اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ جمہوریت کے مقابلہ میں (امامت ) کا طرز عمل کیا ہے اور اس بارے میں فرقہ امامیہ شیعان علی کے عقائد کیا ہیں ؟
1 امامت ایک دینی منصب ہے اور خدائی عہدہ ہے اور یہ الیکشن سے حاصل نہیں ہو سکتا بے شک الیکشن جیت کر انسان بادشاه و حکمران بن سکتا ہے لیکن امام نہیں بن سکتا جب تک کہ خدا کی جانب سےپغمبر کی زبانی اس پرنص نہ ہو بنا بریں شیعان علی کا یہ عقیدہ ہے کہ رسالت ماٰب کے بعد امام منصوص حضرت علی علیہ السلام ہیں جن کی نامزدگی کا اعلان جناب رسالت مآب نے خم غدیر کے مقام پر ایک لاکھ سے زیادہ کے مجمع میں فرمایا تھا اور یہ حدیث بالتواتر تمام معتبر تفاسیر میں منقول ہے اور اس کے بعد ہر سابق امام بعد والے امام کو نامزد کرتا رہا۔
۲- امامت ایک معیاری عہدہ ہے جس طرح نبی کا بنانا انسانوں کا کام نہیں اسی طرح اسی طرح کسی نبی کے جانشین امام کی تعین بھی امت کے اختیار میں نہیں ہے اور اللہ ایسےافرادکو نامزد نہیں فرماتا جو معیار سے گرے ہوئے ہوں اور شیعان علی کایہی عقیدہ ہے ۔
3۔ امامت کے لئے ضروری نہیں کہ الیکشن میں اس کی جیت بھی ہو۔ دیکھئے حضرت ابرہیم علیہ السلام کوخدانے فرمایا قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا میں تجھے لوگوں کا امام بناتا ہوں اگر عوامی سطح پر اس زمان میں ایکشن ہوتا تو یقین آ بائی تقلید میں غیراللہ کے پجاری حضرت ابراہیم کے بجائے نمرود ہی کو ووٹ دیتے اور وہی کامیاب ہوتا بلکہ عملی طور پر وہی کامیاب ہوگیا تا ہم خدائی جانب سے حضرت ابراہیم کی امامت پر کوئی اثر نہ پڑاوہ ویسے کے ویسے امام ہی رہے اسی بنا پر شیعوں کا عقید ہے کہ حضرت علی خدا کی جانب سے باعلان پیغمبر امام خلق تھے اگر چہ ظاہری اقتدار دوسروں کے ہاتھوں میں تھا اور اس سے حضرت علی کی امامت میں کوئی کمی نہیں آئی۔
4 امامت کا عہدہ خدا اسی کو دیتا ہے جس سے غلطی نہ ہولہٰذا شیعوں کولیپ پورت کر کے دامن امام کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔
5 خدا اس کو امامت کا عہدہ دیتا ہے جو باقی لوگوں سے صفات و کمالات میں افضل واکمل ہو ور نہ ترجیح مرحوع لازم آئے گی اور عقل محال ہے کہ اللہ افضل کو مفضول کی اطاعت پر مامور کرے کیونکہ لقينا یہ فعل قبیح ہے اور اللہ فعل قبیح سے بالاتر ہے اور شیعان علی کا یہی عقیدہ ہے کہ جناب رسالت ماٰب کے بعد حضرت علی تمام امت سے افضل ہیں اور آیت مباہلہ میں علی کونفس رسول کہنا علی کی ا فضلیت پر دلیل قاطع ہے ۔
6 چونکہ رسول اللہ کے بعد عہدہ امامت نیابت رسول کا عہدہ ہے جس کی نامزدگی اللہ کے سپرد ہے تو جس طرح نبی غیر معصوم نہیں ہوسکتا اسی طرح امام بھی غیر معصوم نہیں ہوسکتا اور اہل سنت کے امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ خدا کی طرف سے جس شخص کی اطاعت مطلقہ کا حکم ہو اسے معصوم ہونا چاہیے پس یا تو خلیفہ کی اطاعت کو شرعی حیثیت نہ ہی جائے بلکہ دنیاوی حکمرانوں کی طرح اس کی اطاعت بھی تمدن انسانی اور ڈسپلن کو برقرار رکھنے کے لئے فرض سمجھی جائے تو ایسی صورت میں اس کی عصمت کا عقیدو بھی غیر لازم ہے لیکن اگر خلیفہ کی اطاعت کو خدا اور رسول کی اطاعت کی طرح شرعی حیثیت دی جائے یعنی اس کی اطاعت واجب اور اس کی نافرمانی حرام ہو تو ضروری ہے کہ وہ معصوم ہو اور اس سے ظلطی کے صدور کا امکان نہ ہو ورنہ اس کے غلط کار ہونیکی صورت میں اس کے ظلط احکام میں بھی اس کی اطاعت واجب ہوگی اور خدا ظلط و ناجائز احکام میں کسی کی اطاعت کا حکم نہیں دیتا اَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ سورۃ النساء آیت 59 کی تفسیرمیں امام فخرالدین رازی نے کہا ہے چونکہ آیت میں اولوالامر کی اطاعت کا حکم مطلق ہے لہٰذا اولوالامر کا آیت کی رو سے معصوم ہونا ضروری ہے اور خدا وند کریم نے جہاں کہیں غیر معصوم کی اطاعت کا حکم دیا ہے وہاں ناجائز امور میں ان کی اطاعت کو مستثنا قرار دیا ہے ثناثہ اس نے والدین کی اطاعت کا حکم دیا لیکن یہ استثنا بھی ساتھ ذکر کیا کہ اگر وہ شرک کا حکم دیں تو ان کی اس بارے میں اطاعت نہ کرو آیت مجیدہ میں رسول اللہ کی اطاعت کی طرح اولوالامر کیا حکم مطلق ہے اور اس میں استثناء کوئی نہیں تو صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ کی طرح اولوالامر کو بھی معصوم ہونا چاہیے جس شخص کی اطاعت اللہ کی طرف سے واحب ہواگرد ہ معصوم نہ ہو تومندرجہ ذیل خرابیاں آئیں گی۔
1 جب وہ خود خطا کار ہوگا تو دوسرے خطار انسانوں کے لئے اس کی اطاعت کا حکم خلاف مصلحت ہونے کے علاوہ ترجیح بلامرجح ہوگی اور خدا اس قبیح سے مبرا ہے۔
2 غیر معصوم ہونے کی صورت میں نہ اس کی سیرت اسوہ حسنہ ہوگی اور نہ اس کا امر واجب الاتباع ہوگا۔
3 اس کی ہر بات میں جھوٹ یا غلطی کا امکان رہے گا لہذا دلوں پر اس کا قول اثر اندازنہ ہوگا ۔
4 خطا کار ہونے کی صورت میں دلوں سے اس کا وقار اٹھ جائے گا پس اس کا خدا کی جانب سے حاکم ہونا مضحکہ خیز ہوگا۔
5 اگر گنہگار ہوگا تو رعایا کے باہمی مقدموں میں فیصلے کے لئے اس سے عدل وانصاف کی امید نہ رہے گی پس ایسے شخص کو لوگوں پر مسلط کرنا عدل پروردگار کے منافی ہوگا۔
6 خدا کی جانب سے مقررہ کردہ ہادی کے جن چیزوں سے لوگوں کو منع کرنا ہے یا جن امور کا حکم دینا ہے۔ اس پر واجب ہے کہ پہلے خود انہی امور کا پابند ہواور اس کا کردار مثالی ہو ورنہ اس کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
در کار نہ کر سکا اور اس کے قدموں میں فیل کے لئے اس سے عدل وانصاف کی انتی۔ - پر خدا کی جانب سے مقدر کردہ بادی کے بن پڑوں سے لوگوںکو منع کرنا ہے یا جن امور کا حکم دنیا سا رہے گی میں ایسے شخص کو لوگوں پیسا کرنا عدل پروردگار کے منافی ہوگا ۔
بہر حال نبی کے جانشین میں عصمت کا ہونا ضروری ہے ورنہ اس کا قول وفعل امت کے لئے شرعی حیثیت سے حجت نہ ہو سکے گا مثال کے طور پر اگر حضرت عمر معصوم ہوتے توحضرت عثمان پر ان کی نصیحت ووصیت پر عمل کرنا شرعی اعتبار سے واجب ہوتا اور اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں وہ خود استقاق خلافت سے گر جاتے اور اقتدار سے الگ ہو جاتے پس اس خون خرابے کی نوبت نہ آتی اور نہ مودودی صاحب کو یہ کہنے کی ضرورت پڑتی کہ حضرت عثمان کے لئے حضرت عمر کی وصیت پر عمل کرنا شرعی حیثیت سے واحب نہ تھا ۔سنہ 322
7 امام میں چونکہ معصوم ہوناضروری ہے لہذا وہ خدائی احکام کے تابع ہوگا ۔ اور شیعان علی کا یہ عقیدہ ہے امام نہ فاسق وظالم بن سکتا ہے نہ رہ سکتا ہے اور نماز میں صرف اس شخص کے پیچھے اقتداء جائز ہے جو ظاہری لحاظ سے نیک ہو بدکردار ظالم فاسق کے پیچھے نماز پڑھنا ناجائز ہے سوائے تقیہ کی صورت کے(جھاں جان مال وعزت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو وہاں بنیت فرادیٰ فاسق پیشنماز کے پیچھے نماز ادا کی جاسکتی ہے) چنانچہ شیعان علی سلاطین زمانہ کے مقرر کردہ حکام کے ساتھ اس طرح ہی غذارا کرتے رہے ہیں بلکہ ائمہ طاھرین علیہم السلام بھی اسی قسم کی زندگی مین بے بس رہے ہیں۔