محامدومناقبmihamad
munaqib
علی علیہ السلام کی فضیلت
کے متعلق حضرت ابن عباس سے مروی ہے اگر درخت قلمیں ہوجائیں دریا سیاہی بن جائیں اور جن و انس
لکھنے اور حساب کرنے والے ہو جائیں تب بھی علی کے فضائل کا احاطہ نہیں ہوسکتا آپ
سے مروی ہے کہ خدا نے قرآن میں کوئی آیت فضیلت نہیں نازل فرمائی مگر یہ کہ علی اس
کے راس و رئیس ہیں (تذکرۃ الخواص) اور مسند احمد بن جنبل وغیرہ سے منقول ہے۔ قرآن
مجید میں کہیں بھی یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا نازل نہیں ہوا مگر یہ کہ علی اس کے امیرو شر یف
میں اور قرآن مجید میں خدا نے کئیدفعہ صحابہ کو سرزنش کی ہے لیکن حضرت علی کا ذکر
مدح و ثنا اور خیر کے ساتھ ہی فرمایا اس سے واضع ہے کہ جن آیات میں مومنوں کو خطاب
کرکےخدا نے سرزنش کی ہے ان خطابات سے حضرت
علی مستثنا میں حدیث مذکور کو ابونعیم نےحلیہ میں اور ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ میں بھی ابن عباس سے نقل کیا
ہے۔(دلائل الصدق)
جمہور مسلمین کا اتفاق ہے کہ حضرت علی پہلا وہ
شخص ہے جس نے حضرت رسول اللہ کی تصدیق کی پس
وہ اول مومن ہے ۔ اور علی وہ ہے جسکا دامن
شرک کی نجاست سے کبھی ملوث نہیں ہوا۔پس ان کے اسلام لانے کا سوال ہی پیدا نہیں
ہوتا نیز حضرت علی علیہ السلام پہلا شخص
ہے جس نے حضرت رسول اللہ ﷺ نکی اقتداء میں نماز پڑھی (تذکرۃ الخواص)
معاویہ نے ایک مرتبہ سعد بن
ابی وقاص سے کہا تو ابوتراب (علی) کوسب کیوں نہیں کرتا ؟ سعدنے جواب دیا حضرت علی
کے بارے میں تین باتیں مجھے یاد ہیں جو رسول اللہ نے فرمائی تھیں اس لئے میں علی
کوسب نہیں کرسکتا۔ معاویہ نے ہوچھا وہ کونسی ؟توسعد نے جواب دیا (۱) حد یث رایت (
اس حدیث کو احمد بن جمبل نے مسند ہیں اور
بخاری و مسلم نے صحیحین میں سہل بن سعد سے نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ نے جنگ خیبر کے
موقع پر فرمایا کل میں علم ا س شخص کے
حوالے کروں گا جوخدا و رسول کو دوست رکھتا ہے اور خدا ورسول اس کو دوست رکھتے ہیں
اور خدا اس کے ہاتھ پرفتح دے گا ۔ لوگوں نے علم حاصل کرنے کی انتظار میں رات
بستروں پر کروٹیں لے لے کر بسر کی اورصبح کو ہر شخص کے دل میں اس شرف کے حصول کا
لالچ تھا ۔ رسول اللہ نے پوچھا علی کہاں ہے ؟ تو جواب ملا کہ وہ آشوب چشم کی تکلعف
رکھتے ہیں آپ نےبلوایا اور چشمہ وحی پروردگار سے دھلا ہوا وہان رسالت کے مقدس و
پاکیزہ ظرف سے نکلا ہوا سرمہ لعاب نبوت چشم الایت میں ڈال کر لب ہائے مبارک کو
حرکت دی اور علی کے حق میں دعا فرمائی پس علم جنگ عطا فرماکر روانہ جہاد کیا۔ (۲) نصاریٰ
بخران کے ساتھ مباہلہ کے موقع پر اپنا ء نا کی جگہ حسن حسین نساء نا کی جگہ فاطمہ زہرا اور
انفسنا کی جگہ پر حضرت علی کو ہمراہ لے گئے اور فرمایا یا خدایا یہ میرے اہل بیت
ہیں۔ احقاق الحق میں علامہ حالی نے دعویٰ کیا ہے کہ آیت مجیدہ کی اس تفسیر پر تمام
مفسرین کا اجماع ہے) (۳) رسول اللہ جب جنگ تبوک کی طرف جانے لگے تو علی کو اپنا خلیفہ بناکر گئے ۔ جب
حضرت علی کے ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کی توآپ نے فرمایا کیا تو اس بات پر راضی
نہیں کہ تیری مجھ سے وہ نسبت ہے جو بارون کو موسی سے تھی معاویہ نے یہ سن کر کہا کہ پہلے کی بہ نسبت اب تو میرے
نزدیک زیادہ قابل ملامت و نفرت ہے کیونکہ جب تو علی کے اس قدر فضائل جانتا ہے پر
تو نے اس کی اطاعت سے کنارہ کشی کیوں کی اور اس کی بیعت چھوڑ کر الگ کیوں ہو گیا؟ اگر تیرے بجائے میں نے حضور کی زبانی یہ باتیں سنی ہوتیں تو عمر بھر
علی کی نوکری کرتا (تذکرۃ الخواص)
نقلاً
ازمسند احمد ومروج الذہب وغیرہ حدیث منزلت کو صحیح بخاری و مسلم میں بھی ذکر کیا گیا ہے
اور ٖضل بن روز بہان جیسے متعصب مزاج نے بھی اسے تسلیم کیا ہے۔ (دلائل الصدق)
بروزخندق
عمر بن عہدود عامری کے مقابلہ سے جب تمام
مسلمان عاجز آچکے تھے اور سورۃ احزاب میں خداوند کریم نے مسلمانوں کی حالت خوف اس
طرح بیان کی ہے بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ ۔ ڈر کے مارے دل خنجروں تک پہنچ
گئے تھے ، وَ تَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ
الظُّنُوۡنَا اور
تم لوگ اللہ پر بدگمان ہو رہے تھے اور تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ مسلمانوں پر
سستی چھا گئی تھی اس وقت حضرت علی علیہ السلام نے نہایت جرات سے میدان کارزار کی
طرف قدم بڑھایا توتا تاریخی متفق ہیں کہ حضور ﷺ
نے فرما یا ــــــــــــــــــــــسب
کا سب ایمان سب کے سب کفرکے مقابلہ میں جارہا ہے علامہ نے اس روایت کو اتفاقی قرار
دیا ہے اور فضل بن روز بہان نے اس کو صیح روایت مانا ہے (دلائل الصدق)
حدیث
مواخاۃ جو متفق علیہ ہے اور کتب صحاح میں مذکور ہے جب حضرت رسالت پناہ نے
مہاجرین و انصار مین بھئی چارہ قائم کیا تو حضرت علی کو اپنا بھئی قرار دیا ۔
دلائل الصدق ، مروج
حضرت
علی علیہ السلام کے وفود علم اور وسعت معلومات کا کوئی مسلمان انکار ہی نہیں
کرسکتا چنانچہ علامہ حالی نے مسند احمد
صحیح مسلم سے نقل فرمایا ہے کہ اصحاب پیغمبرﷺ میں سے کسی کو سوائے علی کے اس دعوٰی
کی جرءت نہ ہوئی جو چاہو مجھ سے پوچھ لو سوائے علی کے اور رسول اللہ نے ان کے حق
میں فرمایا تھا
أنا مدينة العلم وعلی
بابہا ،میں علم کاشہر ہوں اورعلی اس کا دروازہ ہے ) اس پر فضل بن روز بہان نے حدیث
کوتسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے حضرت علی کے وفور علم واقعات کے استحصا راور
مختلف علوم و معارفت میں ان کی دسترس کا پتہ چلتا ہے اور حضرت علی کے متعلق یہ سب
باتیں قابل تسلیم ہیں ۔
روش رسول پر سوار ہو کر
کعبت اللہ سے بت توڑنا حضرت علی کا وہ شرف ہے جس میں آپ کا کوئی سیم و شریک نہیں
ہوسکتا، اور اس روایت کو مستدرک حاکم ج 3
مسند احمد ج سنہ 87 اور کنزالعمال ج 6 سنہ 407 سے نقل کیا گیا ہے۔اور حضرت علی
علیہ السلام کی امامت حصہ پر واضح ترین وہ
حدیث ہے جس میں علی کو مع الحق اور حق کو
مع علی کہا گیا ہے۔