التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

دینی قیادت | deni qiyadat | khilafat o malookiat

دینی قیادت | deni qiyadat | khilafat o malookiat

دینی قیادت | deni qiyadat | khilafat o malookiat

دینی قیادت | deni qiyadat | khilafat o malookiat


ابتدائی دور میں دینی قیادت اور سیاسی قیادت میں فرق کرنا اس لئے بھی مشکل تھا کہ اہل اسلام کی اکثریت جناب رسالت مآبﷺ کی تربیت یافنہ ہونے کی حیثیت سے کم و بیش آمدہ مسائل میں وہ ایک ہی جماعت کے متعللمین کی طرح بعض اوقات ایک دوسرے سے مدد لے کر کام چلالیتے تھے اور حکومت وقت بھی نبوی تعلیم اور اسلامی اخلاق و کردار سے کسی حد تک متاثر تھی اس لئے انہوں نے اپنے دور اقتدار میں اسلامی آئین کو ہی سرکاری قانون کی حیثیت دی وہ صوم وصلٰوت کے خود بھی پابند تھے اور رعایا پر بھی صوم وصلوٰۃ کی پابندی کو ضروری قراردیتے تھے اور اس سلسلہ میں وہ باز پرس بھی کرتے تھے مقدمات کا فیصلہ بھی ان کے دور میں اسلامی قوانین کی رو سے ہوتا تھا اور سزائیں بھی تعزیرات اسلامیہ کے تحت میں دی جاتی تھیں اور جہاں حکامت وﷺت کسی مقدمہ کے فیصلہ میں اسلامی نقطہ نظر کو نہ جان سکتی تھی اور باہمی مشورہ سے بھی اس کے حل کرنے میں کامیاب نہ ہوتی وہاں حضرت علی علیہ السلام سے مشکل کشائی کی درخواست کی جاتی پس آپ حقیقی دینی قائد ہونے کی حیثیت سے اس کو حل فرمادیتے اور اس قسم کے فیصلوں سے ہی حقیقت بین نگاہیں تاڑلیتی تھیں کہ دینی قائد لون ہے اور سیاسی قائد کون ہے؟

حکومت وقت نے چونکہ زمانہ پیغمبر ﷺ کے قرب کی وجہ سے اسلامی آئین کو ہی سرکاری قانون قراردے دیا تھا لہٰذا عوامالناس کو یہ تاثر دلایا گیا تھا کہ یہی قیادت صرف دیاسی ہی نہیں بلکہ دینی قیادت بھی ہے اور جناب رسالت مآب ﷺ کے ہر حیثیت سے نائب ہونے کا حق بھی انہی کو حاصل ہے پس وہ خلیفہء ڑسول ﷺ اور امیرلامومنین کے القاب سے بھی خطاب کئے جاتے تھے لیکن حضرت علی علیہ السلام نے ان کی سیاسی قیادت کو تسلیم کرنے کے باوجود کبھی ان کی دینی قیادت کو تسلیم نہ کیا اور نہ آپ ان کو اس منصب کے اہل سمجھتے تھے اور روبرو کی باتوں میں جب حضرت علی علیہ السلام نے دینی و سیاسی ہر وہ قیادتوں کا اہل اپنے آپ کو ثابت کیا تو انہوں نے اپنے لئے نہ ہر قیادت کی اہلیت کا خود دعویٰ کیا اور نہ سرکاری وکیل حضرت ابو عبیدہ ضرح نے ان کی اہلیت کا اعلان کیا بلکہ آپ کے دعوی کی تصدیق اتائید میں اس نے چند الفاظ کہے اور حضرت ابوبکر کی سن ردیدگی اور تجرنہ کاری کی بدولت ان کے حق میں تقدار کی بحلی کی سفارش کی جیساکہ الامامۃ والسیاست سے ہم نقل کرچکے ہیں۔

چونکہ حضرت علی نے حکمران طبقہ کی دینی قیادت کو آخر تسلیم کیا تھا اس لئے حکومت کی جانب سے ان کوسزا یہ دی گئی کہ ایک طرف ان کے املاک کوسرکاری طور پر ضبط کرلیا گیا جس کو فدک کہتے ہیں اس بہانے سے کہ رسول اللہ کا مال مال سرکارہے اور وہ اسلامی بیت المال کا حصہ ہے کیونکہ نبیوں اور رسولوں کا کوئی وارث نہیں ہوا کر تا ۔ اور دوسری طرف ان کو حکومتی کاروبارمیں شریک نہ کیاگیا نہ داخلی ا مور میں اور نہ خارجی معاملات میں۔

آپ کی جنگی صلاحیتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھیں تاہم ان سے حکومت وقت نے کسی معاملہ میں سرکاری طور پر کام لینا مناسب نہ سمجھا اور انہیں پچیس سالہ دور حکومت میں گھر کی چار دیواری میں خاموشی کی زندگی گذارنے پر مجبور کر دیاگیا اور اس کا پس منظر اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ اگر حضرت علی کی عملی وعمل دینی وسیاسی نظامی ومعاشی اور فوجی و جنگی صلاحیتوں اور سرگرمیوں کو برئے کار لانے کا ر لانے کا موقعہ دیا جاتا تو پہلا مرحلہ اگرچہ تجہیز و تکفین پیغمبر میں مصروفیت کی اجہ سے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ لیکن دوسرے مرحلہ میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ حضرت علی کے علاوہ کوئی وسرا آدمی برسراقتدار ہوسکتا بلکہ آپ کی صلاحیت و استعداد کے پیش نظر دینی قیادت تو پہلے سے ہی تھی سیاسی قیادت خودبخود آپ کے قدموں میں جھک جاتی اور مسلمانوں کے لئے ان کی قیادت کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہوتا جس طرح عثمان کی وافات کے بعد سیاسی قیادت خودبخود علی کے قدموں میں جھکی اور مسلمانوں کے لئے ان کی قیادت کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔

علامہ علی اعلی اللہ مقامہ ، نے احقاق الحق میں حضرت علی علیہ السلام کی خلافت بالا فصل پر آیات واحادیث کی رو سے بہت کچھ مواد پیش فرمایا ہے اور آپ نے مسند احمد بن جنبل سے حدیث اصیت بھی خلافت علی کے استدلال میں ذکر کی ہے سلمان نے رسولﷺ اللہ سے دریافت کیا کہ حضور آپ کا وصی کون ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا اے سلمان میرے بھائی موسیٰ کا قصی کون تھا؟ سلمان نے جواب دیا کہ یوشع بن نون تو آپ نے فرمایا میرا وصی اور وارث جو میرے قرضے بھی ادا کرے کا اور میرے وعدوں کی بھی ایفا کریگا وہ علی بن ابی طالب ہے۔

اس کے جواب مین فضل بن روزبہان متعصب مزاج سنی العقیدہ اپنی کتاب ابطال الباطل میں لکھتا ہے۔

عربک

اَلَوْ صیُّ قَدْ یُقَالُ وَیُرَادبِہ من اُصِیَ لَہٗ بِالْعِلْمِ وَلْھِدایَۃ وَ حِفْظِ قَوَانِیْنَ الشَّریْعَۃ وَتَبْلیْغ الْعِلمِ وَاْلمَعرِفَۃ فَاِنْ اُرِیْدَ ھٰذَا مِنَ اٰلوَصِیِْ نَمُسَلَّمٌ اِنَّہٗ کَانَ وَصِیًّا الِرَسولِ اللہ وِلا خلافَ نِیْ ھٰذَا وَاِنْ اُرِیْدَ الْوصیّۃُ بالْخِلاَ فَۃِ فَقَدْ ذَکَرٌنَا بِالدَّ لاَ یُلِ الْعَقْلِیَّۃِ وَ النَّفْلِیَّۃ عَددْمُ النّصِّ فِی خَلافَۃِ عَلیٍّ وَلَوْ کَاْنَ نَصًّا جَلِیًّا لَمْ الصَّحَابَۃَ وَانْ خالَفُوْن الَمْ یُطعْھُمْ الْعَسَاکِرْوَ عَامَۃٌ الْعَرَبِ سَیِّما الْانْصَار۔

ترجمہ "بعض اوقات وصی بول کر اس سے مراد لیا جاتا ہے وہ جس کو علم مدایت، حفظ قوانین شریعت اور تبلیغ علم ومعرفت کے لئے وصیت کی گئی ہو پس اگر وصی سے یہ معنی مراد ہو تو مسلم ہے کونکہ آپ اس معنی میں رسول اللہ کے ولی تھے اور اس میں کسی کوکوئی اختلاف نہیں لیکن اگر وصیت خلافت مرا د ہو تو ہم بیان کر چکے ہیں دلائل عقلیہ و نقلیہ کی روشنی میں کہ خلافت علی پر کوئی نص نہیں ہے ورنہ اگر نص چلی ہوتی توصحابہ مخالفت نہ کرتے اور اگر صحابہ مخالفت کرتے بھی تو فوج اور عوام خصوصاؐ انصار قطعاؐ ان کا ساتھ نہ دیتے )۔

اس سے صاف معلوم ہواکہ جھمور اہل اسلام کے نزدیک بھی حضرت علی کی قیادت علمیہ و دینیہ مسلم تھی اور جونصوص شیعہ کی طرف سے حضرت علی کی خلافت بالا فصل پر پیش کی جاتی ہیں سنی علمائ کے بزدیک اس سے مراد قیادت وینیہ ہے اور اس کے سربراہ حضرت علی تھے اور خلافت بمعنی سیاسی قیادت کے سربراہ حضرت ابوبکر تھے اور شیعانِ علی اس کا انکار نہیں کرتے۔

ایک تبصرہ شائع کریں