ایمان ابوطالبeman abu talib
جن لوگوں نے حضرت ابوطالب کے ایمان میں شک کیا ہے وہ صرف ان کی تنگ نظری کا نتیجہ ہے اور تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ معاویہ حضرت علی کا سخت ترین بلکہ بدترین دشمن تھا اور حضرت علی نے بعض خطوط میں ان کو سخت دست الفاظ بھی لکھے تاہم اس نے کبھی حضرت علی کو حضرت ابوطالب کے کفر کا طعنہ نہ دیا اور وہ اہل شام میں بھی یہ فخر یہ نعرہ بلندکر تاکہ میں ماں باپ کا بیٹاہوں اورعلی، معاذاللہ کا فر باپ کا بیٹا ہے اور کم ازکم ساٹھ برس تک اموی سلاطین کی طرف سے حضرت علی پر سب وشتم ہوتا رہا لیکن کبھی کسی نے حضرت علی کے باپ کے کفر کا نام تک لینے کی جرات نہ کی اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ دور اول میں حضرت ابوطالب کا مومن ہونا اس قدر مسلم تھا کہ بدترین دشمن بھی اس کا انکار کرنیکی جراٰت نہ کرسکتے تھے جب دور بنی عباس میں جمہور اہل سنت کے مذہب کی نظم طور پر تشکیل ہوئی تو خلفائے بنو عباس کے خوشامدیوں نے عباس کو ابو طالب سے افضل ثابت کرنے کے لئے حضرت ابوطالب کے ایمان پرلب کشائی کی اور اندھا دھند تقلید کرنے والوں نے سلاطین کی خوشامد میں آنکھیں بند کردے اسے قبول کرلیا کیا انہیں معلوم نہیں تھا کہ دعوت عشیرہ سے لے کر بعثیت کے دسویں برس تک جب تک حضرت ابو طالب زندہ رہے۔انہی کی سرپرستی میں کھلم کھلا حضور تبلیٖ اسلام کے فرائض انجام دیتے رہے اور آپ ہی کی بدولت کسی سر پھرے مشرک کو جرئت نہ وہسکی کہ آپ کی تبلیغ کی راہ میں حائل ہوسکے جب حضرت ابوطالب کا انتقال ہوا تو اس کے بعد مشرکین نڈر و بے باک ہوکر حضور کے درپے ایذا ہوئے اور حالات دن بدن بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔
یہاں تک کہ آپ مکہ کو خیر باد کہنے پر مجبور ہوگئے۔ بہرحال حضرت ابوطالب مومن اور کامل الایمان بزرگ تھے اور اسلام کی جو خدمات انہوں نے سر انجام دیں وہ انہی کا ہی حصہ تھیں او بانی اسلام کے بزدیک ان کی سعی مشکور تھی۔
آپ کی والدہ ماجدہap ki walida majida
حضرت علی کی والدہ ماجدہ جناب فاطمہ بنت اسد کے متعلق تذکرة الخواص میں ہے کہ وہ ہجرت کر کے مدینہ میں تشریف لائی تھیں اور مدینہ میں سنہ 4 ہجری کو آپ کا انتقال ہوا اور وہیں دفن ہوئیں حضور ﷺ نے بہ نفس نفیس ان کی نماز جنازہ پڑھی اور اپنی قمیص ان کے لئے بطور کفن کے عنایت فرمائی ۔ زہری سے منقول ہے کہ حضور ﷺ فاطمہ کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے اور ان کے گھار میں قیلولہ بھی فرماتے تھے وہ نیک و صالحہ خاتون تھیں۔ ابن عباس سے مروی ہے آیت يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَفاطمہ بنت اسد کے شان میں اتری اور یہ پہلی خاتون ہے جو پا پیادہ ہجرت کرکے مکہ سے مدین پہنچی ، اور یہی پہلی عورت ہے جس نےحضرت خدیجہ ام المومنین کے بعد مکہ میں حضور کی بعیت کا شرف حاصل کیا۔
تربیتtarbiyat
حضرت علی علیہ السلام کو نسب کے لحاظ سے اپنے عظیم باپ اور بلند پایہ ماں کے سپوت ہونے پر بیجاناز تھالیکن اس سے بڑھ کر تربیت کے لئے آپ کوایسا بلند مقام ملا جس کا کوئی جواب نہیں ہوسکتا اور وہ آغوش رسالت میں کگہ پائی آپ نے مجھے اپنے سینے پہ لٹایا ۔ اپنے پہلو میں سلایا۔اپنے حجر اقدس کو میرے جسم سے مس کیا اور میں نے انہی کی بوۓ نبوت کی مہک سے اپنے دماغ کی فرحت حاصل کی (نہج) علامہ حالی نے بشائر المصطفے سے نقل کیا ہے کہ حجورﷺ بنفس نفیس بچپنے میں علی کا جھولا جھلاتے تھے اور جب جاگتے تو اس کو اٹھاکر گود میں بٹھاتے اور پیار کے لب ولہجو سے باتیں کرتے اور پھر مکہ کی بہاڑیوں اور وادیوں میں سیر کرانے کے لئۓ علی کو اٹھا کر لے جاتے تھے۔