التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

احادیث نور کی وضاحت

احادیث نور میں بعض جگہ کانی اشتباہ ہوتا ہے لہذا  حتمی الامکان اس کی وضاحت کر دینا ضروری ہے

یہ جاننا ضروری ہے  کہ نو ر ایک بسیط شیءہے جس کی تقسیم نہیں ہو سکتی بنابریں جہاں جہاں اس کی تقسیم کے مطلق الفاظ آجائیں کہ مثلا خدا نے اس نور کو اتنے حصوں پر تقسیم کیا  تو ایسے مقامات پر تقسیم حقیقی سمجھنا نا جائز ہے بلکہ نور سے مراد اس کی خاص نوع ہو گی جس کے وہ افراد ہوں گے

نور ایک عرض ہے اور محمدؐ وآل محمد اعراض نہیں بلکہ جواہر وحقائق ہیں بلکہ تمام جواہر سے افضل وشرف ہیں تو نور کا کوئی خاآ معنی لینا ہع گا اور احادیث فو خاص اول مخلوق کے مطلق وارد ہوئی ہیں ان کے الفاظ میں اختلاف ہے بعض میں ہے اول مخلوق عقل ہے اور بعض میں ہے کہ اول مخلوق پانی ہے اور بعض میں اول مخلوق نور محمد وآل محمد کو بتایا گیا ہے تو چونکہ کلام کی منافرت کو رفع کرنے کے لئے تو جیہہ کی ضرورت ہے جس سے معنی کھل جائیں اور سب احادیث  کا مقصد واضح ہو جائے بنا بریں نور سے مراد ایک حقیقت ہے جس کی کنہ کو ذات خالق کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا اور وہ وہ حقیقت ہے جو تنویر عالم موجودات کا سرچشمہ اور تمام کمالات انسانیہ کا منبع و ماخذ ہے اور اسی کو ہی عالمیں کے لیے رحمت قرا ر دیا گیا ہے یعنی وہ عالمین کی اس قدر منور ہے کہ گویا سراپا نور مجسم ہے جس طرح عادل کو مبالغہ آمیز لہجہ عین عدل اور عالم عالم کو عین علم کیا جایا کرتا ہے بنا بریں اس کو عقل کہنا بھی درست ہے کیونکیہ وہ عامین کے لئے عقل کل کی حثییت رکھتے ہیں اور پانی کہنا بھی مجاز کے رنگ میں درست ہے کہ خدا فرماتا ہے وجعلنا من الما ء کل شیی ء حی کہ ہم نے پانی ہی سے ہر شءکو حیات بخشی اور ہادی کل ہرزی روح کی روحانی حیات کا باعث ہی ہوتا ہے

بعض احادیث میں اس کی تعبیر تمثیل کے رنگ میں ہے کہ ہمارا نور اللہ کے نور سے اس طرح ہے جس طرح شعاع سورج سے پھوٹتی ہے ہم صوفیاء کے فرقہ سے متفق نہیں ہیں جو وحدۃ الوجود کے قائل ہیں اور حدیث اسی وحدۃ الوجود کے  نظر یہ کو ہی ثابت کرتی ہے کیونکہ شعاع کا سورج کے جسم کے علاوہ اور کوئی وجود نہیں ہے وجود صرف ایک سورج کا ہی ہے اگر یہ کہا جائے کہ محمدو آل محمد  شمس توحید کی شعاعیں ہیں تو وحدۃالوجود کا نظریہ قائم ہو جائے گا اور قعطاَغلط ہے پس یہاں بھی یہی کہنا ہو گا کہ خدا نے ایک نور کی نوع کے اشرف افراد ہیں اور تمثیل مذکور صرف افہام و تفہیم کے لئے مجازی مظال ہے نہ کہ ترجمان حقیقت جیسا کہ بعض نااہل سمجھ بیٹھے تھے

عرش کرسی آسمان زمین شمس و قمر ملائکہ و جنت و حور وغیرہ کا ان انوار سے پیدا ہونے کا مقصد یا تو یہ ہے کہ یہ بھی اس نوع کے افراد ہیں لیکن کمزور افراد جوان اشرف افراد سے فیضان   حاصل کرتے ہیں پس اس کی تخلیق کا مدا مجاز کے رنگ میں ان کو ظاہر کیا گیا یا یہ کہا جائے کہ ان کی وجہ سے پیدا ہوئے جس طرح کہ باقی ساری کائنات ان کی بدولت خلق ہوئی لیکن عرش کے ساتھ حضور کوملائکہ  سے حضرت علی کو آسمان وزمین سے خاتون معظمہ کو شمس و قمر سے حسنؑ کو اور جنت و حور سے حسین ؑ کو خصوصی تعلق ہے گویا پورے نظام کائنات کا خلاصہ یہ ہے کہ الرحمن علی العرش کا مصدلق خالق کائنات حضرت حق سبحانہ ہے جس کی عرش پر جلوہ گری اور حکومت ہے اور وہ عرش مظہر جلاج و جمال محمدی ہے  اور ملائکہ جو نور علی کا مظہر ہیں وہ عرش نور کی زینت ہے ملائکہ کا مسکن یعنی جائے سکون اسمان کی بلندی سے کے کر زمین کی گہرائیوں تک ہے جو مظہر اطاعت فاطمہؑ ہیں اور شمس و قمر جو مظہر و نور و حسن ہے وہ آسمانوں وزمین کی زینت و رونق ہیں اور تمام موجودات کا شرف نتیجہ جو جنت و حورالعین کی تعبیر ہے وہ حضرت حسینؑ کی مظہریت کا نشان ہے اور کل تخلیق کے بعد تاریخی و ظلمت کا چھا گئی تھیں حتیٰ کہ ملائکہ بہی اس تاریخی کو برداشت نہ کر سکے اور عالم بالا میں اس کی تاریخ کو سخت محسوس کیا جائے لگا پس نور فاطمہؑ کی شعاعوں نے میدان کربلا میں ایسا اجالا کیا کہ تا حشر اجالا ہی رہا ۔

ایک تبصرہ شائع کریں