التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

حق علی کے ساتھ | haq ali kay sath | khilafat o malookiat

 

حق علی کے ساتھhaq ali kay sath

علامہ علی نے احقاق الحق میں حدیث ۴۴۰ * في الجمع بين الصحاح التۃ، جناب رسول اللہ نے فرمایا اللہ علی پر رحم کرے۔

اے اللہ حق کو ادھر پھیر دے جس طرف علی ہوں اور جمہورنے روایت کی ہے۔ حضور ﷺنے فرمایا عمارکو رمیری امت میں میرے بعد ناخوشگوار امور ہوں گے اور اختلاف اس وقت تک ہو گا کہ آپس میں آزادانہ تلوار کا استعمال ہوگا اور باہمی قتل وقتا ل اور ایک دوسرے سے بیزاری کا بازار گرم ہوگا اے عمار تھجے باغی گروہ قتل کرے گا جب کہ تو حق کے ساتھ ہو گا اور حق تیرے ساتھ ہوگا علی تجھےہلاکت کے قریب نہ کرے گا اور ہدایت سے دور نہ  لے جائے گا ۔اے عمار جوشخص تلوار حمائل کر کے دشمن کے مقالہ میں علی کی حمایت کرے گا اللہ بروز محشر اسے بطور انعام دوموتیوں کے ہار پہنائے گا ۔ اور جو شخص گلے میں تلوارلٹکا کر علی کے خلاف اس کے دشمن کی مدد کرے گا۔ اللہ بروز محشر اس کے گلے میں جہنم کے دو طوق ڈالے گا جب اس قسم کی نوبت آجائے تو میرے دائیں جانب بیٹھے ہوئے شخص یعنی علی کا دامن نہ چھوڑ نا۔ اگرتمام لوگ ایک وادی میں ہوں اور صرف علی دوسری وادی میں ہو تو اس وادی میں قدم رکھنا جس میں علی ہو اور باقی تمام لوں کو چھوڑ دینا ۔ اے عمار علی ہدایت پر رہے گا ۔ اے عمارعلی کی اطاعت میری اطاعت ہے اور میری اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور حضرت عائشہ سے مروی ہے ۔ آپ نے فرما یا اَلَحَقُّ مَعَ عَلِیٌّ مَعَ الْحَقِّ لَنْ یَفْتَرِقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْ ضَ یعنى حق على کے ساتھ اور علی حق کے ساتھ ہے۔ یہ دونو ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے ۔ یہاں تک کہ حوض کوثر پر دونومیرے پاس وارد ہوں گے )

 بہر حال تمام وہ اوصاف جوانسان کو پستی سے بلندی کی طرف لے جاتے ہیں حضرت علی میں بدرجہ اتم موجود تھے اور بعض ایسے صفات جن میں سے دو ایک جگہ جمع نہیں ہوسکے مثلا شجاعت اور نرم مزاجی اسی طرح جراُت وخوف خدا میں گر یہ حضرت علی میں یہ صفات بھی درجہ کمال پر تھے۔ آج تک چشم  فلک نے نہ میدان کارزار میں علی جیسا بہادر دیکھا اور مسجد میں اس جیسا کوئی خوف خدا سے گریہ کناں دیکھا  وہ ایک ہی وقت میں جہاں بے مثال جری اور تلوار رے تھے نرم مزاج اور رحیم بھی  تھے وہ دشمنوں کے لئے برقی، قہرقہار تھے اور دوستوں کے لئے سایر رحمت پروردگار تھے اسی طرح علوم وفنون محاسن و مکارم اور مناقب ومعارف کے لحاظ سے فیوض و برکات کا شجر بیکراں اور سمندر بے پیاں تھے اسی بنا پر ابن عباس کا ول ہے کہ میرا اور جملہ اصحاب راسول اللہ ﷺ کا علم کے مقابل میں اس طرح حقیر تھا جس  طرح ایک قطرۂ آب سات سمندروں کے مقابلہ میں۔ (الغدیر)

 بحر حال علی کی ذات والا صفات ہی اس قابل تھی جس پر  حضور ﷺکو مکمل اعتماد تھا ، اسی لئے توشب ہجرت انہی کو اپنے بستر پر سلا کے گئے اور اپنی امانتیں ادائیگی کے لئے حضرت علی کے ہی سپر کر گئے اور آخری حج حجۃ الوداع کے موقع پرخم غدیر کے وسیع وعریض میدان میں لاکھوں کے سامنے علی کی جانشینی کا اعلان بھی کیا ۔ اس سے پہلے سورہ براُت کی تبلیغ کے لئے حضرت ابو بکر کو نامزد کر کےبحکم پروردگار کا حضرت علی کواس کے پیچھے فرمایا کہ وہ اس قسم کے پیغامات حکم خداوندی یا میں پہنچا سکتا ہوں یا وہ جو مجھ سے ہو۔ جب قرآن کی تبلیغ کے لئے ایک آدمی کو حضور نے بحکم خدا اہل نہ سمجھا تو پہرے قرآن کی تبلیغ کے لئے پہری امت کے لئے اسے کسی طرح موزون سمجھ سکتے تھے۔

رسالت مآب کی وفات کے بعد ظاہری اقتدا میں رسہ کشی کا ہونا فطرتِ انسانیہ کا تقاضا تھا ۔ اور اس پر شرعی اقتضا کو مقدم کرتے ہوئے حقدار کے لئے موقع فراہم کرنا بہت مشکل تھاپس اقتدار دو حصوں میں تقسیم ہوگیا سیاسی قیادت حضرت ابو بکر کے ہاتھ میں آگئی اور دینی قیادت اپنی بلندصلاحیتوں کے پیش نظر حضرت علی کے ہی پاس رہی جس  طرح لعض علمائے اہل سنت نے بدل ناخواستہ اس کا اعتراف کر لیا ہے ۔ ان کے بعد حضرت عمر  تخ حکومت پر متمکن ہوئے تقریبً دس سال ان کا دور اقتدار رہا پھر  حضرت عثمان برسراقتدار آئے توتقریباً 12  برس حکومت کرنے کے بعد تل کردئے گئے۔ اس بچیس سالہ دور میں حضرت علی حکومت وقت کے تحت ایک عام شہری کی حیثیت سے بصر کرتے رہے  نہ ان کے علمی فیوض سے آزادانہ طور پر کسی کو کچھ حاصل کر نانصیب ہوا اور نہ ان کی نظامی ومعاشرتی استعدادات کو بروئے کارلانے کا موقعہ دیا گیا اور نہ ان کی جنگی وفو جی صلاحیتوں کی بدولت ان کی جراُت وشجاعت سے استفادہ کرنا مناسب سمجھا گیا۔

ایک تبصرہ شائع کریں