التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

افلاک کے معنی

اگرچہ اس قسم کی بحثوں کا دین و مذہب سے واسطہ نہیں ہے لیکن دور حاٖضر کی نئی تحقیقات اور نت نئے انکشافات چونکہ علوم و اسرار کے عجیب و غریب خزائن مخفیہ کو سامنے لا رہے ہیں جن کی طرف کلام پیغمبر میں یا فرمان شہ ولایت میں کچھ نہ کچھ اشارات موجود ہیں جن کو تاحال قابل توجہ قرار نہ دیا گیا تھا اس لئے ان مطالب کو یکسر نظر انداز کرنا شاید مستحسن نہ ہو پس یہ جاننا چاہئیے کہ سابق ہئیت دان افلاک کی  تعداد تو بتا یا کرتے تھے جن میں سے دو کا ذکر تو ہو گیا یعنی فلک الافلاک اور فلک البروج پہلے کو عرش اور دوسرے کو کرسی سے تعبیر کہا گیا پھر ان کے نیچے پیاز کی چھلکوں کی طرح تہہ بہ تہہ علی الترتیب مریخ مشتری زحل شمس عطارد زہرہ اور قمر کے سات افلاک وہ بیان کرتے تھے جن پر نہ کوئی دلیل تھی اورنہ برہان بس کسی نے زمین پر بیٹھ کر یہ نام تجویز کر لئے اور بعد والوں نے کچھ اضاٖفہ کےساتھ اسے آگے بڑھا  دیا اور مستقل ایک علم بن گیا پھر آسمانوں میں سے ہر ایک میں متعدد جزوی افلاک تجویز کر لئے جن کی علم ہئیت والے چوراسی تک تعداد بیان کر تے ہیں اور کسی مطلب پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں سوائے اندازہ کے اور اذہان چونکہ انہی سمعیات تک ہی محدود تھے لہذا جو کچھ انہوں نے کہا مانتے چلے گئے پس آئمہ کے فرامین بھی لوگوں کی کوتاہ علمی کی بدولت محل استفادہ نہ بن سکے پس جناب سرور کائنات کے معراج کومسئلہ لاینحل صرف ہئیت والو ں کے بلا دلیل مسلمات کی بناء پر سمجھا گیا اور خرق والتیام کی الجھنوں میں پھنس کر لو گ ایک آشکار حقیقت سے غافل ہو گئے ان کے پاس نہ تدبیر کے تیز ناخن موجود تھے جو ذہن میں پڑی ہوئی اس گرہ کو کھول سکیں اور نہ اسباب و ذرائع کے روشن فانوس ان کے پاس تھے تاکہ حقیقت اور بناوٹ میں امتیاز پیدا کر سکیں اب جو مادہ میں منازل ارتقاء طے کرنے والوں نے استخدام و تسخیر موجودات کی طرف اسباب و ذرائع کی وسعت و فراوانی کےساتھ آگے قدم بڑھا یا ہے تو ہو معمے خود بخود حل ہونے لگ گئے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا دعوی کہ سلونی قبل ان تفقدونی فانی اعرف بطرق السموت من الارض یعنی مجھ سےسوال کرو قبل اس کے کہ مجھے نہ پاؤ کیونکہ میں زمین کی بہ نسبت آسمانوں کے راستوں کو زیادہ جاننے والا ہوں یا یہ کہ پستیوں کی بجائے مجھے بلندیوں کے طرق زیادہ معلوم ہیں اس وقت تک آپ کا یہ فرمان صرف لقلقہ لسانی یا ہمہمہ زبانی تک محدود بنا ہو اتھا کہ مغرب سے اٹھنے والی آوازوں کی دھمک نےکانوں کے پردے پھاڑ کر دماغ میں یہ بات پہنچا دی کہ ہائے تم کس غفلت میں پڑے رہے علی کو ایک بہت بلند مقصد کی طرف اشارہ کر رہےتھے کہ اے انسانو مجھے ایک اپنے جیسا معمولی انسان نہ سمجھو تمہیں تو زمین پر رہتے ہوئے زمین کےمسائل سلجھانے کا علم بھی آسمانی منازل طے کر نے اور علو و ارتقاع کے زینے سر کرنے کی یہاں سے تدبیر یں بتا سکتا ہوں یعنی مجھے صرف حلا ل واحرام او ر ثواب و گناہ کے مسائل تک محدود نہ سمجھو بلکہ اگر میرے ذریعہ سےمادی دنیا میں قدم آگے بڑھانا چاہو تو میں وہ مفکرہو ں کہ زمین کے مخفی دفینوں سے اور مادہ کےاسرار خفیہ سے آسمانوں کی بلندیوں اور اس کے راہوں کو طے کر نا آسانی بنا سکتا ہوں علی کا یہ دعوی سن کر علم ہئیت کے ڈھکو سلوں سے متاثرسنجیدہ اذہان اور صرف حلا ل واحرام تک مسائل کوسمجھ سکنے والے سادہ عوام تو خاموش رہے لیکن بدوی لوگ جن کو حقائق سےدور تک کا واسطہ نہ تھا نہ وہ مادی مسائل سلجھانے کے اہل نہ شرعی مطاب کے چنداں دلدادہ تھے وہ ابھرے کسی نے پوچھا اچھا بتائیے میری مونچھوں کے بال کتنے ہیں کسی نے کہا میرے سر کے با ل گن دیجئے حضرت امیر علیہ السلام اس پس ماندہ ذہنیت کا جائزہ لینے کے بعد خاموش ہوگئے یا یہ فرمایا کہ تمہارے ایک ایک با ل کے نیچے ایک ایک شیطان موجو د ہے یعنی اس قدر طبیعت میں کوفت محسوس ہوئی کہ ان کو جواب تک دنیا تو بجا ئے خود منہ لگانا بھی پسند نہ کیا آج معرفت والے کف افسوس ملتے ہوئے کہتے ہیں کہ کاش ایسا عالم ہمیں نصیب ہوتا تو چاند تک راکٹ آج کی بجائے آج سے تیرہ سو سال قبل پہنچ جاتا اور  وہاں ہمار ا جھنڈا لہراتا نظر آیا ۔

میں دور چلا گیا مقصد یہ ہے کہ آسمانوں کی اوپر کی وضع قطع مل کرپیاز کے چھلکوں کی طرح تہہ بہ تہیہ ہونا اور پھر ہر ایک کی حیرت ناک موٹائی اور ستارون کا آٹھویں آسمان یعنی کرسی میں جڑا ہوا ہونا ناقابل فہم مسائل تھے جن کو موجودہ تحقیقات و انکشافات نے قابل فہم بنا دیا کیونکہ آسمان سے مراد صرف جہت علو ہے اور بارش کا آسمانوں سے نازل ہونے کا بھی یہی مطلب ہے کہ بلندی کی طرف سے آتی ہے جس کو ہم نے ایک موٹاجسم فرض کر رکھا تھا اور فلک سے مراد ایک دائرہ ہےجس پر ستارے یا سیارے اپنی معینہ و مقررہ حالت پرنظام تکوین کے ماتحت گردش کرتےہیں ورنہ اگر وہ جسم مان لیا جائے جس کو علم ہئیت والے خرق و التیام سے پاک و منزہ تصور کئے ہوئے تھے توروش یاامریکہ کے چشم دید راکٹوں کا مسئلہ کیسے حل ہو گا او ر خدا کی قسم دین اور قرآن تو ان جدید افکار و انظارکے لئے محض محل تمسخر ہی بن کررہ جائے گا  پس ذل  فی فلک یسبحون  کا یہی مطلب ہے کہ  چاند سورج ستارے سب اپنے دائرہ معینہ پر نظام قدرت کے ماتحت  گردش کرتے  ہیں  گویا فلک اسی دائرہ گردش کانام ہے جس پر اجرام سماویہ کی گردش جاری ہے  پس ہر ستارے کا مدار اس کا فلک ہے اور اس لحاظ سے بے حد وحساب افلاک  ہیں جو شمار نہیں کئے جاسکتے  اور موجود تحقیقا ت   نے تو معراج کے مسئلہ  کو سمجھنے  میں خوب مدد دی ہے اور قرآن مجید  میں جس مقام  پر چیلنج ہے  کہ اگر  تمہاری طاقت میں ہے تو اقطار سموت سے نفوز کر جاؤ  حالانکہ تم ایسا نہیں کرسکتے  ہو تو نفوذ کامعنی  داخل ہونا نہیں  بلکہ اس سے بڑھ جانا ہے گویا حضرت رسالتمآبؐ   کے معراج  نے بلندیوں  کو سرکرنے  کی دعوت دی اور حضرت علیؑ نے جھنجھوڑ کر جائز ہ لینا چاہا کہ آیا وہ اس قابل  بھی ہیں  کہ ان کو ظاہری ترقیوں  کے اسباب بتائے جائیں تو جب دیکھاکہ ابھی انسان  اس مقام سے بہت پیچھے  ہے  پس  اس بارے  میں خاموشی اختیار کرلی اور باقی آئمہ عوامی اصطلاحات  کے پیش نظر لوگوں سے باتیں کرتے  رہے کیونکہ ان کے اذہان کے مطابق کلام کرنا ہی ان کی شان تھی کلوالناس علی قذرعقولھم    لیکن  ساتھ  ساتھ یہ بتاتے چلے گئے   کہ ایک دور آئے  گا جس میں لوگ آگے بڑھنے  کی اہلیت رکھتے ہوں گے پس چرخ چہارم کا کرسی نشین آکر  معاون بلکہ مقتدی ہوگا  اور عالم علو سے  حضرت جبرئیل  اس فاتح اعظم کی آمد کا اعلانکریں  گے  پس زمین اپنے تمام خزائن پیش کرے گی اور جن جن زمین کے خزانوں  تک موجودہ ترقی یافتہ طبقہ نہ پہنچ سکا ہوگا  انکے لئے  وہکھل جائیں  گے اور ایک حیرت انگیز  انداز سے وہ عالم کو فتح کرکے اسلام کا علم ہر جگہ لہرائیں گے

ایک تبصرہ شائع کریں