ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن مجیدکا تمام کتب سماویہ سے درجہ بلند ہے اور یہ تمام کتب سماویہ کے علوم کی جامع کتاب ہے اور اس کی پہلی آیت ہی اس کے لاریب ہونے کا اعلان کر رہی ہے اور شیعہ مذہب کا عقیدہ یہ ہے کہ اس کا انکار کرنا یا اس میں شک کرنا کفر ہے بلکہ اس کیایک آیت اور لفظ میں شک کرنا بھی کفر ہے باقی انبیا کے معجزہجات ایک قوم کے لئے اور ایک وقت کے لئے تھے خدا وند کریم نے حضور ﷺ کو یہ معجزہ ؑ زندہ قیامت تک کے لئے عطا فرما یا جس کےعلوم کسی زمانہ میں پرانے نہیں ہوتے اور ہر مفسر اس سے نئے نئے اسرار و رموز پر واقف ہوتا چلا جاتاہے اس لئے کسی زمانہ میں علماءاس کی تحقیق و تدقیق کے متعلق اپنے نظرو فکر کے نتیجہ کو آخری نتیجہ کہنے کی جرات نہ کر سکے قرآن مجید میں اعجاز کے بہت سے پہلو ہیں مثلا اس کے الفا ظ کا نظم و نسق معجزہ ہے اس کی سلامت معجزہ ہے اس کی روانی و مطالب کا تسلسل معجزہ ہے باوجود کثرت علوم کے جامع ہونے کا تصادم نہ ہو نا معجزہ ہے اس کی وضاحت و بلاغت معجزہ ہے اس کی پیشن گوئیں کی حرف بحرف صداقت معجزہ ہے سابقہ انبییا و امم کے قصوں کابیان معجزہ ہے اس کے احکام میں پائیدار مصالح و مفاسد کا وجودمعجزہ ہے اور ہر زمانہ میں اس کا نیا اور تازہ ہونا معجزہ ہے ہم نے تفصیل وار مقدمہ تفسیر میں ان کو درج کیاہے یہاں اسی قدر لکھنا ہی کافی ہے
ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید کو
خداوند کریم نے اپنے حبیب حضر ت محمد مصطفی ﷺ پر نازل فرمایا پس یہ اللہ کا کلام
ہے نہج البلا غہ میں حضرت امیر علیہ السلام نے فرمایا ہے ھذا القرآن بین الدفتین
یہ قرآن جو دو تختیوں کےدرمیان ہے اللہ کا کلام ہے اور شیعہ امامیہ کا اس پراتفاق
وا جماع ہے البتہ اہل خلاف کی جانب سے شیعوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے کیایک
بڑی وجہ یہ ہے کہ حدیث ثقلین جو مسلم بین الفرقین ہے جس میں حضورﷺ نے فرمایا تھا
انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی ما ان تمسکتم بھما لن تضلوابعدی ترجمہ میں
تم میں دو گر انقد چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اپنی عبرت اگر
تم ان دونوں سے تمسک رکھو گے تومیرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہو گے مذہب شیعہ میں ان
دونوں سے تمسک کرنا دین سمجھا گیا اور قرآن کو کتاب صامت اور اہلبیت ؑ کو قرآن
ناطق کہا گیا پس شیعہ قرآن مجید کی اس تفسیر کو قبول کرتے ہیں جو قرآن ناطق یعنی
اہل بیت اطہار سےوارد ہو اوراپنی رائے کو اس میں داخل کرنا گناہ عظیم تصور کرتے
ہیں آپکی زندگی میں ایک آواز اٹھائی گئی تھی کہ ہمیں صر ف صامت کتاب ہی کافی ہے جس
کا صاف یہ مطلب تھا کہ ہم اس کی تفسیر اپنی مرضی سے کریں گے پس اس اختلاف کا نتیجہ
یہ ہوا کہ تفسیر اپنی رائے سےکرنے والے قرآن کے ٹھیکہ دار بن گئے اور جنہوں نے
قرآن کا مفسر آل محمد کو سمجھا وہ منکر قرآن قرار دئیےگئے یہ ہے اصل بنیادی اختلاف
پس شیعہ پر کیچڑا اچھالنے کا افسوسناک رویہ اس اصلی اختلافات کا ہی نتیجہ ہے شیعہ
کی طرف جو تحریف کی نسبت ہےدوسرا غلط اور بے بنیاد ہے سابق اختلاف کی آتش غضب کو
ٹھنڈا کرنے کے لئے ہی ان پر اتہام لگایا جاتاہے ورنہ دامن مذہب امامیہ اس سے بالکل
بری و منزہ ہے تحریف بمعنی تقدم و تاخر کے تو سب مسلمان قائل ہیں کہ مکی آیات پہلے
اور مدنی آیات بعد یا مدنی پہلے اور مکی
بعد اس قسم کا ختلاط قرآن مجید میں تاحال موجود ہے باقی رہا قرآن مجید میں کسی
زیادتی کا ہونا تواس وقت تک کسی بھی مسلمان کہلانے والے نے اس کا قول نہیں کیا
البتہ تیسری صورت اور وہ یہ کہ اسے کچھ کم ہو گیا ہو تواس بارے میں شیعوں پر جو اعتراضات ہیں وہ بے بنیاد ہیں
کیونکہ احادیث اہل بیت ہیں جو زیادتیاں بیان کی جاتی ہیں وہ تفسیری نوٹ ہیں یعنی
جناب رسالتمآب اور حضرت علی مرتضی یا صحابہ کرام کی جانب سے جو آیت متعلقہ کے
متعلق تفسیری نوٹ ہوتاتھا اس کی آئمہ نشاندہی فرماتے تھے اس کا یہ مطلب ہرگز نہ
سمجھنا چاہیئے کہ وہ وہ جزو آیت تھااور ازراہ تحریف اسے حذف کر دیاگیا اور اس قسم
کیروایات اہل سنت کی کتابوں میں بھی بکثرت ملتی ہیں چنانچہ علامہ سیوطی کی ارتقان اور ردرمنثور میں اس قسم کی روایات
بکثرت موجودہیں دور اول سے اس وقت تک شیعوں میں یہی قرآن مروج گھروں میں یہی قرآن
مساجد شیعہ میں یہی قرآن اصول و فروع کا ماخذ یہی قرآن اور حتاکہ نماز میں یہی قرآن
موجود ہے اسی قرآن کی تفسیر یں مذہب شیعہ میں بکثرت موجود ہیں شیعہ احادیث میں
قرآنی آیات کا ایک بے پناہ حصہ موجود ہے بلکہ تمام شوون مذہب میں شیعہ کا دارو
مدار قرآن ہے لیکن بتفیسر آل محمد پس یہاں مناسب ہے علمائے اعلام کی تصریحات بطور
نمونہ نقل کر دی جائیں تاکہ منصب مزاج طبقہ کے لئے باعث ایقان ہو
ابن بابویہ فی العقائد اعتقادفی
الفرقان انہ کلام اللہ ووجھہ و تنزیلہ وفولہ وکتابہ الی ان قال وان اللہ تعالی
محدثہ ومنذلہ وربہ وحافظہ والمتکلم بہ اعتقاد نا ان القرآن الذی انذلہ اللہ علی
نبیہ محمد ھو ما بین الذقنین وھو ما فی ایدی الناس لیس باکثر من ذالک ومبلغ سورہ
عندالناس ماۃ واربع عشرۃ سورۃ وعندنا شیخ صدوقؒ عقائد میں فرماتے ہیں قرآن کے
متعلق ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہ اللہ کا کلام اس کی معرفت کا ذریعہ اس کانازل کرد ہ
اس کا قول اور اس کی کتاب ہے تحقیق اللہ اس کا پیدا کر نے والا اتارنے والا اس کا
مالک محافظ اور کلام کرنے والا ہے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ تحقیق وہ قرآن جو اللہ نے اتارا اپنے نبی محمد
پروہ ہی ہے جو دو تختیوں کے درمیان ہے اور وہی جو لوگوں کے ہاتھوں میں موجود ہے اس
سےکچھ زائد نہیں ہے اور اس کی سورتین لوگوں کے ان الضحی والم نشرح سورۃ واحدۃ
ولایلاف والم تر کیف سورۃ واحدۃ من نسب الینا انا
نقول انہ اکثر من ذالک فھو کاذب نزدیک ایک سوچو وہ ہیں اور ہمارے نزدیک
الضحی اورالم نشرح ایک سورہ اور لایلاف اور الم تر کیف ایک سورہ شمار ہو تا ہے اور
جو ہماری طرف منسوب کرےکہ ہم اس سے زیادہ کے قائل ہیں وہ جھوٹا ہے المجلسی فی الاعتقادات ان یومن یحقیقتہ القرآن
وما فیہ مجملا رکونہ منذلا من اللہ وکونہ معجزاوانکانہ والا ستخفاف بہ کفر وکذا
فعل ما یستلزم الاستخفاف بہ کحرفتہ من غیر ضرورۃ والقائہ فی القاذفدرات علامہ مجلسی اپنے عقائد میں فرماتے ہیں قرآن کی
حقیقت پرایمان لانا واجب ہے اور جو کچھ اس میں سے ہے خواہ تفصیل معلوم نہ ہو اور
اس کےمنزل من اللہ ہونے پراور اس کے معجز ہونے پرایمان لانا واجب ہے اوراس کا
انکار و توہین کفر ہے اسی طرح ہروہ کام جو اس کی توہین کفر کا موجب ہو جیسے بلا ضرورت اس کو اپنی کمائی کا
ذریعہ بنانااور اس کو نجس مقام پرڈالنا کفرہے
المرتضی ان العلم بصحتہ
نقل القرآن کالعلم بالبدان والحوادث الکبار والوقائع العظام والکتب المشھورۃ
واشعار العرب المسطورۃ سید مرتضی فرماتے ہیں تحقیق قرآن مجید کے صحیح منقول ہونے
کا علم ایسا ہے جیسے دور دور کے بڑے بڑے شہروں اور بڑے حادثوں اور عظیم یادگاروں
اور مشہور کتابوں اور جاہلی عربوں کے نقل شدہ شعروں کے صحیح نقل ہونے کا ہمیں علم
ہے الطبرسی فی مجمع البیان قال فاما
الذیادۃ فمجمع علی بطلایہ واما النقصان منہ فقد روی جماعتہ من اصحابنا وقوم من
الخشویتہ العامتہ ان فی القرآن تغیر ونقصانا والصحیح من مذھب اصحابنا خلافہ علامہ
طبرسی نے مجمع البنان میں فرماتا ہے کہ قرآن مجید میں زیادتی کے قول کا بطلان
اجماعی ہے البتہ کمی کے متعلق روایات ہمارے اصحاب میں سے ایک جماعت نے اور عامہ
میں سے حشویہ قوم نے قرآن میں تغیر اور نقصان کا قول کیا ہے لیکن ہمارےمذہب امامیہ
کے علماءکا صحیح مذہب اس کے خلاف ہے یعنی اس میں کوئی کمی نہیں ہے جس طرح کہ اس میں کوئی زیادتی
نہیں ہے
علمائے امامیہ شیعہ کے
اکابرین کے اقوال ہم نے نقل کئے ہیں ان کا
مقصد یہی ہے کہ یہی موجودہ قرآن جو شرق سے غرب تک اور شمال سے جنوب تک تمام ممالک
اسلامیہ میں پھیلا ہوا ہے جس سے اسلام کا بچہ بچہ واقف ہے یہی قرآن کلام اللہ ہے
اور اللہ کی اپنے رسول مقبول محمد مصطفی پربھیجی ہوئی کتاب ہے اس کی آیات میں سے
ایک چھوٹی سی توہین یاہروہ نعل جس سے اس کی توہین لازم آئے وہ کفر ہے پس شیعوں
پراتہامات و الزامات کی سب سے بڑی وجہ وہی ہے جو ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ حسینا
کے دعویدار چونکہ آل محمد ﷺ کی تعلیمات کے سنانے کے درپے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ
اگرشیعہ قوم کو اپنے نظریات بیان کر نے کا عام موقعہ ملا تو مذہب آل محمد ﷺ دنیا
پر چھا جا ئے گا پس وہ ہرقسم کے ہتھکنڈے صرف لوگوں کو شیعہ قوم سے متنفر کرنے کے
لئے استعمال کرتےہیں تاکہ ان کی بات نہ سنی جائے۔