التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

فتح مبین | ٖfatih mubeen | khilafat o malookiat


فتح  مبین |  ٖfatih mubeen  | khilafat o malookiat



فتح  مبین |  ٖfatih mubeen  | khilafat o malookiat

ان واقعات کے نتیجہ میں اموی سلطنت کی طرف سے عامہ المسلمین کے دلوں میں تنفر کی لہر دوڑ گئی۔ پس اقتدار کے قدم لڑکھڑانے لگ گئے۔ شہادت حسینی کا المیہ چونکہ عراق کا حادثہ تھا اس لئے خون حسین کے انتقام کا نعرہ بلند کرکے مختار بن ابی عبیدہ تقفی نے اموی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا لوگ دھڑادھڑ اس کے جھنڈے تلے جمع ہوئے اور کوفہ کا پایہ تخت پوری طرھ ان کے زیر نگیں ہوگیا۔ اموی فوج نے مقابلہ کیا لیکن بری طرح انہوں نے شکست کھائی اور قاتلانِ حسین کو مختار نے چن چن کر بری طرح مروایا اور تاراجی مدینہ وتوہین کعبہ سرزمین حجاز کے المیے تھے اس کے اقتدار کا سکہ بیٹھ گیا پس اسلامی سلطنت تین گروپوں میں تقسیم ہوگئی   مختار کے مفصل واقعات ہماری

اب مختار اور ابن زبیر کے درمیان جنگ اقتدار نے سراٹھایا اور دونو طرف سے بے تحشا خون کے دریا بہنے کگے ۔ بنی امیہ کے لئے ان کی باہمی جنگ مفید ثابت ہوئی مصعب بن زبیر کے ہاتھوں مختار ماراگیا اور زیادہ لڑائیوں کی وجہ سے فوج پر کمزوری مسلط ہوگئی پس بنی امیہ کی مجموعی طاقت کے مقابلہ میں ابن زبیر کی فوھیں نہ ٹھر سھیں اور یہ بھی ماراگیا اور اقتدار پھر ایک مرتبہ بنی امیہ کے بدترین خاندان (بنی مروان) کے ہاتھ میں آگیا اور تمام اسلامیان عالم دوسری سفعہ پھر اموی سلاطین کے مظالم کی زد میں آگئے۔

عراق کی سرزمین جہاں ایک وقت حضرت علی کی حکومت کا پایہ تخت تھا اور واقعہ عظمٰی کربلا بھی اسی سرزمین پر ہوا ۔ اس کے نتیجہ میں مختار نے انتقام خون حسین کا نعرہ بلیند کردے شیعی تحریک کو اس صوبہ میں کافی مضبوط کرلیا تھا۔ اسی لئے اموی حکومت کی جانب سے یہاں کا غورنر حجاج بن یوسف کو مقرر کیا گیا جس کے بزدیک انسان کی جان کی قیمت ایک چیونٹی کے برابر بھی نہ تھی۔ حضرت علی اولاد علی اور شیعانِ علی پر سب و شتم کا دور دورہ زوروں پر ہوگیا اور شیعانِ علی کو بلا دریغ نہ تیغ کیا جانے لگا ۔ اور اس کے ظلم کی داستان مودودی صاحب اس طرح بیان فرماتے ہیں۔

اس (حجاج بن یوسف) کے زمانے میں جو لوگ قید کی حالت میں کسی عدالتی فعصلے کے بغیر قتل کئے گئے صرف ان کی تعدار ایک لاکھ بیس ہزار بتائی جاتی ہے جب وہ مرا ہے تو اس کے قید خانوں میں 80 ۃزار بے قصور انسان کسی مقدمے اور کسی عدالتی فیصلے کے بغیر سڑ رہے تھے اور یہ ظالم گورنر تھا جس کے حق میں عبدالملک نے اپنی اولاد کومرتے وقت وصیت کی کہ "حجاج بن یوسف کا ہمیشہ لحاظ کرتے رہنا کیونکہ یہ وہی ہے جس نے ہمارے لئے سلطنت ہموار کی دشمنوں کو مغلوب کیا اور ہمارے خلاف اٹھنے والوں کو دبا دیا سنہ 184

اچھا ہوا کہ ضہمور اہل اسلام کے مسلک کی تشکیل اموی دور میں نہ ہوئی ورنہ اگر مذہب جمہور کی تشکیل اموی دور میں ہوتی تو چوتھی جگہ خلیفہ ہونا تو درکنار حضرت علی کا صحابہ میں بلکہ اہل اسلام کی فہرست میں بھی نام نظر نہ آنا اور شیعانِ علی سے حضرت علی کے اسلام کا ثبوت طلب کیا جاتا۔

بہر حال شہادت حسین نے جہاں ایک طرف شیعان علی میں ثابت قدم اور غیرت نفس کا جذبہ بھردیا وہاں جمہوراہل اسلام کو اس اصول قیادت دینی وسیاسی کی وحدت کے توڑنے پر مجبور کردیا اور ثابت کردیا ۔ اقتدار اور دین لازم و ملزوم نہیں ہیں اور دینی و سیاسی قیادت کے راستے الگ الگ ہیں ۔ ورنہ اگرچہ اپنی آبائی تقلید اور کثرت کی ہاء ہو کے تاثر سے نکل جانے کی جرئت کر کے شیعان علی کے ہمنوا تو نہ ہوئے لیکن اپنے سابق طریق پر بھی جم نہ سکے او ر ان کو مجبوراً دینی قیادت کا راستہ سیاسی قیادت سے الگ جرنا پڑا یزید اور اس کے بعد کے سلاطین جو کے کردار بد پر پردہ ڈالنا چھوڑ دیا البتہ وہ معادیہ و عثمان کی غلط کاریوں پر لیپ پوت کا پردہ دے کر آبائی تقلید کی لاج رکھتے ہوئے ان کے احترام کو خیر باد نہ کر سکے اور ان سے سابق حکمرانوں کے متعلق تو سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا ۔ واقعہ کربلا کی مفصل روداد اصحاب المسلمین مین پڑھئے۔

ایک تبصرہ شائع کریں