التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

شیعہ مسلک کی جمہُور سے علیحٰدگی | shia maslak ki jamhor sy alehdgi | khilafat o malookiat

شیعہ مسلک کی جمہُور سے علیحٰدگی | shia maslak ki jamhor sy alehdgi | khilafat o malookiat

 شیعہ مسلک کی جمہُور سے علیحٰدگی | shia maslak ki jamhor sy alehdgi | khilafat o malookiat


شیعہ مسلک کی جمہُور سے علیحٰدگی | shia maslak ki jamhor sy alehdgi | khilafat o malookiat

اس کے بالکل برعکس شیعی مسلک اُصولی و نظریاتی طور پر جمہور اہل اسلام سے روزِ اول سے منفرد و ممتاز رہا ہے جس کو مودودی صاحب نے صاف بیان کیا ہے۔


(۱)امامت (جو خلافت کے بجائے اُن (شیعان ِ علی )کی مخصوص اصطلاح ہے) مصالح عامہ میں سے نہیں ہے کہ اُمت پر اس کا انتخاب چھوڑ دیا جائے اور امت کے بنانے سے کوئی شخص امام بن جائے بلکہ وہ دین کا ایک رکن اور اسلام کا بنیادی پتھر ہے اور نبی کے فرائض میں سے یہ کہ امام کا انتخاب اُمت پر چھوڑ نے کے بجائے خود بحکم صریح اس کو مقرر کردے۔

(۲) امام کو معصوم ہونا چاہیے یعنی وہ تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے پاک اور محفوظ ہو۔ اس سے غلطی کا صدور جائز نہ ہوا اور ہر قول و فعل جو اس سے صادر ہو برحق ہو۔

(۳) حضرت علی وہ شخص ہیں جن کو رسُول اللہ نے اپنے بعد امام نامزد کیا تھا اور وہ بربنا ئے نص امام تھے۔

(۴) ہر امام کے بعد نیا امام اپنے سے پہلے امام کی نص پر مقرر ہوگا کیونکہ اس منصب کا تقرر اُمت کے سپرد ہی کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے منتخب کرنے سے کوئی شخص امام ہوسکے۔

(۵) شیعوں کے تمام گرد ہوں کے درمیان اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ امامت صرف اولاد علی کا ھق ہے ( خلافت و ملوکیت ؃ ۲۱۱ و ؃ ۲۱۲ )

مذہب شیعہ کے اس عقیدہ کی بنیاد عقیدہ نبوت کے تابع ہے کیونکہ عہدہُ امامت عہدہ ُنبوت کی نیا بت کی حیثیت رکھتا ہے۔ پس جس طرح نبی کے لئے ضروری ہے کہ خدا کی طرف سے نامزد ہو اور ہر صفت کمال میں پُورے اہل زماں سے اشرف و افضل ہوا اور اپنے تمام افعال و اقوال یعنے کردارو گفتار میں از اوّل تا آخر معصوم ہو یعنی گنا ہانِ صغیرہ کبیرہ سے پاک اور محفوظ ہو ور نہ اس کی ہدایت موثر نہ ہوگی اور اللہ پر ترجیح بلا مرجح مرجوح کی قباحت لازم آئے گی جو محال ہے۔

پس جس طرح نائب منیب کی رفح ہوتا ہے اسی طرح عقیدہ ء امامت عقیدہء نبوت کی فرع ہے لہذا امام وہی ہوسکتا ہے جو نبی کے بعد دینی و مذہبی ،نفسی و معاشرتی اور تمدنی و سیاسی زندگی کے ہر شعبہ میں نبی کی طرح قیادت مطلقہ کی پُوری صلاحیت رکھتا ہو۔ صفات ِ کمال ذاتیہ و نفسیہ میں اپنے پُورے اہل زمان سے افضل و اشرف ہوا ور صفتِ عصمت سے متصف ہو یعنی کسی چھوٹے یا بڑے گناہ کا ارتکاب نہ کرتا ہو۔ اس کی پوری زندگی میں اس کا کوئی قول یا فعل شرعی لحاظ سے قابل ِ گرفت نہ ہو۔ اور یہ صفات و کمالات اَور محامد محاسن کسی انسان میں دوسرے انسان کو کما حقہ معلوم نہیں ہوسکتے ۔ اِس لئے ضروری ہے کہ اس کو اللہ ہی نامزد کرے اور اللہ جس کو نامزد کرے گا وہ یقیناً ان صفات کا حامل ہوگا کیونکہ اللہ پر بعید ہے کہ مفضول کو فاضل پر جاہل کو عالم پر ناقص کو کامل پر غلط کو صحیح پر اور باطل کو حق پر ترجیح دے ۔ پس اللہ کے حکم سے رسول پر واجب ہے کہ اپنے بعد کے لئے اپنے وصی و جانشین اور صحیح نائب و خلیفہ کا اعلان کرے جو ان کے بعد لوگوں کا امام حق ہو۔

لوگوں کے چننے سے قطعاً صحیح انتخاب نہیں ہوسکتا کیونکہ ضروری نہیں کہ جس میں صفاتِ فاضلہ موجود ہوں لوگ اُسی کو ہی منتخب کریں اور یہ بھی بعید از قیاس ہے کہ لوگ جس کو چن لین وہ صفات فاضلہ کا جامع بن جائے چنانچہ سقیفائی انتخابی ادارے کے ایک اہم رکن بلکہ الیکشن کمشنر حضرت ابوعبیدہ جراح نے اس امر کا واشگاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے اور حضرت علی سے پُر زور لب و لحجہ میں اپنا نام واپس لینے کی درخواست کی ہے جس میں اُس نے اہم پہلویہی ذکر کیا کہ یہ لوگ تیری قوم کے بزرگ سن رسیدہ اور جہاں دیدہ تجربہ کار ہیں اب ان کو رہنے دیجئے ۔ اگر زندگی نے ساتھ دیا اور موت نے مہلت دی تو صفاتِ فاضلہ اور کمالات ِ ذاتیہ کے لحاظ سے آپ کے مستحق ِ خلافت ہونے میں کوئی کلام نہین پس آپ کی بار ی بھی آجائے گی۔ کتاب الامامۃ والسیاسۃ سے ابن قتیبہ دینوری کی الیکشنی خلافت کے متعلّق کار گزاری کی مفصّل روداد سے حسبِ ضرورت جملے ہم نے ابتداء نقل کردے ہیں جو حقیقت ِ حال کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں اُن سے صاف پتہ چلتا ہے کہ انتکاب ایک سوچی سمجھی اسکیم کے ماتحت تھا اور اچانک تھا اس میں نہ صفات ِ فاضلہ کا لحاظ تھا اور نہ مستحق و غیر مستحق کا اعتبار تھا۔ تمام اہل مدینہ تو درکنار تمام اہل حل و عقد کو بلکہ عشرہ مبشرہ کے پُورے گروپ کو شامل کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا تھا اور تاریخ دانوں سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ جس طرح دھاندلی اور دھینگا مشتی کا مظاہرہ مسلمانوں میں اس پہلے جُموری خلیفہ کے وقت ہُوا ۔ اور جب اقتدار پر قبضہ ہوگیا تو اُسے فاضل بھی کہنا شروع کردیا گیا اور حقدار بھی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور انکار کرنے والوں کو طاقت سے ہاں میں ہاں ملانے پر مجبُور کردیا گیا۔ اِس طرح سے اسلامی حکُومت نے جناب رسُول اللہ ؐ کی وفات کے فوراً بعد سے دھوکے سے ملوکیت کا روپ دھارلیا اور یہ صورت ِ حال دن بدن بگڑتی چلی گئی حتی کہ زمان پیغمبر سے جوں جوں دُور ہوتی گئی ملوکیت کے چہرہ پر جو اسلامی کردار کا سنگار تھا وہ بھی اُترتا چلا گیا اور آخرکار سرکاری پارٹی کو مجبوراً کہنا پڑا کہ یہ بادشاہت اور ملوکیت ہے خلافت نہیں۔

لیکن شیعہ مسلک میں پہلے دن سے یہ بات روز روشن کی طرح واضع چلی آرہی ہے کہ خلافتِ حقہ جس کا دوسرا نام امامت ہے منصب ِ نبوّت کی طرح یہ عہدہ بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے عطا کرے ۔ پس جناب رسالت مآب ؐ نے بحکم پرودگار حجۃ الوداع سے واپسی پر آیہ بَلّغ کا کے نزول کے بعد حاجیوں کے ایک لاکھ بیس ہزار کے مجمع میں خمِ غدیر کے مقام پر لانوں کے منبر پر سوار ہوکر ببانگِ دہل حضرت علی کا بازو پکڑ کر اعلان فرمایا ۔ مَنْ کُنْتُ مَوْ لاَ ہُ فَعَلِیْ مَوْلاَہُ (جس کا میں سردار ہوں اس کا علی سردار ہے) اور اس کے بعد آیتاَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْاُتری ۔اس حدیث کو معنوی طور پر تواتر کا درجہ حاصل ہے تفسیر و منثور علاّمہ جلال الدین سیاطی، تفسیر ثعلبی ، اسنی المطالب ، مناقب مغازلی ، شواہد التنزیل ،مناقب خوارزمی، فرائد السمطین ،خصائص نطنزی ۔ حلیتہ الاولیا تفسیر کبیر رازی اور تذکرۃ الخواص وغیرہ میں موجود ہے۔ نیز تفسیر فتح البیان ، تفسیر فتح القدیر اور تفسیر ابن کثیر کے حوالہ سے بھی یہ حدیث نقل کی گئی ہے اور اسی ضمن میں حسان بن ثابت صحابی کا قصیدہ ء غدیر یہ عام کتب میں منقول و مسطور ہے جس کا پہلا شعر یہ ہے

یُنَا دِیْھمِ یَوْمَ الْغَدِیْرِ نَبِیْھُمْ بِخُمَّ وَاَسْمِعْ بِالرَّسُوْلِ مُنَادِیًا

اور غزالی نے سرالعالمین میں حدیث غدیر پر علمائے جمہور کے اجماع کا دعویٰ کیا ہے (علی مانقل) بُرا ہو تعصّب کا اور اموی ذ ہنیت کا کہ جس کتاب میں حضرت علی کی کسی فضلیت کا تذکرہ ہوا۔ اس کو شیعہ کی کتاب کہنا جمہور اہل اسلام کا وتیرہ بن چکا ہے چنا نچہ مودودی صاحب خود اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ ابن جریر طبری کو حدیث غدیر نقل کرنے کی بنا پر اہل سنّت نے شیعہ کہدیا اور اموی دَور کے علانیہ سبّ و شتم نے حضرت علی کے متعلّق نفرت عام پھیلا دی حتی کہ اہل شام ان کو چور ڈاکو کو سمجھنے لگ گئے اور اسی سے تاثیر لینے والے متعصب مزاج اہل سنت اپنی کتابوں میں حضرت علی کا ذکر خیر ہی ترک کر بیٹھے اور جب کسی نے کوئی ایک آدھ فضلیت لکھ بھی ڈالی تو اُسے شیعہ۔

یا کم از کم شیعت نواز کہہ دیا گیا ۔ امومی سیاست کے ماتحت حضرت علی اور شیعان علی پر گالی گلوچ اور غلط الزامات کی علانیہ نشر و اشاعت نے عامہ الناّس کو اس قدر متاثر کیا کہ حضرت علی کے محامد و مناقب کی کثرت و شہرت نے اگرچہ ان کا نام کسی حد تک قابِل برداشت بنا دیا لیکن شیعوں کا نام اب تک ان کے لئے قابل برداشت بھی نہیں ہے۔ متعصب اہل سنت اس کتاب کو دیکھنا ہی گوارا نہیں کرتے جو کسی شیعہ نواز سنی کی لکھی ہوئی ہو شیعہ تو درکنار۔

اور یہی وجہ ہے مودودی صاحب نے بھی جہاں شیعہ مسلک اور اس کے خصُوصبات بیان کئے ہیں کسی شیعہ اُصول و عقائد کی کتاب سے نہیں بلکہ عام تاریخی دستاویزات کو فافی سمجھ کران کا حوالہ دے دیا حالانکہ کسی محقق کے لئے زیبانہیں کہ کسی قوم کانظریہ و عقیدہ ایسی کتابوں سے نقل کرے جو خود ان کے لئے قابِل قبول نہ ہوں۔ ایسا فعل اگر خیانیت نہیں تو دیانت بھی کسی صورت میں نہیں ہے اور مذموم نہیں تو ممدوح بھی اسے نہیں کہا جاسکتا۔

جب شیعہ مسلک کو نقل کرنے کے لئے شیعہ کتب کو دیکھنا گوارا نہیں تو اپنے مسلک کو ثابت کرنے اور اس کی صحت و صفائی اور لیپ پوت کے لئے کسی کتاب کو کیوں دیکھتے ؟ چناچہ انہوں نے ماخذ کی بحث میں صاف اس امر کا انکشاف کیا ہے کہ وہ زیادہ تر ان کتابوں سے مطلب لینے کی کوشش کرتے ہیں جب میں شیعت یا شیعت نوازی تو درکنار شیعت اور شیعت نوازی سے پورا پورا تعصب موجُود ہو اور انہوں نے حافظ ابن کثیر پر اپنے زیادہ تر اعتماد کی وجہ بھی یہی بتلائی ہے کہ تشیع کی طرف میلان تو درکنار وہ اس کے سخت مخالف ہیں اور شیعی روایات کی زور شور سے تردید کرتے ہیں اور صحابہ میں سے کسی ایک پر حتی الوسع کوئی آنچ نہیں آنے دیتے اور حضرت معاویہ ہی نہیں بلکہ یزید تک کی صفائی پیش کرنے میں کسر نہیں اٹھا رکھتے 315اور آخر میں لکھتے ہیں کہ:۔

"میں یہ شبہ تک نہیں کر سکتا کہ وہ شیعی روایات سے کچھ بھی متاثر ہوسکتے تھے یا ان کو اخذ کرنے میں کسی کا تسامل برت سکتے تھے یہ محض مذہت جمہور کے متعلق آبائی تقلید کا نتیجہ ہے کہ لیپ پوت کر کے یزید تک کی صائی پیش کرنا اور حضرت علی کے فضائل کی روایات کو شیعی روایات کہ کر روکرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں