر دیا جب عبدللہ بن جبیر کے ساتھووں نے دیکھا کہ کفار بھاگ گئے ہیں اور صحابہ لوٹ کھسوٹ میں شروع ہیں تو انہوں نے عبداللہ بن جبیر سے لوٹ میں شرکت کے لئے اجازت چاہی تو عبداللہ نے جناب رسالتماب کا فرمان دھرا کر ان کو اس اراد سے باز رہنے کی تلقین کی لیکن انہوں نے نہ مانی اور ایک ایک دو دو ہر کر وہاں سے کھسکنا شروع کر دیا یہاں تک کہ عبداللہ بن جبیر کے پاس صرف بارہ آدمی رہ گئے جنگ کی صورت یہ تھی کہ قریش کی علم قبیلہ عبدالدار کے ایک شخص طلحہ بن ابی طلحہ کے ہاتھ میں تھا (اس کو کیش الکتیبہ کہتے تھے ) اس نے میدان میں قدم رکھتے ہی ان الفاظ سے مباز طلبی شروع کردی اے محمد تمہارا عقیدہ ہے کہ ہم میں سے جو تمہارے ہاتھوں قتل ہوتو وہ دوزخ جاتا ہے اورتمہارا جو بندہ ہم قتل کریں وہ شہید ہوتا اورجنت میں اس کامقام ہوتا ہے پس تم میں جس کو جنت کی شوق ہو وہ میرے مقابل میں ائے اورجنت میں جائے پس اس طرف سے حضرت امیراعلیہ السلام نکلے اوران اشعار سے رجز خوانی فرمائی
                     یاَطَلَحَ اِنْ کُنْتَ کَمَاتَقُوْلُ                  لَکُمْ خَیُوْلٌ وَلَنَانَصُوْلُ
                     فَاثْبُتُ  لِتَنْظُرْ  اَیُّنَا الْمَقْتُوْلُ                  وَاَیُّنَا اَوْلٰی بِمَاتَقُوْلُ
                   فَقَدْ اَتَاکَ اَلاْسَدُ الصَّؤُلُ                     بِصَارِمٍ لَیْسَ لَہ‘ فَلُوْلُ
                                                    یَنْظُرُہُ الْقَاھِرُوَالرَّسُوْلُ
اے طلحہ کگر تیری باتیسچی ہے کہ تمہارے لئے گھوڑے  اورہمارے لئے تلوار کے پھل ہیں ٹھہر پھر دیکھ ہم نیں سے کون مقتول  ہوگا اورکون تیرے مقولے کا سزاوار ہوگا اب تیرے سامنے شیر جری ہے جس کی قاطع تلوار کبھی کند نہیں ہوتی  جس کی جنگ  کا تماشا خدا اوررسول دیکھنے والے  ہیں
طلحہ  نیسوال کیا آپ کون ہیں ؟فرمایا  علی بن ابی طالب ہوں تو کہنے لگا اے قضیم مجھے پتہ تھ اکہ تیرے سوا میرے مقابلہ کی اورکوئی جرات نہ کرے گا پس اس نابکار  نے وار کیا آپ نے اس کو جرائت سے روکیا پھر اس پر ایسا وار کیا جس سے وہ جانبر نہ ہوسکا اس کے فی النار ہوجانے کے بعد فوج قریش کا علم طلحہ کے بھائی ابوسعید بن ابی طلحہ نے سنبھالا اوروہ بھی ایک جنبش یداللی  سے لقمہ اجل ہوا آپھر اس کے بھائی عثمان بن ابی طلحہ نے علم لیا  وہ بھی ایک ضربت حیدری سے واصل جہنم ہوا پس مسافع بن ابی طلحہ کی باری ائی وہ بھی چشم زون میں داروغہ جہنم کے سپرد ہوا پھر حارث بن ابی طلحہ علم لے کر اگے بڑھا تو حضرت علی نے ایک ہی حملہ میں اس کو آپنے  باقی بھائیوں خے عقب میں خازن نار کے حوالہ کردیا پھر یکے بعد دیگرے ابوعزیز بن عثمان اورعبداللہ بن جمیلہ بن زہیر علم لے کر اگے بڑھے اورڈھیر ہوگئے پھر ایک اورشخص نے؛علم لیا وراخر میں نویں مرتبہ ارطاۃ بن شرجیل نے علم پکڑا اورصولت حیدری کا ذائقہ چکھ کردوزخ کا راستہ لیا  جب بنی عبدالدار کے نوچیدہ نشانچی قتل ہوگئے توان کے ایک غلام صواب نامی نیعلم اٹھالی اوراورحضرت امیر کے مقابلہ میں کھڑا ہوگیا حضرت امیر انے ایک حملہ  سے اس کادایاں ہاتھ جدا کردیا اس نے پھرتی سے علم دوسرے ہاتھ میں لی آپس حضرت امیر نے اس کو دوسرے روار سے جدا کردیا تو اس نید ونوں کٹے ہوئے ہاتھوں سے سینے  کے سہارے علم کو بلند کئے رکھا  لیکن اب کی مرتبہ جو حضرت امیر انے اس کیسرپر تلوار رسید کی تو موت نے اس کواغوش میں لے کرنہایت اطمینان سے اسے بھیدربان دوزخ کے حوالہ کردی آپس کفار قریش میں اگے بڑھنے کی ہمت نہ رہی تو انہوں نے میدان سے بھاکنے کی صورت اختیار کی عمرہ بنت علقمہ حارثیہ نے جب علم کو زمین پر پڑا ہوا پایا اوردیکھا کہ قریش کے قدماکھڑ گئے ہیں تو اس نے بڑھ کرفورا علم کو بلند کی ااورقریشیوں کو لعن طعن کرکے وآپس انے اورجنگ کرنے کی دعوت دی ادھر جب عبداللہ بن جبیرکو چھوڑ کر اس کے ساتھی لوٹ کھسوٹ  میں شامل ہوئے تو خالد بن ولید جو ایک مخصو ص  دستے کے ساتھ اسی درہ پر کمین لگائے بیٹھا تھا اس نے درہ کو خالی دیکھ کر دوسوساتھیوں سمیت حملہ کردیا چنانچہ عبداللہ بن جبیر آپنے  بارہ ہمراہیوں سمیت وہیں شہید ہوگیا ورخالد بن ولید نے درہ سے گذر کرپیچھے سے فوج اسلام پر حملہ کردیا  یہ لوگ تو نہایت اطمینان سے لوٹنے میں مشغول تھے انہیں کیا معلوم تھا کہ ابھی کوکوئی ہماری تاک میں بھی ہے اس طرف میدان سے جاتے ہوئے جب کفار قریش نے پیچھے مڑ کردیکھا تو علم بلند تھاا نہوں نے سمجھا ابھی اہمارا کوئی نشانچی وعلمبر دار باقی ہے پس ان کے اکھڑے ہوئے قدم جم گئے اورفوج  اسلام ہر دوطرف سے محاصرہ میں اگئی اب ان کو لوٹ بھی بھول گئی اورمیدان سے بھاگئے کی سوچھی چنانچہ پہاڑی جانوروںکی طرح بھاگ کر پہاڑوں پر چڑھتے تھے  حضرت رسالتماب نے آپنے سرمبارک سے خود کو ہٹا کر اوازیں دیں کہ میں رسولخدازندہ ہوں تم کدھر جارہے ہو لیکن پیچھے مڑ کر بھی کسی میں دیکھنے کی جرات نہ تھی 
لشکر قریش  میں ہند بنت عتبہ (مادر معاویہ  یہ باٹ ادا کررہی تھی کہجب بھی کوئی قریشی بزدلی کااظہا کرتا تھا تو یہسرمہاورسلائی اس کے پیشکرکے کہتی یہ لو تم سرمہ لگا کرگھرواں میں پر وہ نشین بن بیٹھولڑنا مردوں کیلئے ہوا کرتا ہے (کویا تم نامرد ہو
 حضرت حمزہ  نے اس جنگ  میں وہ جوہر شجاعت  دکھائے کہکفار مٰں اسکے مقابلہ کی ہمت نہ رہی  جب یہجری شیرانہ وار اگے  بڑھتا تھا تو کسی کافر کے اس کے؛ سامنے قدم نہ جم سکتے تھے اخر کار ہند نے ایک حبشی کوانعام کا لالچ  دیا تاکہ محمد یاعلی یا حمزہ میں سے کسی ایک کو قتل کردے وہ وحشی جبیر  بن مطعم کا غلام تھا اس نے جواب دیا کہ محمد کو قتل کرنا میرے بس کا روگ نہیں  اورعلی کاقتل بھی کارے وارد کیونکہ وہبھی پوری طرح چوکنے ہوکر نہایت ہوشیاری سے میدان کا رزار  میں مصرور حرب وضرب ہیں البتہ حضرت حمزہ کے لئے کوشش کروں گا چنانچہ یہ چھپ کرایک مقام پر تاک میں بیٹھاوادھر  جنگ کرتے ہوئے حضرت حمزہ جب اس کے پاس سے غذرے تو اتفاقا ایک غیر ہموار جگہ  سے ان کا قدم پھسلا اوروہ گر پڑے پس اس نابکار نے فورا نیزہ سنبھالا اوران کے پہلو مبارک پر اس زور سے مارا کہوہ پار ہوگیااور آپ نے جام شہادت نوش فرماکر جان جان افرین کے حوالہ کردی اس ملعون نے ان کا پیٹ چاک کرکے  ان کا جگر نکالا اورہند کو بطور ہدیہ پیش کی اچنانچہ اس ملعونہ نے اس کو آپنے حسد کی اگ ٹھنڈا کرنے کی خاطر آپنے منہ میں چبایا بقدرت خدا وہ پتھر کی طرح سخت  ہوگیا پس اسنے اس کو منہ سے نکال  کر پھینک  دی اجناب رسالتماب  نے فرمایاکہ ملائکہ نے اسے حضرت حمزہ کے جسم میں آپنے  اصلی مقام پر رکھ دیا وربعض  روایات میں ہے آپ نے فرمایا  یہ کیونکر  ممکن تھا کہ حمزہ کاکوئی حصہ نار میں جاتا پس ہندخود ائی اوراسنے حضرت حمزہ کے  ناک کان وغیرہکات ڈالے اورلاش کا اس طرح مثلہ کی اکہ وہ دیکھنے کے قابل نہ رہی حضرت رسولخدالاش پر بہت روئے ۔
متفق علیہ روایات کے ماتحت جناب رسالتماب کے پاس سوائے ابو و جانہ انصاری اور حضرت امیر علیہ السلام کے اور کوئی نہ رہا (ّمیزانٌبروایت قمی نسیبہ بن تکعب مازینہ بھی جناب رسالتماب کے پاس ثابت قدم رہء یہ ہمیشہ جنگوں میں آنحضرت کے ساتھ زخمیوں کے علاج کیلئے حاجر ہوا کرتی تھی اس دفعہ اس کا بیٹا بھی حاضر تھا جب اس نے بھاگنا چاہا تو ماں نے اس لعن طعن کر کے بھاگنے سے روک لیا چنانچہ وہ ثابت قدم رہا اور بالآخر شہید ہوگیا اس نیک نصیب عورت نے آپنے بیٹے کی تلوار لے کر حملہ کیا اور ایک کافر کہ تہہ تیغ کر ڈالا۔ جناب رسالتماب نے اس کیلئے خیروبرکت کی دیا کی پس اس نے پروانہ وار آنحضرت کے جسم کی حفاثت کی اور اس سلسلہ میں آپنے جسم، پر کافی زخم برداشت کئے اس نے آنحضرت کے کہنے پر ایک ڈھالی اٹھا کر مردانہ وار جہاد کر کے حضور کی حفاظت کا فریضہ بھی ادا کیا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ فلاں و فلاں بھاگنے والوں سے تو نسبیہ کا درجہ افضل ہے۔
حضرت امیر علیہ السلام کی یہ حالت تھی کہ کب بھی کوئی گروہ جناب رسالتماب پر حملہ آور ہوتا تھا تو حضرت علی ان کو آپنی جرات و شجاعت سے پسپا کرتے تھے۔ یہانتک کہ تلوار شکستہ ہو گئی پس حضرت رسالتماب نے ان کو ذوالفقار عنایت فرمائی۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت  نے درخت خرما کی خشک شاخ توڑ کر دی جو تلوار آبدار بن گئی اور بروایت حضرت صادق علیہالسلام جبرئیل آسمان و زمین کے درمیان سنہری کرسی پر بیٹھ کر یہ کہہ رہے(لا سیف الاذوالفقار لا فتیٰ الا علی) اور حضرت رسالتماب سے یہ کہہ رہے تھے کہ حضور! ہمدردی و وفاداری اسی کا نام ہے جو علی سے ظاہر ہے تو آپ نے فرمایا۔انہ منی و انا منہ۔یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں پس جبرائیل نے جواب دیا میں تم دونوں میں سے ہوں اس جنگ میں حضرت علی کے جسم مبارک میں باختلاف روایات ستر یا نوے زکم لگے جو سب کے سب سامنے کی طرف تھے۔
مورخین  نے ذکر کیا ہے کہ کفار قریش ۳ ہجری ماہ شوال بروز بدھ احد میں اترے تھے اور جناب رسالتماب نے آپنی فوج کے ساتھ بروز جمعہ اور بعد از نماز جمعہ نزول اجلال فرمایا تھا اور یہ لڑائی بروز سنیچر واقع ہوئی تھی جبکہ چاند کی پندرھویں تھی (میزان)اور بعض روایات میں چاند کی ساتویں منقول ہے (دمعہ ساکبہ)
عمرو بن قیس جو دل سے اسلام کی صداقت کا قائل تھا ابھی تک اس نے ظاہری طور پر اقرار شہاد تین نہیں کیا تھا۔ جبھ اس نے سنا کہ حضرت رسالتماب خود بنفس نفیس تلوار لے کر مصروف جہاد ہیں۔شیر غضبناک کی طرح آگے بڑھا اور کلمہ شہاد تین زبان پر جاری کر کے بحر جنگ میں غوطہ زن ہوا اور جام شہادت نوش فرما کر داخل جنت ہوا ابھی تک اس میں رمق جان باقی تھی کہ ایک انصای کا پاس سے گذر ہوا۔ اس نے پوچھا کیا تو آبائی دین پر باقی؟اس نیک بخت نے جواب دیا نہین بلکہ میں توحید و رسالت کی شہادت کا اقرار کر چکا ہوں پھر وہ جاں بحق ہوگیا۔ جب حضور!سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو فرمایا کہ بے شک وہ مسلمان ہو کر شہید ہوا ہے اور یہی وہ ایک شخص ہے جس نے نماز کی ایک رکعت تک نہیں پڑھی اور مر کر جنت میں پہنچا ہے(برہان۔مجمع البیان)
حضرت حنظلہ نے اسی رات عبداللہ بن ابی سلول کی لڑکی سے شادی کی تھی اور شب باشی کیلئے حضور سے اجازت کی تھی چنانچہ سورہ نور کی آیت۔انما المومنون۔اسی کے متعلق اتری ہے پس آپ نے اس کو اجازت دی چنانچہ رات کو وہ آپنی عروس سے ہمبستر ہو کر صبح سویرے حلات جنب سے جنگ میں حاضر ہوگیا اور بالآخر شہید ہوا جناب رسالتماب نے فرمایا میں نے دیکھا ہے کہ ملائکہ آشمان و زمین کے درمیان اس کوغسل دے رہے ہیں چنانچہ  اس کے بعد سے اس کو غسل ملائکہ لے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس جنگ میں عتبہ بن ابی وقاص نے حجور کے دانت مبارک کو شہید کیا اور طہرہ انور کو بھی زخمی کیا۔ اب قمیہ نے آپ پر حملہ کیا اور پھر یہ آواز بلند کی کہ لات و عزی کی قسم میں نے محمد کو قتل کر ڈالا ہے اور ابلیس ملعون نے بھی اعلان کیا کہ محمد مارا گیا۔چنانچہ  جب یہ خبر مدینہ میں پہنچی تو مخدومہ کائنات حضرت فاطمہ زہراء  پریشان حال تشریف لائیں اورآپنے بآپ کا خون الود چہرہ دیکھ کربہت روئیں  اورانحضرت  نے ان کو تسلی دی بنابر مشہور حضرت حمزہ  کی لاش پر پہنچیں  اورجناب رسالتماب نے ان کو تسلی دی
دمعہ ساکبہ میں بحارالانوار سے  مروی ہے کہ اس روز ہاتف سے حضرت رسالتماب نے ان کو تسلی دی
                              نادعلیا مظھر العجائب     تجد ہ عونا لک فرالنوائب
                              کل ھم وغم سینجلی          بولایتک یاعلی یاعلی یاعلی
لڑائی ختم ہونے کے بعد حضرت رسالتماب  نے سعد بن ربیع کے متعلق پوچھا اورفرمایا کہ میں نے اس پر بارہ نیزے پڑتے دیکھے چنانچہ ایک شخص اسکی تلاش میں نکلاتو دیکھا کہ مقتولین میں زخمی پراہوہے  اوراس میں رمق  جان باقی ہے اس نے اس کو اوازدی لیکن جواب نہ ملا پھر اوازدی کہ رسول اللہ تجھے یاد کررہے ہیں پس اس نے سر بلند کی اورخوشی کے مارے اس کے جسم میں تڑپ  پیدا ہوئی پھر پوچھا کیا رسول خدازندہ یں اس نے جواب دیا کہ ہاں زندہ ہیں انہوں  انہوں نے فرمایا کہ میں نے سعد پر بارہ نیزے پڑتے دیکھے ہیں سعد نے جواب دیا الحمد للہ بے شک رسول کی زبان سچی ہے اوعمجھے بارہ نیزے لگے ہیں  کہ ہر ایک ان میں سے میرے لئے پیغام موت تھا میری قوم انصار کو میرا سلام کہنا اوریہ یغا پہنچادیناکہ تمہاری انکھوں کے سامنے اگررسولخدا کو ایک کانٹاکی بھی تکلیف پہنچی تو تمہارا خدا کیسامنے کوء یعذر بھی مسموع نہ ہوگا پس یہ کہہ کراس نے سرداہ کھینچی  اورس کا رکا ہوا خون ایک مرتبہ جوش مار کرنکلا  اوراسنے جان جان افرین کے حوالہ کی جب رسالتمابکو اطلاع پہنچی تو آپ نے اس کے حق میں دعا فرمائی  کہ خداسعد پر رحمکرے جس نے زندگی میں ہماری نصرت کیا ورمرتے ہوئے بھی ہمارے متعلق وصیت کرگیا (دمعہ)

ایک تبصرہ شائع کریں