التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

جمہُوریّت اور جمہُور اہل اسلام | Jamhoriat aur jamhor -e-ahle islam | khilafat o malookiat

جمہُوریّت اور جمہُور اہل اسلام | Jamhoriat aur jamhor -e-ahle islam | khilafat o malookiat

 

جمہُوریّت  اور جمہُور اہل اسلام

JAMHORIAT AUR JAMHOR AHAL ISLAM

جمہُوریّت  اور جمہُور اہل اسلام | Jamhoriat aur jamhor -e-ahle islam  | khilafat o malookiat


اسلام کے فرقوں میں نظریاتی اختلافات ناقابِل انکار ہیں جو مذہب کی حیثیت سے رونما ہوئے ۔ اور جن کا اسلامی تعلیمات کے ساتھ جسم و جان اور روح قالب کا ساتعلق ہے کیونکہ جہاں وہ فرعی اعمال پر اثر انداز ہیں وہاں عقائد و اُصول میں بھی اُن کو بنیادی حیثیت  حاصل ہے اس جگہ ہم سابقہ ابحاث کی روشنی میں فرقہ وارانہ ان بنیادی خطوط کی نشان دہی کرتے ہیں جن پر مذہب کی بنیاد رکھی گئی۔ پہلے ہم جمہوریت کے خطوط کی تعین کرتے ہیں جن پر جمہور اہل اسلام نے مذہب کی بنیاد رکھی گئی۔ پہلے ہم جمہوریت کے خطوط کی تعین کرتے ہیں جن پر جمہور اہل اسلام نے مذہب کے طور پر ان کو اساسی حیثیت دے دی۔

(1)           جو شخص جمہُوریت کے نام سے الیکشن جیت لے وہ اقتدار ِ اعلیٰ  کا قانونی و آئینی طور پر مالک ہے ۔

الف ۔   خواہ حضرت ابوبکر کی طرح نہ عام انتخاب کا اعلان ہو نہ مقابل میں کسی اُمیدوار کو کھڑے ہونے کا مومعہ دیا جائے بس سوچی سمجھی اسکیم کے ماتحت ایک آدمی دوسرے کا نام اچانک تجویز کر کے اس کی بیعت کر لے اور پھر دوسروں کو اس کی بیعت کرنے کی دعوت دے دے اور اس طریق کار کو اپنے لئے جائز قرار دے کر دوسروں کے لئے خلاف ِ آئین  قرار دے دے۔

ب۔     یا حضرت عمکر کی طرح سربراہِ مملکت تمام مسلمانان عالم کے اختیارات  انتخاب کو اپنے قبضہ میں لے کر اپنے جانشین کو نامزد کرے پھر اپنے وسیعہ کی بیعت کیلئے تمام امت کو اپنی موجودگی میں اور اقتدارِ اعلیٰ کے سائے میں دعوت دے دے۔

ج۔      یا حضرت عثمان کی طرح کہ سابق حکمران  تمام رعایا کے اختیارات ِ انتخاب سلب کر کے ایک خاص کمیٹی کے حوالے کردے  اگر چہ اس کمیٹی کے بعض ممبران کے متعلق اُسے حد یقین تک یہ خطرہ ہو کہ اس میں خویش نوازی اَور کنبہ پروری کا جذبہ کار فرما ہے اور باقی تمام اُمت پر ان ہی کے فیصلے کو تسلیم کرنا  واجب قرار دے دے۔

اس سلسلے میں جمہور اہل اسلا م اور سواد اعظم کا مذہبی نقطہ نظر یہ قرار پایا کہ طرق مذکورہ سے اقتدار پر قبضہ کرنے والا نائب رسول ہوگا اور اس کی اطاعت خداو رسول کی اطاعت کی طرح فرض ہوگی اور اس کا انکار منافی اسلام ہوگا۔

(2)      جمہوریت میں معیار انتخاب کوئی نہیں ہوتا کیونکہ ہر فرد مملکت کو مساوی حقوق حاصل ہوتے ہیں پس الیکشن کےلئے کھڑے ہونے والے متعدد اُمیدواروں میں سے جو بھی جیت جائے  ۔ وہ یہ دعوی کرتا ہے کہ اس مملکت کے صدر میں ضروری  ہیں اور اس کی پارٹی ایڑی چوٹی کا زور اسی بات پر صرف کرتی ہے کہ انتخاب بالکل برمحل ہوا ہے اور منتخت ہونے والا اُمیدوار ہی ملک و ملت کے لئے زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے ۔ اور کرسی اقتدار سنبھالنے والا انسان اگر ڈکٹیٹر مزاج ہو تو وہ اپنے خلاف کوئی آواز سننا گوارا ہی نہیں کرتا بلکہ مخالف گروپ کے اظہار خیالات پر پابند ی عائد کردیا کرتا ہے نیز بوقت انتخاب خواہ کتنی ہی دھاندلی کو بروئے کا ر لایا گیا ہو اپنی سیاست کی ساکھ کو برقرار رکھتے ہُوئے اور عوام  میں اپنی مقبولیت کو بڑھاتے ہُوئے یہ فقرے صرف عامہ الناس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اور اختلاف رائے رکھنے والوں کا دل جلانے کے لئے تقاریر میں بیان کئےجاتے ہیں  کہ عوام نے میرے اُوپر بہت بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دیا ہے۔ جس کا میں اہل نہیں ہو ں لیکن اب عوام کے جذبات کو ٹھکرانا پسند نہ کرتے ہوئے میں طوعاوکربا سندِ اقتدار پر قدم رکھے ہُوئے ہوں"

بعینہ اسی طرز عمل پر وفات پیغیر صہ کے بعد جمہوری اسلامی حکمرانوں نے اقتدار پر قبضہ کیا اور پارٹی نے ان کے متعلق اس پروپیگنڈے کو خوب ہوا دی کہ وہ ہی سب اُمت سے لائق تھے اور وہِی معیار انتخاب پر  پوری طرح فائز تھے اور حضرت عمر نے تو صاف فرما دیا تھا کہ اگر ہم اس بے قاعدگی اور جلد بازی سے بغیر مشورے کے الیکشن کو کامیاب نہ کرو الیتے تو راتوں رات کوئی اور قدم اٹھا یا جاتا اور اقتدار کسی دوسرے آدمی کے ہاتھ میں اجاتا جس کو نہ ہم قبول کر سکتے اور نہ روکرنا ممکن ہوتا ۔ خلافت و ملوکیت کے 84پر اسی مطلب کی ایک عبارت درج کی گئی ہے بس جمہُوراہل اسلام نے اسی کو پنا دین بنا لیا اور اختلاف رائے رکھنے والوں کو زبردستی اپنا ہم خیال بنانے کا لائحہ عمل مرتب کیا گیا جس پر حسب ِ مواقع سختی سے عمل ہوتا رہا اور آ ج تک سوادِ اعظم کے پڑھے لکھے اور محقق طبع آدمی بھی شیعوں کی نہ بات سننے پر تیار ہیں اور نہ ان کی کتابیں پڑھنے کے لئے حاضر ہیں کیونکہ وہ اپنے خیال کے مخالف دوسری آواز کا سننا ہی گوارا نہیں کرتے اور تصویر کا صرف ایک رُخ دیکھ کر وہ اپنے عقیدہ پر مطمئن ہیں حتی کہ مودودی صاحب جیسا آدمی بھی ماخذ کی بحث میں اپنا نظریہ اسی قسم کا ظاہر کر چکا ہے۔

(3)      جمہوریت میں معیار کامیابی نہیں بلکہ کامیابی معیار حق ہے اِسی طرح لیاق و فضیلت جیت کا معیار نہیں بلکہ جیت لیاقت و فضیلت کا معیار ہے اسی بنا پر سوار ِ اعظم کے نزدیک جنگ اقتدار  جیت جانے والے تمام اُمّت سے افضل قرار روئے گئے اور ان کی فضیلت کی وہی ترتیب قائم کی گئی۔

جس ترتیب سے وہ جیت کر مسند اقتدار پر متمکن ہُوئے۔

(4)      جمہوریت میں کامیاب امیدوار وں کی ہر لغزش و غلطی پر پردہ ڈالنا ان کی پارٹی کا فریضہ ہوتا ہے حتی کہ اُن کے متضاد و نظریات وافکار اور متخالف اقوال و افعال کا لیپ پوت سے ان کا بھرم رکھنا وہ ضروری سمجھتے ہیں چناچہ سوادِ اعظم کے عقائد کا جزواعظم یہ بات قرار پاگئی کہ صحابہ میں سے کسی پر نتکہ چینی کرنا خلاف اسلام ہے حتی کہ متحارب گروہوں میں سے بھی ہر ایک کا احترام واجب اور ان کی صحابیت کا شرف ناقابل زوال اور ان کی بزرگی کے خلاف زبان کھولنا حرام ہے اور لُطف یہ کہ ایک فریق کو حق کہتے ہُوئے بھی دوسرے کو ناحق نہیں کہنا ایک کو امام حق کہنے کے باوجود دوسرے کو باغی کہ کر بھی اُن سے بیزاری کرنا حرام سمجھتے ہیں گو یا حق و باطل دونوں سے برابر کی محبت رکھتے ہیں اسی طرح ایک کو صحیح کہنے کے باوجود دوسرے کو غلط نہیں کہنا اور اگر غلط کہنا بھی ہے تو اجتہادی غلطی کے دامن میں اس کو چھپانے کی کوشش کرنی ہے اور اگر اجتہادی غلطی کہنے کا کوئی امکان نہیں تو نظریاتی غلطی کہ کر اُسے قابل عفو ٹھہرانا ہے خواہ بیچ میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں بلکہ بدری و بیعت رضوان میں شریک صحابہ ہی کو تہ تبغ کر دیا گیا ہو اور یہ عقیدہ قرار دینا ہے کہ قاتل و مقتول سب کے ہم برابر و فادار دوست اور محبّ ہیں۔

(2)      جمہوریت میں ضروری نہیں کہ افضل اُمت کا ہی انتخاب کا میاب ہو اسی بنا پر جمہور اہل اسلام نے اسلای عقیدہ یہ قرار دیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امام کے لئے ضروری نہیں کہ وہ تمام اُمت سے افضل ہو ۔ چنانچہ علامہ تفتازانی نے شرح عقائد نسفیہ میں اس امر کی تصریح کی ہے۔

(3)      جمہوریت میں ضروری نہیں کہ جس کا انتخاب کامیاب ہو وہ معصوم بھی ہو اسی بنا پر جمہوراہل اسلام نے اسلامی عقیدہ یہ تجویز کیا ہے کہ نبی علیہ السّلام کےخلیفہ اور امام اُمّت کے لئے معصوم ہونا ضروری نہیں ہے۔ (شرح عقائد نسفیہ)

(3)      جس شخص کو جمہور ی طرز حکومت کی بنیاد پر مسند اقتدار مل جائے ضروری نہیں کہ جس منشور کے ماتحت اسے کامیاب  کیا گیا تھا اور جن شرائط کے پیش نظر وہ اُمید وار کھڑا ہوا تھا۔ "کامیابی کے بعد اور اقتدار پر قبضہ کر لینے کے بعد وہ اس منشور پر قائم رہے اور ان شرائط کی ایفاکرے۔ اِسی بنا پر جمہور اہل اسلام نے بطور ِ عقیدہ اس بات کو اپنا لیا ہے ۔ لاینعرِل  الاِمامُ بِالفِسقِ اَے الخُرُوج  عَن طَاعَۃِ اللہ وَالجَورِ اَی الظلُمِ عَلیٰ عِبادِاللہ " فاسق ہو جانے سے اللہ کی اطاعت کے دائرے سے نکل جانے سے اور اللہ کے بندوں پر ظلم کرنے سے امام معزول نہیں ہوسکتا (شرح عقائد نسفیہ) اور چونکہ راہ جمہُوریت سے کامیاب ہونے والے برسر اقتدا ر حکمران طبقہ کو نیا بت ِ رسُول کا دعویٰ بھی تھا  اور نماز میں بھی ان کے پیچھے اقتدار ہوتی تھی پس جب وہ ظلم و فق سے معزول نہیں ہوسکتے تو اُن کو مصلا اور امامت مسجد سے بھی الگ نہیں کیا جا سکتا ۔ بنا بریں جمہور اہل اسلام نے اس بارے میں عقیدہ اسلامی یہ تجویز کیا ہے کہ تَجُوزُ الصَلوۃُ خَلفَ کُلِ برّوَفَاجِر وَفَاجر " نماز ہر نیک وبد کی اقتدار میں جائز ہے اور اس قسم کے فیصلے مقبول عام نہیں ہوسکتے تھے جب تک کہ ان کی سند جناب رسالت ماب تک نہ پہنچے لہٰذا بر سر اقتدار  پارٹی کے خوشامدی رواۃِ حدیث نے فاسق و فاجر حکمرانوں کی خوشنودی کی خاطر جناب رسول صہ اللہ پر اتہام لگا دیا کہ آپ نے فرمایا تھا صَلُّو اخَلفَ کُلِ بِرّ وَفَاجِرِ ۔ " ہر نیک و بد کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرو" مودودی صاحب الفقہ الاکبر سے امام ابو حنیفہ کا قول نقل کرتے ہیں " مومنوں میں سے ہر نیک و بد کےپیچھے نماز جائز ہے۔ 253 ادھر اُدھر جانے کی ضرورت نہیں "خلافتِ راشدہ ہی کو دیکھ لیجئے۔

مزید برآن چھ آدمیوں کی انتخابی شوری کے لئے انہوں (حضرت عمر ، نے جو ہدایات چھوڑیں ان میں دوسری باتوں کے ساتھ ایک بات یہ بھی شامل تھی کہ منتخب خلیفہ اس امر کا پابند رہے کہ وہ اپنے قبیلے کیساتھ کوئی امتیازی برتاؤ و کرے گا مگر بدقسمتی سے خلیفہ ثالث حضرت عثمان  اس معاملے میں معیار مطلوب کو قائم نہ رکھ سکے  (خلافت و ملوکیت 99)

علاوہ بریں مسند خِلافت سنبھالنے اور اقتدار  پر قبضہ کر لینے کے بعد پہلے خطبہ میں حضرت عثمان نے خود اپنے جس دستور العمل کا اعتراف اور وعدہ کیا وہ اس پر بھی ثابت قدم نہ رہے چناچہ مودودی صاحب قمطراز  ہیں۔سنو میں پیروی کرنے والا ہوں ۔ نئی راہ نکالنے والا نہیں ہوں۔ جان لو کہ کتاب اللہ اور سنُت ِ رسول اللہ کی پیروی کرنے کے بعد تین باتیں ہیں جن کی پابندی کا میں  تم سے عہد کرتا ہوں ایک یہ کہ میری خلافت سے پہلے تم نے باہمی اتفاق سے باقاعدے اور طریقے مقرر کئے تھے ان کی پیروی کروں گا۔ دوسرے یہ کہ جن معاملات میں پہلے کوئی قاعدہ مقرر نہیں ہوا ہے ان میں سب کے مشورے سے اہل خیر کا طریقہ مقرر کروں گا تیسرے یہ کہ تم سے اپنے ہاتھ روکے رکھوں گا جب تک کہ تمہارے خلاف کوئی کاروائی کرنا قانون کی رُو سے واجب نہ ہوجائے۔93۔

سُنتِ رسول اللہ کی پیروی یہ کی کہ مردان کے باپ حکم بن ابی العاص طرمد رسول کو واپس دینے میں بلالیا چنانچہ مودودی صاحب حضرت عثمان کی خویش نوازی کی افسوس ناک داستان میں رقمطراز ہیں۔

اس معامعلہ میں مثال کے طور پر مردان بن الحکم کی پوزیشن دیکھئے ۔ اُس کا باپ حکم بن العاص  جو حضرت عثمان کا چچا تھا فتح مکہ کے موقع پر مسلمان  ہوا تھا اور مدینہ آکر رہ گیا تھا مگر اس کی بعض حرکات کی وجہ سے رسول اللہ صہ نے اُسے مدینے سے نکال دیا تھا اور طائف میں رہنے کا حکم دیا تھا۔۔ الخ جب حضرت ابوبکر خلیفہ ہوُئے تو اُن سے عرض کیا گیا کہ اسے واپسی کی اجازت دیں مگر اُنہوں نے انکار کر دیا۔ حضرت عمر کے زمانہ میں بھی اُسے مدینہ آنے کی اجازت نہ دی گئی حضرت عثمان نے اپنے خلافت کے زمانہ میں اس کو واپس بلالیا ۔ اس کی وجہ یہ بیان کی کہ میں نے رسول اللہ سے اس کی سفارش کی تھی اور حضور نے مجھ سے وعدہ فرما لیا تھا کہ اُسے واپسی کی اجازت دے دیں گے۔

یہ نہیں کہ انہوں نے واپس بلالینے کی اجازت بھی دی تھی ۔ کیونکہ اگر آپ نے اس کی واپسی کی اجاز ت دی ہوتی تو حضرت ابوبکر و حضرت عمر کے سامنے حضور صہ کا اجازت نامہ پیش کر کے اس کو ان کے زمانوں میں واپس بلا یا جاسکتا تھا کیونکہ اجازت نامے کے ہوتے ہُوئے یقیناًوہ دونو اسے واپس آنے کی اجازت دے دیتے ۔ پس پہلے دونو حکمرانوں کا باوجُود اصرار کے اجازت نہ دینا اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ آپ صہ نے اجازت نہیں دی تھی ۔ آگے چل کر لکھتے ہیں۔

اس طرح یہ دونو باپ بیٹا طائف سے مدینے آگئے ۔ مروان کے اس پس منظر کو نگاہ میں رکھا جائے تو یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس کا سیکرٹری کے منصب پر مقرر کیا جانا لوگوں کو کسی طرح گوارا نہ ہوسکتا تھا لوگ حضرت عثمان کے اعتماد پر یہ تو مان سکتے تھے کہ حضور صہ نے ان کی سفارش قبول کر کے حکم کو واپسی کی اجازت دینے کا وعدہ فرما لیا ہو (نہ کہ واپسی کی اجازت بھی دے دی ہو) اس لئے اس کا واپس بلالینا قابل اعتراض نہیں ہے (یقیناً قابل اعتراض ہے کیونکہ اجازت نہیں دی تھی ورنہ حضرت ابوبکر و عمر ضرور اجازت دے دیتے ) لیکن یہ مان لینا لوگوں کے لئے سخت مشکل تھا کہ رسول صہ اللہ کے اس معتوب شخص کا بیٹا اس بات کا بھی اہل ہے کہ تمام اکابر صحابہ کو چھوڑ کر اسے خلیفہ کا سیکریٹری بنا دیا جائے خصوصاً جب کہ اس کا وہ معتوب باپ موجود تھا اور اپنے بیٹے کے ذریعے سے حکومت کے کاموں پر اثر انداز ہوسکتا تھا۔

دوسرے مقام پر آپ تحریر فرماتے ہیں۔

محض قابلیت  اس بات کے لئے کافی دلیل نہ تھی کہ خراساں سے لے کر شمالی افریقہ تک کا پُورا علاقہ ایک ہی خاندان کے گورنروں کی ماتحتی میں دے دیا جاتا اور مرکزی سیکرٹرٹیٹ پر بھی اسی خاندان کا آدمی مامور کر دیا جاتا۔

اب ان تاریخی حقائق کو سامنے رکھ کہ یہ بات کھل کر سامنے آجاتے ہے کہ جن شرائط کے ماتحت حضرت عثمان کو مجلس شوریٰ کا ممبر بنایا گیا اور جس منشور کی بدولت انہیں مسنداقتدار پر پہنچا نصیب ہوا اور جن جن اُمور کی رعایت کا انہوں نے اپنے خطبہ میں وعدہ کیا اُن کی کس طرح دھجیاں اڑائیں اور اس موقف پر وہ ثابت قدم رہنے میں کس طرح ناکام ہُوئے ۔ جناب مودودی صاحب نے 99 پر لکھے لفظوں میں اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ وہ معیارِ مطلوب کو قائم نہ رکھ سکے لیکن آبائی مسلک کی لاج رکھتے ہُوئے لیپ پوت کا فریضہ 322 پر اس طرح انہوں نے ادا فرمایا۔

صلہ رحمی کے شرعی احکام کی تاویل کرتے ہُوئے حضرت عثمان نے بحیثیت خلیفہ اپنے اقر باء کے ساتھ جو سلوک کیا اس کے کسی جز و کو بھی شرعاً ناجائزنہیں کیا جاسکتا ۔۔۔۔اس سلسلہ میں حضرت عثمان پر لازم اور خلاف ورزی ناجائز ہوتی۔322۔

            لیجئے حضور مودودی صاحب نے اس لیپ پوت سے حضرت عثمان کی غلطی کی پر پردہ ڈالتے ڈالتے خلافتِ راشدہ کی پُوری عمارت کو منہدم کر کے رکھ دیا۔ اگر حضرت عمر کا قول حضرت عثمان کے لئے شریعت نہیں اور اُس کی خلا ف ورزی ناجائز نہیں تو باقی تمام اُمت اسلامیہ پر حضرت عثمان کے لئے شریعت نہیں اور اُس کی خلا ف ورزی ناجائز نہیں تو باقی تمام اُمت ِ اسلامیہ پر حضرت عمر کا قول و فعل کیسے شریعت بن گیا اور اس کی خلاف ورزی کیسے ناجائز ہوگئی ؟ جب بقول خودش حضرت ابوبکر کی خلافت کی تجویز حضرت عمر نے (بغیر کسی مشورے کے اور بغیر کسی شرعی نص کے) از خود پیدا کردی ۔ اور پھر بیعت کرلی اور لوگوں سے بھی کرالی تو وہ شرعی خلیفہ کیسے بن گئے اور اس کی خلافت کا عقیدہ شرعی عقیدہ کیسے بن گیا؟ اس طرح جب ان کا قول بعد والے خلیفہ کے لئے شیریعت نہیں تو وہ خود شرعی خلیفہ کیسے ہیں نیز ان کی قائم کردہ مجلس شوری کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ پھر شیعانِ علی پر ناراضگی کس لئے ہے جب کہ وہ ان کی حکومتوں کو صرف طوکیت تسلیم کرتے ہیں اور ان کو شرعی طور پر خلیفہ رسول نہیں مانتے ؟ بہر حال جمہوری سلطنت کو اسلامی خلافت کا نام دے دینے کے بعد اس قسم کی اُلجھنوں سے گلو خلاصی کے لئے یہ عقیدہ اسلامی عقیدہ کی حیثیت سے ماننا پڑا کہ خدا کی مخالفت اور عباداللہ پر ظلم کی بدولت امام معزول نہیں ہوسکتا اُدھر اسی امامت کے عہدہ کے متعلق خداوند کریم کا اشاریہ ہے لَاَیَنَالُ عہدِی الظّالِمِینَ" کہ میرا عہد (عہدہ امامت ، ظالموں کو نہیں پہنچ سکتا"خلیفہ کے خلاف شورش اور شورشیوں کے مطابلہ معزولی کو خلافِ قانون قرار دیتے ہُوئے فرماتے ہیں۔

اگر شکایت رفع نہ بھی ہوئی تو شرعا اس کی بنا پر خلیفہ کے خلاف بغاوت کر دینے اور اس کی معزولی کا مطالبہ کرنے کا قطعاً کوئی جواز نہ تھا لیکن یہ لوگ ان کی معزولی پر اصرار کرنے لگے حالانکہ ساری دنیا ئے اسلام کے خلیفہ کو صرف بصرہ وکوفہ ومصر کے دوہزار آدمی جو خود اپنے علاقوں کے نمائندے بھی نہ تھے معزول کرنے یا اس سے معزولی کا مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہ رکھتے تھے۔118۔۔۔

یہ حق انہیں ہرگز نہ پہنچا تھا کہ اہل حل وعقد نے اُس وقت کے دستُور ِ اسلام کے مطابق جس شخص کو خلیفہ بنایا تھا اور جسے دنیا کے سب مسلمان خلیفہ مان رہے تھے اس کے خلاف یہ چند آدمی  بغاوت کر دیتے اور کسی نمایندہ حیثیت کے بغیر محض اپنے اعتراضات کی بنیاد پر اس کی معزولی کا مطالبہ کرتے۔118۔

ان کی عبارت پر غور کرنے سے یہ سوالات ضرور ہر ناقد بصیر انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔

(1)           جو شخص صرف مقامی چھ آدمیوں کی شوریٰ سے تمام دنیا ئے اسلام کا خلیفہ بن سکتا ہے وہ بصرہ و کو ذو مصر یعنی اطرافِ مملکت سے چُنے ہُوئے دوہزار انسانوں کے مطالبہ سے کیوں معزول  نہیں کیا جا سکتا؟

(2)           خلیفہ کی اقرباء نوازی اور اُن میں سے بعض کی نااہلیت کی شکایات جب عام تھیں اور لوگوں میں اضطراب کی اچھی خاصی لہردوڑ چکی تھی تو کیا کوفہ و بصرہ و مصر سے اتنا دُور دراز کا سفر طے کر کے مقامی شکایات دارلحکومت تک لے جانے کے لئے علاقائی نمایندگی حاصل کئے بغیر وہ دوڑ آئے تھے؟ کیا یہ شکایت لانے والے اپنے اپنے علاقوں کے چند نا عاقبت فہم اور اَن پڑھ گڈریے تھے جنہیں اتا ہوش بھی نہ تھا کہ دارالحکومت کی طرف مطالبات لے جانے کے لئے علاقائی نمائندگی کی سَند بھی ضروری ہوتی ہے؟

(3)           کیا اسلامی جمہُوریت کا تقاضا یہی ہے کہ جمہُوری حکمران اگرچہ کنبہ پر وری کرتا ہو ۔ خدا کی اطاعت سے باہر ہوجائے۔ نا اہل افسر مقرر کر کے ان کو لوگوں کی گرد نوں پر سوار کردے کہ وہ لوگوں ظلم و ستم کے پہاڑ گراتا رہے تاہم نہ وہ معزول ہوسکتا ہے اور نہ اُسے معزول کیا جا سکتا ہے؟ بلکہ عوام کو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ اس سے معزولی کا مطالبہ کریں تاکہ خوشگوار انقلاب رونما ہوکر امن وسکون بحال ہوسکے؟

(4)           تنہا شورشی نہ تھے بلکہ مدینہ کے اہل حل و عقد جن کو خلیفہ سازی کا اختیار حاصل تھا۔ ان کی اکثریت بھی ان کے ہمنوا تھی جس کا مودودی صاحب مختلف مقامات پر اعتراف بھی کر چکے ہیں۔ تو ایسے حالات میں ان کو معزولی کے مطابلہ کا حق کیوں حاصل نہ تھا؟ بیر و نجات کے دوہزار نمایندوں کے علاوہ صحابی اور صحابی زادے اس تحریک میں شامل تھے 329 اکابر صحابہ خلیفہ سے ناراض تھے 329 حضرت طلحہ ۔ حضرت زبیر اور حضرت عائشہ بھی ناراض تھے 232 دالالحکومت (مدینہ) کی اچھی خاصی تعداد ان کے ہم خیال تھی 235 بلکہ صرف چار آدمیوں کے علاوہ کوئی ایک بھی خلیفہ کے حق میں زبان نہیں کھولتا تھا 330 حضرت علی بھی خلیفہ کی اصلاح سے مایُوس ہوگئے 232 اب انصاف سے فرمائیے کہ اگر باہر سے آنے والے شورشی بقول آپ کے نمایندہ  حیثیت نہیں رکھتے تھےچار آدمیوں کے سوا سب اہل مدینہ جو بقول آپ کے اس زمانے کے اہل حل وعقد تھے ان میں سے جب خلیفہ کی حمایت میں زبان کھولنے والا کوئی نہ تھا تو اس کا مثبت پہلو یہی ہے کہ وہ سب بیرونجات کے نمایندوں کے موید تھے جن کے مطالبات میں سے اہم مطالبہ خلیفہ کی معزولی کا تھا اور جب بات چیت سے کامیابی نہ ہوئی تو آخر ی حربہ قتل ہی تھا اور اس کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہ تھا کیونکہ پُوری دنیا ئے اسلام میں کئے جانے والے مظالم کا سدباب اس کے بغیر ممکن نہ تھا اور سابقہ حوالوں کی بنا پر قتل کرنے والوں کو تمام اہل حل و عقد کی عملی تائید حاسل تھی اور یہی وجہ ہے کہ اس قتل کے بعد اہل مدینہ میں سے کسی نے بھی قاتلین سے قصاص کا مطالبہ نہیں کیا اور طلحہ و زبیر و عائشہ نے اپنی ذاتی اغراض کے پیش نظر قصاص کے بہانہ سے جنگ جمل کا اقدام کیا تو بقول صاحب وہ خوداس حرکت پر پشیمان تھے اور حضرت عائشہ اپنی اس غلطی پر تازلیست روتی رہیں اور میں نے ذاتی اغراض کی بنا اس لئے کہی ہے کہ اگر خون عثمان کا بدلہ لینا مقصود ہوتا تو قاتلین مدینہ میں موجُود تھے اور حضرت علی بھی مدینہ ہی میں موجود تھے ۔ بصرہ میں جا کر عثمان بن حنیف اور گورنر بصرہ صحابی رسول پر ظلم کرنا اور بے گناہ بصریوں کو ستانا کسی طرح عثمان کے قتل کا بدلہ لینے قرار دیا جا سکتا تھا۔

جب عقلی طور پر ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں تو پھر وہی ایک بات ہے کہ شرعی طور پر امام کو معزول نہیں کیا جاسکتا خواہ ظالم و فاسق  ہو پس وہ نماز میں بھی متقتدا بن سکتا ہے خواہ  ولید بن عقبہ دور ِ عثمان کے کوفی گورنر کی طرح شراب پی کر صبح کی نماز چار رکعت  ہی کیوں نہ پڑھاوے۔۔۔112۔

یہ واضع رہے کہ حضرت عثمان کو قتل اس وقت  کیا گیا جب کہ اصلاحی  اقدامات بالکل حدِمایوُس تک  پہنچ چکے تھے اور مسلمانوں کے لئے خلیفہ کے قتل کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا تھا اور حضرت عائشہ ہی نے تو سب سے پہلے ان کے قتل کا فتویٰ سر زد فرمایا تھا اور اس کی مثال اس طرح تھی جس طرح جسم میں خراب و فاسد عضو کا حتی الامکان علاج کیا جاتا  ہے لیکن جب پُوری طرح مایُوسی ہو جائے تو پُورے جسم میں اس کے خراب مادہ کی سرایت کو روکنے کے لئے اسی ایک عضو کو ہی کاٹ دینا زیادہ مناسب ہوتا ہے تاکہ باقی جسم اس کے فساد سے متاثر نہ ہو اور بڑھتی  ہُوئی بے چینی کو روک کر امن وسکون کا سانس لیا جائے اور یہ کہنا کہ عام شورشی لوگوں نے قتل کر دیا بالکل غلط ہے ۔ قتل کا ارتکاب کرنے والے کوفی بصری و مصری نہ تھے بلکہ مدنی ہی تھے ایک خلیفہ اول حضرت ابوبکر کے صاحب زادے حضرت محمد بن ابی بکر مدینہ کی مشہو ر  و معروف شخصیت صاحب علم و فضل اور بااثر تابعی تھے دُوسرے حضرت عمر بن الحمق خزاعی صحابی رسول مدینہ کے رہنے والے تھے اور تیسرے ان کے ہمراہ مالک اشتر تھے جو زہد و تقویٰ میں یکسائے روزگار تھے۔ نیز یہ کہنا کہ حضرت عائشہ کہ کہ کر مدینہ سے مکہ چلی گئیں کہ اس طوفان ِ بدتمیزی میں کیا میں بھی اپنی توہین کراؤں؟ 118 محض تاریخی حقائق سے چشم  پوشی اور واقعات کا منہ چڑانا ہے۔ حضرت عائشہ خلیفہ اوّل کی صاحبزادی صحابیہ اور حرم رسول اللہ ہونے کی وجہ سے عامتہ المسلمین کے نزدیک بہت بلند مقام پر فائز تھیں ان کے اشارے سے شورش ختم ہوسکتی تھی جب کہ ان کا نمایندہ ان کا سگا بھائی حضرت محمد بن ابی بکر تھا لیکن وہ خود بھی خلیفہ کی پالیسی سے تنگ دل ہو چکی تھیں اور اُسے عضو فاسد کی طرح الگ کرنا زیادہ موزوں سمجھتی تھیں اور اُقتلو انعثلا فَاِنہ کَفَرَ (قذکوۃ الحواص) کا فتوی جاری کر کے مکہ کی طرف تشریف لے گئی تھیں جس کا اشارہ خود مودودی صاحب نے خلافت و ملوکیت 232 پر کر دیا ہے اور جب اکابر صحابہ اور مدینہ کی اچھی خاصی تعداد بلکہ چار آدمیوں کے سوا سب اہل مدینہ حضرت عثمان کی حمایت زبان نہ کھولتے تھے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ حضرت عائشہ کے فتویٰ سے متفق تھے اور قتل کا ارتکاب کرنے والے بھی صحابی و صحابی  زاد ے تھے تو اب اس نتیجہ تک پہنچا بالکل آسان ہے کے اُس کا قتل شرعی لحاظ سے صرف جائز ہی نہیں بلکہ واجب تھا اور جن اہل حل وعقد میں سے بعض کا قدام اور دوسروں کی خاموشی شرعی خلیفہ بنا سکتی تھی تو کیا انہی اہل حل وعقد میں   سے بعض  کا اقدام اور باقیوں کی خاموشی سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ یہ فعل شرعی اعتبار سے درست تھا اور وہل مدینہ کے اجماع سے تھا اور یہی وجہ ہےکہ جس صحابی اور صحابی زادے نے خلیفہ کو قتل کردیا تھا وہ مسجد نبوی میں نماز پڑھتے تھے اور حضرت علی کی بیعت میں بھی شامل تھے اور حضرت عثمان کے قتل پر اہل مدینہ اس قدر خو ش تھے کہ خلیفہ مقتول کی لاش کو تین دن تک دفن کر نا بھی انہوں نے مناسب نہ سمجھا اور نہ کسی جنازہ پڑھنے کی زحمت گوارا کی۔ (تاریخ خمیس 265 تا ریخ کا مل ج 70 حیوان جٰ 5 ) مودودی صاحب نے یہ عُذر تو پیش کر دیا ہے کہ قاتلین سے سردست بدلا لیا جانا ممکن نہ تھا لیکن جب وہ حضرت علی کے ہاتھ پر بیعت کر چکے تھے اور اطاعت کا عہد کر چکے تھے تو کیا خلیفہ مقتول کے دفن و جنازہ سے بھی وہ مانع تھے ؟ ان کی دشمنی خلیفہ کے غلط کردار سے تھی نہ کہ ان کی میت سے اور لُطف یہ کہ اہل مدینہ میں سے کسی نے بھی مقتول کی تجہیز و تکفین و جنازہ کو ضروری نہ سمجھا اس سے صاف یہی مطلب نکلتا ہے کہ حضرت علی کے نزدیک بلکہ تمام اہل مدینہ اکابر صحابہ اور اربابِ حل و عقد کے نزدیک وہ واجب القتل تھا حتی کہ اس کا جنازہ بھی  غیر ضروری تھا پس راتوں رات ان کے کنبہ کے چند افراد نے گھر سے اٹھا کر حش کو کب میں اس کو دفن کر دیا اور معاویہ نے اپنے  عہد حکومت میں جنّت البقیع کی ملحقہ دیوار کو گراکر اس جگہ کو جنت البقیع میں شامل کر دیا اور اب تک دیوار کا موڑ دیکھنے والوں کو اس الحاق کا پتہ دے رہا ہے ۔ بنا بریں حضرت علی اور جملہ اکابر صحابہ کے نزدیک قاتلین عثمان سے انتقام لینا غیر ضروری تھا کیونکہ اُنہوں نے ایک عضو فاسد کو قطع کر کے پُوری مملکت کے عوام کو اطمینان و سکون کا سانس دلایا اور ان کو بنی اُمیہ کے ظالم گورنروں کی گرفت سے نجات دی۔ اور یہی وجہ ہے کہ طلحہ و زبیر نے فتنہ کھڑا کر کے یکسوئی اختیار کرلی اور حضرت عائشہ بھی نادم ہوکر بیٹھ گئی اور اہل مدینہ میں سے کسی نے بھی انتقام کا نام تک نہیں لیا البتہ معاویہ اَور بنی امیہ کے باقی افراد صرف حکومت کو اپنے خاندان میں جذب کرنے کی غرض  سے انتقام کی رٹ لگاتے رہے تاکہ وہ اس بہانہ سے اقتدار کی بنیادوں کو مضبوط کر سکیں پس حضرت علی ؑکا قاتلینِ عثمان سے انتقام نہ لینا بلکہ عہدوں سے سرفراز کرنا قطعاً غلط نہ تھا بلکہ صحیح اقدام تھا۔

ایک تبصرہ شائع کریں