مقصد عظیم muqsad azeem
بے
شک حضرت حسین علیہ السلام حکومت وقت کی سیاسی قیادت کا نہیں بلکہ اس کے ضمن میں جو
انہوں نے اسلامی حکومت اور دینی قیادت کا دعوٰی کر رکھا تھا اس کا پردہ چاک کرنے
جا رہے تھے یعنی ان کی اسلامی برتری اور مذہبی سربراہی کا تختہ الٹنے جا رہے تھے
اور اس کے لئے فوج کی ضرورت نہیں تھی بلکہ اس کے سیمئے عزم صمیم اور قلبقوم کی ضرورت
تھی جس کو وہ اپنے سینہ میں رکھتے تھے پس آپ فتح مید ہوئے اور یزید کی دینی قیادت
کا تختہ بالآخر الٹہی گیا ۔ اور اس وقت تک جو لوگ برسراقتدار طبقہ کی دینی قیادت
کے قائل تھے انہیں اسلام کے صحیح راستہ کو معلوم کرنے میں آسانی ہگئی اور وہ
سمجھنے کے قابل ہوگئے کہ پیغمبرﷺکے زمانہ کے فورا ً بعد ہی سے قیادت دینی وقیادت
سیاسی کے دونو شعبے الگ الگ ہوگئے گھے اور سیاسی حکمران محض سیاست کے مفاد کے لئے
ہی مذہب سے رابطہ قائم رکھے ہونے تھے بلکہ مذہب پر اپنی اجارہ داری کا جھنڈا
لہلارکھا تھا اور شہادت عظمیٰ حسین نے حقیقت کے منہ پر پڑے ہونے سب پردے چاک کر
ڈالے اسی وجہ سے جمہور اہل اسلام کے بعض علماء نے عزاداری کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے
کہ اس سے بعض صحابہ کے متعلق بدگمانیوں کا خطرہ پیدہ ہوجاتا ہے اور یزید پر لعن
کرنا بھی اسی لئے ناجائز قرار دیا ہے کہ کہیں یزید کا باپ اور دیگر صحابہ اس
لپیٹمیں نہ آجائیں جیساکہ مودودی صاحب نے خلافت وملوکیت کے صفحہ 183 پر اس امر کا
انکشاف کیا ہے۔
یہاں
یہ شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ اس قسم کے گھناؤنے جرم کے بعد بھی کیا وہ لہگ اپنے آپ کو
دین و اسلام کا علمبردار تصور کرتے تھے؟ تو اس کی حقیقت خلافت وملوکیت میں تاریخ
طبری کا مل ابن اشیر اور البدایہ کے حوالوں سے ملاحظہ ہو۔اس کے بعد ان خواتین سمیت
تمام شہدائے کربلا کے سرکاٹکر کوفہ لے جائے گئے اور ابن زیاد نے نہ صرف برسرعام ان
کی نمائش کی بلکہ جامع مسجد میں منبر پر کھڑے ہوکر یہ اعلان کیا کہ
اَلْحَمْدُ
للہ الَّذی اَظْھَرَ الْحَقَّ وَاَھَلہٗ وَنَصَرَاَمِیرَ الْمُوْ مِنِینَ یِزیْدَ
وَحِزْ بَہٗ وَقَتَلَ الْکَذَّابُ بْنَ الْکَذّابِ الْحُسَیْنُ بْنَ عَلیْ وَ
شِیْعتَہٗ ۰۸۱
ترجمہ۔
اس اللہ کا شکر ہے جس نے حق اور حق والوں کو کامیاب کیا اور امیرالمومنین یزید اور اس کے لشکر
کی مدد کی اور (معاذاللہ )کذاب بن کذاب حسین بن علی اور اس کے شیعوں کو قتل
کیا"
اس
سے صاف واضع ہے کہ یزید کے حکام یزید اور یزیدیوں کو اہل حق سمجھتے تھے اور حسین
اور شیعانِ حسین کو اہل باطل قرار دیتے تھے اور جمہور اہل اسلام ان کے اس نعرہ میں
ان کے ہمنوا تھے اور جس مسلک کو یزیدیوں کی طرف سے حق کا نام دیا جاتا تھا حضرت
حسین اور شیعانِ حسین کے نزدیک وہی باطل تھا۔
یزیدیوں
نے سرہائے شہدائے کربلا اور مخدرات عصمت کو شہر بشہر اور دربدر پھرانے میں حکومت
کی بھلائی سمجھی وہ یہ کیال کرتے گھے کہ اس طریقے سے لوگوں پر حکومت کا رعب طاری
ہوگا اور شیعانِ علی کی تحریک ختم ہوجائے گی پس جمہوری حکومت سے دینی قیادت کا الگ
نعرہ ختم ہوجائے گا اور مذہب صرف جمہراہل اسلام ہی رہے گا جو ہرکرسی اقتدار
سنبھالنے والے کے ہاتھوں میں کھلونا بن کے رو جائے گا اور اس کا وہی حشر ہوگا جو
شریعت موسوی وعیسوی کا ہوا لیکن اس کا الٹا اثر یہ ہوا کہ جہاں جہاں سے یہ اسیران
آل محمدﷺکا لٹاہوا قافلہ گذرتا گیا لوگوں کے دلوں میں حکومت کے خلاف جذبات ابھرتے
گئے اور لوگ سوچنے پر مجبور ہوگئے کو اقتدار کا راستہ کہاں جاتا ہے اور دینی قیادت
کی منزل مقصود کیا ہے؟
اس
کے بعد یزید فوج کے ہاتھوں مدینہ الرسول کی تاریخی قتل عام اور بے حرمتی کے روح
فرسا واقعہ نے پھر دوسری دفعہ اہل اسلام کے دل ہلادئے ان کو خلافت کے روپ میں یزید
کفرو عناد اور زندقہ والحاء کا مجسمہ نظر آنے لگا پھر اسی فوج کے ہاتھوں کعبہ کی
بے حرمتی اور حرم پروردگار کی توہین نے ذرا بھر بھی انصاف کہنے والوں کے لئے قظعاً
شک وشنہ کی گنجائش نہ باقی رکھی کہ دین واقتدار
دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔واقعہ کربلا 10 محرم سنہ 61 ھ بروز جمعہ ہوا۔