خُمس کا بیان
قرآن مجید کی رُو سے خمس چونکہ
غنیمت پر واجب ہے لیٰذا سب سے پہلے غنیمت کا مفہوم سمجھنا ضروری
ہے نعت کے اعتبار سے غنیمت
کا اطلاق ہر اس فائدہ پر ہوتا ہے جو انسان کو حاصل ہو جیسا کہ مجمع البحرین" سے منقول ہے۔ الغنیمتہ فی الاصل ھی الفائدۃ
المکتسبۃ یعنی غنیمت
نعت میں ہر اس فائدہ کو کہتے ہیں جو کمایا جائے مقنعہ میں شیخ
مفید سے منقول ہے الغنائم کلما
استفید بالعرب من الاموال وما استفید من المعادن والغوص الکنوز
الغیر وکلما فضل عن ارباح التجارات
والزّراعات والصّنا عات من المومنۃ والکفایتہ
طول السنتہ علی الاقصاد یعنی
غنایم ہر وہ مال جو لڑائی سے حاصل ہو اور وہ ہر چیز جو کانوں ،
خزانوں اور غوطہ زنی سے حاصل ہو اور عنبر
اور ہر وہ چیز جو تجارت ، کھیتی باڑی اور کریگری کے منافع
سے سال بھر کے متوسّط طور پر
اخراجات خانگی سے بچ جائے۔ علّامہ طبرسی نے مجمع البیان" میں فرمایا ہے کہ علمائے امامیہ کے نزدیک خمس ہر
فائدہ پر واجب ہے جو کسی کاریگری کے زریعی
سے حاصل ہویا تجارت سے اور خزانوں ، کانوں او ر غوص یعنی غوطہ سے حاصل شدہ اشیاء پر بھی خمس واجب
ہے اور اسی آیت مجیدہ سے اس مطلب
پر استہ لال کیا جاسکتا ہے کیونکہ عرف نعت میں ان تمام چیزوں کو غنیمت کہا
جاتا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
نےاسی آیت مجیدہ کی تفسیر میں فرمایا ہے۔ ھی واللہ الاافادہ یوما بیوم یعنی
غنیمت خدا کی قسم روز مرّہ کے کسب کا نام ہے۔ بروایت سماء امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا لوگ جو کچھ بھی کمائیں خواہ کم ہو یا زیادہ سب پر
خمس واجب ہے۔