دنیا وی حکومتوں کےبنے بنائے قوانین میں چونکہ صرف یہی چند روزہ زندگی ملحوظ ہوتی ہے لہذا وہ اس کی اصلاح کے بہانے سے قوانین کی داغ بیل ڈالتے ہیں علاوہ ازیں خود قانون دان چونکہ انسانوں کے مصالح و مفاسد سے پوری طرح واقف نہیں ہوتے اگر وہ پوری ایمانداری سے بھی قانون بناتے تاہم ان کا قانون ناقص ہی رہتا چہ جائیکہ وہ قانون بالعموم اقتدار کی پاسداری کی خاطر بنائیں جیساکہ ہم نے دیکھا ہے تو اس میں انصاف و عدل کاکیا مقام ہے پس انسانی امن کا برقرار رکھنے اور عدل و انصاف کو تقاضوں کو مروج کرنے کےلئے ضروری ہے کہ قانون وہ بنائے جوکلی و جزوی طور پر تمام مصالح و مفاسد کا علم رکھتاہو تاکہ وہ بلا رعایت تمام بنی نوع کے لئے یکساں طور پر مبنی پر عدل ہو اور ایسا مقنین سوائے ذات ذوالجلال کے اور کوئی نہیں ہو سکتا اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس قانون کا لانے والا پہنچانے والا سمجھا نے والا چلالنے والا بھی ہماری سوسائٹی سے نہ ہو ورنہ وہی خرابیاں پلٹ آئیں گی بلکہ اسی کا اپنا نمائندہ ہو جس پر اس کو اعتماد ہو پس و ہ قانون اسلام ہے اور لانے والا پہنچانے والا سمجھانے والا اور چلانے والا بنی یا اس کا نائب ہوا کرتاہے اسلامی قوانین چونکہ خالق کائنا ت کی طرف سے وضع شدہ ہیں پس وہ عالمی مصالح پر حاوی ہیں اور جذبات و خواہشات سے بلند و بالا ہیں ان میں یہ امکان نہیں کہ کسی قانون کی تشکیل کےوقت عمدا یاسہوا جذباتی یا غیر شعوری طور پر کسی مصلحت کو نظر انداز کیا گیا ہو گا تاکہ ترمیم یا تنسیخ کو سراغ مل سکے البتہ رفتار زمانہ او رگردش کے پیش نظر بعض مصالح عامہ میں تبدیلی ناگزیر ہوتی ہے جیساکہ اویان سابقہ میں یکے بعد دیگرے جزوی تبدیلیاں واقع ہوئیں حتی کہ نوبت دور اسلام تک آپہنچی چونکہ اب کسی نبی نے بعد میں آنا نہیں تھا لہذا اس کے قوانین میں ایسی پختگی و پائیداری کو ملحوظ رکھا گیا کہ ادواردازمنہ کا تفاوت ان کو قابل نسخ نہ بنا سکے۔ یا یو ں سمجھئے کہ انسان فطری طورپر تسخیر موجودات او استخدام کائنات کا اپنے اندر جذبہ رکھتاہے اور اسی کا ماتحت و ہ شب وروز جدو جہد میں مصروف عمل ہے کہ اس سلسلہ میں ا س کا قدم ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتا چلا آیا ہے کہاں دور سابق کی غاروں و پہاڑوں کی زندگی اور کہاں موجودہ دور کی آسمان رفعت پر بلند پروازی نہ معلوم اس کے بعد یہ ترقی کہاں تک جائے میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس جذبہ کے ماتحت انسان نے اپنے مطلب کی ہر شئی کو فتح کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے اور ہر آنے والی راستہ کی روکاوٹ کو پوری طرح سے ہٹانے کے درپے ہوتاہے اور اسی جذب منفعت او ر دفع نقصان کا جذبہ ہی باہمی آویزش کا موجب ہوتاہے پس اجتماعی پر امن زندگی اور تمدنی بقاے کےلئے ایسے قوانین کی تشکیل یا تو فطرت خود کرے گی یا کوئی ایسی ذات کرے گی جو فطرت کے تقاضوں کوجاننے والی ہو اور اس کی تمام ترصلاحیتوں پر اس کی نظر ہو تو ظاہر ہے کہ فطرت جوخود مبنی اختلافات ہے وہ رفع اختلاف کا قانون اپنے پاس نہیں رکھتی ورنہ انسانوں میں تصادم و تزاحم سرے سے رونما ہی نہ ہوتا لہذا ضروری ہے کہ ان قوانین کی تشکیل کوئی ایسی ذات کرے جو تمام مصالح کو جانتی ہواور سوائے خالق کائنات کے اور کوئی ہو نہیں سکتا اور اس کے بعد ضروری ہے کہ خدا خود اپنی مرضی و مصلحت سےایسے افراد کو اصلاحی خلق کے لئے مامور فرمائے جس کو ان قوانین کا پورا پورا علم دیا گیا ہو اور و ہ ان قوانین کی ترویج میں پوری جرات سے اپنی جذبات پیش کرنےوالے ہوں پس نبوت وہ عہدہ جلیلہ ہے جو خدا اصلاح خلق کے لئے کسی اپنے خاص بندے کو عطافر ماتا ہے اور نبی وہ ہے جو اس عہدہ جلیلپ پر فائز ہو کر ہماری اصلاح کا علمبردار ہو۔
پس یہ عقیدہ واضح ہو گیا کہ خداکی
رضا حاصل کرنے کے لئے نبوت کا دروازہ کھٹکھتائے بغیر چارہ نہیں چنانچہ ارشاد
خداوندی ہے قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ
سے محبت رکھنا چاہتے ہو تو اس کی صورت فقط یہ ہے کہ تم میری اتباع کرو تاکہ تمہیں
اللہ اپنا محبوب بنالے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا ما اتاکم الرسول فخذوہ
وما نھاکم عنہ فانتھوا یعنی جو کچھ تمہیں
احکام شریعت میں سےرسول دے اس کو لے لو اور جس کا م سے تم کو منع فرمائے اس سےرک
جاو ایک اور مقام پر بطور تنبیہہ ارشاد فرماتا ہے کہ وہ لوگ اگر ایمان کا دعوی بھی
کریں تو قطعا یہ مومن نہیں کہلا سکتے حتی یحکموک فیما شجر بینھم جب تک کہ باہمی
اختلافات میں آپ کے فیصلوں کے سامنے جھک نہ جائیں اس مطلب پر احادیث بکثرت دلالت کرتی ہیں پس عقیدہ توحید کے بعد انسان کا جب تک
نبی پر اعتقاد صحیح نہ ہو اس کا صرف اللہ پر ایمان لانا نجات کے لئے کافی نہیں ہو
سکتا بنابریں دور جدید کے منقلب اذہان میں جو یہ بات سمائی ہے کہ اللہ کو صرف عمل
نیک سے راضی کیا جا سکتاہے خواہ عامل کا تعلق کسی مذہب و ملت سے ہو بالکل لغوا
درپے ہو وہ خیال ہے کیونکہ اولا تو کوئی آدمی ملنا کسی مذہب و ملت سے ہو بالکل
لغوا درپے ہو وہ خیال ہے کیونکہ اولا تو کوئی آدمی ملنا بہت مشکل ہے جو بغیر ہادی
کامل کے خود اپنی نجات کا راستہ معین کر سکے اور اگر کائنات عالم میں کوئی کائنات
عالم میں کوئی ایسا فرد ہو ایسا فرد ہو بھی تو اس پر پوری نوع تک قیاس نہیں کیا جا
سکتا لہذا نوع انسانی کی نجات عقیدہ نبوت پرہی منحصر ہے اگر بالفرض ایسا آدمی مل
جائے جو بغیر ہادی کامل کے جملہ نیکیوں کو بجالائے اور جمیع شرور سے بچے وہ حضور
کی نبوت و رسالت کاانکار کیسے کرےگا بلکہ اس کی فطرت صحیحہ خود بخود اسے حضور کے
قدموں میں کھینچ لائے گی پس اس قسم کے بیہودہ خیالات ایسے لوگوں کے لائے ہوئے ہیں جو دل و جان سے دین و مذہب کا
قلاوہ گردنوں سےاتار پھینکے کی فکر میں ہوتے ہیں تاکہ ان کی تعیش مزاجی پر قدغن نہ
کیا جا سکے۔