دوسرے امام حضرت
حسن بن علی بن ابی طالب علیہ السلام
hazrat hassan bin
ali bin abi talib alih al salam
آپ کی ولادت باسعادت 15 رمضان سنہ 3 ھ مدینہ منورہ میں صدیقہ طاہرہ حضرت فاطم
زہرا بنت رسول اللہ کے بطن مبارک سے ہوئی۔ آپ کا نام نامی حضرت رسالت مآب نے حسن
رکھا آپ کی کنیت ابو محمد اور لقب مجتبیٰ زیادہ مشہور ہے۔ آپ کی تقریباًسات برس کی
عمر میں آپ کے نانا رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی رحلت ہوئی بچپنے میں آپ کی
تربیت اپنے نانا جان کے زیر اثر ہوئی۔ ۔ ساتویں دن آپ کا عقیقہ بھی رسول اللہ نے
کیا تھا۔ کئی دفعہ حض ﷺوران کو اپنے دوش اقدس پر سوار کر کے سیر کراتے تھے بعض
اوقات آپ منبر پر جلوہ گرہوتے تو امام حسن
ان کے پہلو میں ہوتے تھے امام حسن کا چہرہ رسول اللہ ﷺکے چہرہ کے مشابہ تھا۔ بعض اوقات، حالت سجدہ میں آپ رسول اللہ کی پشت
پر سوار ہوجاتے اور وہ سجدہ سے سر بلند نہیں کرتے تھے جب تک یہ اتر نہ جائیں ۔ حضور کی محبت کا یہ عالم تھاکہ
گود میں بٹھا کر بہت دیرتک ان کوبو سے دیاکرتے تھے حضرت رسالت مآب سے یہ حدیث کتب صحاح
میں مروی ہے آپ نے فرمایا میرے شہزادے حسن
و حسین جوانان جنت کے سردار میں حضور کی وفات کے تھوڑے عرصے کے بعد ان کے سرسے
اپنی والدہ ماجدہ جناب فاطمہ زہرا کا سا یہ بھی اٹھ گیا۔
ابتدائی بچپنے میں باپ کے
علاوہ نانا اور ماں کا سایہ ُ عا طفت بھی رہا۔ اس کے بعد حضرت علی کے زیر سایہ
جوان ہوئے۔ حضرت عثمان کی حکومت کے زماز میں آپ بھر پور جوان تھے لیکن عمدہ
صلاحیتوں اور خوبیوں کے باوجود مخصوص مصالح کے پیش نظران کی عوامی ملکی وملی خدمات کا موقع نہ دیا گیا۔ بس اپنے پدر علمیقدار کے ساتھ گوشہ عزلت میں بسر
کرتے رہے۔
زہد و تقویٰ کا یہ عالم
تھا کہ انو نعیم نے حلیتہ الاولیاء میں ذکر کیا ہے آپ نے بیس حجیں مدینہ سے با پدادہ کیں حالانکہ سواریاں بھی
ہمراہ ہوا کرتی تھیں آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے شرم آتی ہے کہ بارگاہ پروردگار کی
طرف سوار ہوکر جاؤں ۔ بعض روایات میں پچیس حجوں کا ذکر بھی ہے (تذکرۃ الخواص)
حضرت علی علیہ السلام کی
شہادت کے بعد آپ کی بعیت کی گئی اور آپ کو سیاسی قیادت کی مسندسونپ دی گئی اور
دینی قیادت کے لئے شب شہادت حضرت علی علیہ السلام نے اپنی تمام اولاد کو بلاکرا
مام حسین کی امامت وسیادت کی وصیت کر دی تھی اور ملاقاتیوں کو بھی فرما دیا تھاکہ
حضرت رسالت مآب کے بعد امام حسن ان کا دوسرا
خلیفہ ہے جس کے ہاتھ میں دینی و سیاسی ہر دو قیادتیں جمع ہیں اور واقعا آپ اپنے باپ کے بعد
اس کے اہل بھی تھے آپ نے اپنے باپ کی طرح کوفہ ہی کو دارالسلطنت رکھا۔
معاویہ حضرت علی کی خلافت کے زمانہ میں بغاوت کا
اعلان کر چکا تھا اور کافی علاقے اس نے اپنی جنگی سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے اپنے ساتھ ملالئے تھے
حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد اس کے لئے مز یدسہولتیں پیدا ہوگئیں معاویہ
نے امام حسن کے خلاف جنگی محاذ کوبہت کافی
طاقتور بنا لیا۔ چنانچہ اس نے بھاری فوری جمیعت کے ساتھ عراق پر حملہ کرنے کے لئے
اپنے ایک جرنیل کو روانہ کردیا معاویہ خو دبھی
جنگی چالوں میں کسی سے کم تھا لیکن اس کا وزیراعظم
عمرو عاص جس نے فعصلہ تحکیم میں مسلمانوں
کے اتحاد کی ؑمارت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور اس سے پہلے جنگ صفین کی شکست کو
قرآن کو نیزوں پر بلیند کر کے فتح سے تبدیل کرچکا تھا وہ سیاست کا گرد گنٹھال تھا
اس نے چند ہی دنوں میں حالات کی ایسا کایا پلٹ کر رکھ دی کہ امام حسن کے لئے قدم
قدم پر کانٹوں کا جال بچھا ہوا تھا پس آپ نے حالات سے مجبور ہو کر اقتدار سے
دستبردار ہوجانے اور کرسی اقتدار کو معاویہ کے حوالہ کرنے میں بھلائی سمجھی ۔آپ کے
اقتدار ظاہری کا زمانہ ماہ ربیع الاول سنہ 41 ھ کے آخر تک کل چھ مہینے اور چند دن
تھا آپ اقتدار سے
دست بردار ہو گئے۔ او رکشت
وخوں کے لرزہ خیر انجام کو بھانپ کر حکومت سے استعفا دے دیا۔ اس کے بعد کچھ عرصہ تک آپ کو فہ میں رہے پھر معاویہ نے ان کو شام
آنے کی دعوت دی پس آپ دمشق تشریف لے گئے اور چند دن وہاں رہ کر مدینہ میں آگئے ۔
تقریب سینتالیس برس کی عمر میں سنہ 28 صفر سنہ 50 ھ زہر سے شہید ہوئے۔ معاویہ نے
جعدہ بنت اشعث کے ذریعہ سے زہردلوائی تھی ۔
واقدی سے منقول ہے کہ
امام حسن نے وصیت کی تھی کہ مجھے قبر رسول کے پاس دفن کیا جائے لیکن بنی امیہ نے وہاں
دفن نہ ہونے دیا۔
اور حضرت عائش بھی امام حسن کے روضہ رسول میں دفن ہونے کے خلا ف تھیں
(تذکرۃ الخواص)
پس آپ کی لاش مبارک کو
جنت البقیع میں سپردخاک کیا گیا ۔