التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

آئمہ اثنا عشر | aima asna ashar | khilafat o malookiat

آئمہ اثنا عشر | aima asna ashar | khilafat o malookiat

آئمہ اثنا عشر | aima asna ashar | khilafat o malookiat

آئمہ اثنا عشر | aima asna ashar | khilafat o malookiat


حضور رسالت مآب کے بعد دینی قیادت کی ذمہ داریاں ان کے صحیح جانشینوں کے سپردتھیں جو یکے بعددیگرے اس منصب جلیل کے اہل تھے اور ان کی تعین کا فریضہ امت کے سپرد نہیں بلکہ خدا کے ذمہ ہے اور اس نے بزبان پیغمبر نامزد فرمایا ہے ۔ اور احادیث میں جو بجد تواتر حضرت پیغمبر سے منقول میں آپ کے بعد آئمہ کی تعداد بارہ ہے جس کو تمام اہل اسلام نے تسلیم کیا ہے اور یہ کہ وہ سب قریش سے ہی ہوں گے۔ مودودی صاحب نے خلافت و ملوکیت میں اس حدیث کو تو کھلے دل سے قبول کیا ہے کہ آپ نے فرمایا خلافت میرے بعد تیس سال تک ہوگی اور بعد میں ملک و ملوکیت ہوجائے گی اور شرح عقائد نسفیہ میں تفتا زا نی نے بھی اس کو تسلیمی حیثیت سے نقل کیا ہے لیکن اس حدیث کو نقل کرنے کی جسارت نہیں کی گئی جس میں خلفاء کا بارہ ہونا مذکور ہے بلکہ اس میں سے صرف ایک فقرہ لے لیا گیا ہے کہ خلفاء قریش سے ہوں گے ۔خلافت و ملوکیت سنہ 655 اس کی وجہ اس کے سوااور کچھ نہیں کہ خلافت کی مدت تیس برس تک معین ہونے کی صورت میں تاویل کی گنجائش نکال لی گئی ہے کہ خلافت کی دوقسمیں ہیں۔ ایک راشدہ اور دوسری غیررا شدہ معنی ملوکیت اور حدیث شریعت نے خلافت راشدہ (علی منہاج النبوۃ ) کے متعلق ہی فرمایا تھا کہ یہ تیس برس تک ہو گی اور بعد میں بادشاہت و آمریت کا دور دورہ ہو گا لیکن اثنا عشرہ باره) خلفاء والی حدیث کی تصحیح کے لئے جمہور اہل سنت کے مسلک کی رو سے کوئی تاویل نہیں ہوسکتی تھی کیون کہ خلفائے بنی امیہ کو ساتھ ملایا جائے تو اعداد بارہ سے پڑھتی ہے کہ صرف بنو امیہ ہی بارہ سے زیادہ ہیں ۔ اور بنوالعباس کی تعداد تو ان سے بھی زیادہ ہے ۔ علامہ جلال الدین سیوملی نے تاریخ الخلفاء میں بارہ خلفاء والی حدیث پر کافی تبصرہ کیا ہے اور بالاخر اس کی رائے کا رجحان اس طرف ہے کہ ابو بکر سے لے کر عمر بن عبدالعزیز تک کے خلفاء مراد لئے جائیں لیکن اس خیال پر خود مطمئن نہین کونکہ بعض کا کردار اس قدر غلط اور افسوسناک بلکہ انسانیت سور حد تک پہنچا ہوا ہے کہ جمہور اہل اسلام کے بزدیک بھی اس پر خلافت نبویہ کے مقدس لیبل کی تطبیق محل اشکال ہے اور دوسری طرف معرفت امامت والی حدیث جو تمام اہل اسلام میں مسلم حیثیت رکھتی ہے جس کو علامہ تفتازانی نے شرح عقائد نسفیہ میں نصب امام کے وجوب کے استدلال میں پیش کیا ہے حضور نے فرمایا ۔ من مات ولم تعرف امام زمانہ مات ميتة جاهلية یعنی جو شخص امام زمانہ کی معرفت کے بغیر مر جائے تو اس کی موت کفر وجہالت کی موت ہے ۔ اس حدیث کی رو سے بارہ خلفاء کی جو بھی تاویل کی جائے قابل قبول نہیں ہوسکتی کیونکہ بارہ خلیفے جہاں بھی ختم ہوں کے اس کے بعد والے لوگوں کے لئے جہالت کی موت لازمی طور پر ماننی پڑے گی۔

اس حدیث کی رو سے صرف شیعانِ علی کا نظریہ ہی صحیح قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ شیعوںکے نزدیک حضور کے بعد حضرت علی علیہ السلام سے لے کر حضرت مہدی علیہ السلام تک بارہ خلیفہ بنتے ہیں اور سب کے سب قریش ہی سے ہیں۔ گیارہ کا زمانہ ختم ہو چکا ہے لیکن بارہویں کا زمانہ تا قیامت ہے پس ہر زمان کا مسلمان امام وقت کی صحیح معرفت حاصل کر کے جہالت کی موت سے بچ سکتا ہے اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ جناب رسالت مآب کے بعد جب تاقیام قیامت نئے نبی نے آنا نہیں تو کم ازکم حضور ﷺکے بعد قیامت تک کی کثیر التعداد امت اسلامیہ کے لئے ہر زمانہ میں ایک ہادی دحجت خدا کا وجود تو ہو ، جو امت کے لئے سہارا بن سکے اور اس سوال کا حل سوائے شیعی عقیدہ کے اورکسی فرقہ کے پاس نہیں مل سکتا۔

علامہ حالی نے بارہ خلفا والی حدیث صحیح بخاری صحیح مسلم اور ابو داؤد سے نقل کی ہے اور سچی بات ہے کہ جمہور اہل اسلام اس حدیث کو دیکھ کر شش و پنج میں پڑجاتے ہیں نہ آبائی عقیدے کا جو ان کی گردن سے نکلتا ہے نہ اس کی صمت سے انکار ہو سکتا ہے اور نہ اس کی کہیں تطبیق ہوسکتی ہے۔

اس حدیث کو پڑہ کر فضل بن روزبہان نے یہ تو کہ دیا کہ حدیث صحیح ہے اور کتب صحاح میں وارد ہے لیکن اس کے مصداق کی تلاش می وہ بھی مارا مارا پھرتار ہا لیکن ناکامی و نامرادی نے ساتھ نہ چھوڑا۔ آخر کہنے لگا اس سے مراد یہ لی جاسکتی ہے کہ قریش سے ہونے والے صالح خلفاء کی تعداد بارہ ہو گی ۔ان میں سے پانچ تومیں خلفائے راشدین ابوبکر عمر عثمان علی و حسن چھٹا عبداللہ بن زبیر ساتواں عمر بن عبدالعنریز نے ۔ اور پانچ خلفائے بنی عباس میں سے ہوں گے گویاحدیث میں قریش کے بارہ صالح خلیفوں کا ذکر ہے۔اس کے بعد کتا ہے ۔ اس حدیث سے اگر بارہ امام مراد لئے جائیں جو شیعہ کہتے ہیں تو اگر خلافت سے مراد وراثت علم ومعرفت، بیان محبت اور قیام منصب نبوت مراد ہو تو اس کی صحت سے کوئی انکار نہیں اور یہ معنی درست ہے لیکن اگر خلافت سے مراد زمامت کبریٰ اقتدار حکومت ہو تو یہ درست نہیں کیونکہ اقتدار بارہ میں سے صرف دو کو (علی و حسن ) کو حاصل ہوسکا ہے۔اور اس سے صاف معلوم ہے کہ دور رسالت کے بعد دینی قیادت حضرت علی سے لے کر حضرت مہدی علیہم السلام کے پاس رہی اور اقتدار حکومت پہلے خلفاثلالہ کے پاس تھا پھر اموی حکرانوں کے قبضہ میں رہا اس کے بعد سلاطین بنی عباس اس پر قابض ہوئے اور پھر جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ سیاسی قیادت اہلبیت و نا اہلیت کے معیار سے نہیں ہوتی مگر اس کے لئے مخصوص اسباب و ذرائع ہوتے ہیں اور مختلف حیلے بہانے ہوتے ہیں کبھی ایک ذریعہ سے ایک شخص کامیاب ہو جا تا ہے لیکن وہی ذریعہ دوسرے کے لئے ناکامی کا باعث بن جا تا ہے ۔ اسی طرح کبھی ایک حیلہ ایک کے لئے مفید ثابت ہوجاتا ہے لیکن دوسرے کے لئے وہ نقصان دہ بن جاتا ہے بہرحال اقتدار پر قبضہ مختلف ذرائع واسباب کے ماتحت قوموں میں مقیم ہوتا چلا گیا ہے اور یکے بعد دیگرے قومیں اور افراد ایک دوسرے کے وارث چلے آرہے ہیں اور اقتدارکبھی شخصی کبھی جمہوری کبھی آمریت اور کبھی ملوکیت کے مختلف رنگوں میں ڈھلتا ہوا چلا جا رہا ہے اور ہرکہ آمد عمارت نو ساخت کے کلیے کے ماتحت نہ حکومت کو بقا ہے اور یہ قانون کی پاسداری حاصل ہے۔ صرف اللہ کی حکومت باقی ہے اور اس کا قانون پا ئدار ہے جب اللہ اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا تو قانون الہی کو برتری حاصل ہو گی اور زمین کی حکومت اللہ کے نیک بندوں کے ہاتھوں میں ہو گی اور حضرت مہدی علیہ السلام کی آمداور ان کا دورتمام اہل اسلام کے لئے امیدوں کی آخری قرارگا ہ ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں