التماس سورہ فاتحہ برائے والد بزرگوار،جملہ مومنین و مومنات،شھداۓ ملت جعفریہ ، خصوصاً وہ جن کا کوئی سورہ فاتحہ پڑھنے والا نہ ہو۔ یہاں کلک کریں

Search Suggest

رفتارِ زمانہ | raftar e zamana | khilafat o malookiat

رفتارِ زمانہ | raftar e zamana | khilafat o malookiat

رفتارِ زمانہ | raftar e zamana  | khilafat o malookiat

رفتارِ زمانہ | raftar e zamana  | khilafat o malookiat


رفتہ رفتہ حکومت اقتدار کا نشہ اپنا اثر ظاہر کرتا رہا اور اسلامی معاشرہ سیاسی رنگ میں ڈھلتا گیا اور عثمانی دور میں لوگوں کی آنکھیں کھلنی شروع ہوئیں کہ اسلام کچھ اور تھا اور یہ حکومت کچھ اور ہے لیکن کرسی اقتدار کی حمایت میں پیش کردہ روایتی مواد حکومت پر لب کشائی نہیں کرنے دیتا تھا لوگ خلیفہ کی ہربے راہ روی کو دامن تاویل میں جگہ دیتے رہے لیکن حالات دن بدن خراب ہوتے چلے گئے اور خلیفہ لوگوں کی اس چشم پوشی سے مزید جرات اپنے اندر محسوس کرتا گیا اور آگے پڑھتا چلا گیا یہں تک کہ عوام کا دامن صبر و ضبط اور دائرہ تاوعل و تمہیل تنگ ہوگیا اور اکابر صحابہ کے اصلاحی اقدامات بھی ناکام ہوگے پس انجام کار حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اب حضرت علی کی ظاہری بیعت تو ہوگئی اگر ان کوآرام و سکون سے سلطنت کے امور کو سنبھالنے کا موقعہ ملتاتوسیاسی اقتدا کی طرف سے لائی ہوئی خرابیاں تدریجاً ختم ہوجاتیں اور اسلام اپنے اصلی خد و خال میں منظر عام پر پلٹ کر آ جا تالیکن ہوس اقتدار کے متوالے اور کرسیُ حکومت کے دیگر خواشمند فوراً قتل عثمان کا بہانہ لے کر میدان میں کو وپڑے اور حضرت علی کو اسلامی اقدامات کا موقعہ تک نہ دیا بس دین وسیاست اور اسلام اقتدارمیں نمایا فرق معلوم کیا جاسکا اور عوام الناس کی حالت یہی رہی کہ جس کی لاٹھی اس کی بہینس ۔ الناس علٰی دین ملوکھم( لوگ بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں) پس حضرت علی کے بعد معاویہ برسراقتدار آیا تو اس نے دینی و مذہبی اقدار کافی حد تک ختم کر دیا لیکن جمہور اہل اسلام اس کے اغلاط کو بھی صحابیت کے دامن میں چھپانے کی کوشش میں رہے اور جنگ جمل وصفین و نہروان میں تھوڑا بہت جو حق و باطل کے درمیان امتیاز کرنے کا موقعہ ملا تھا معاویہ کے دور حکومت میں اس کے اثرات کو ختم کر دیاگیا اور سرکاری حکام کے ذریعے سے حضرت علی اور اولاد علی پر لعن وطعن کی جو بدعت شروع ہوئی اس نے پھر حکومت کو دین اور اقتدار کو مذہب بناکر رکھ دیا اور اس دور پر آشوب میں جن لوگوں نے حضرت علی کے حق میں اچھی عقیدت کا اظہار کیا ان کو عبرت ناک اورسخت سے سخت تر سزائیں دی گئیں خاندانوں کے خاندان برباد کردے گئے اس جرم میں کہ وہ علی سے محبت کرتے تھے ۔ حتٰی کہ روضہ رسول کے سامنے مسجد نبوی میں منبر رسول کے اوپر اموی خطیب حضرت علی کو گالیاں دیا کرتا تھا اور اولاد علی کو مجبوراً سب کچھ سن کر برداشت کرنا پڑتا تھا۔ چنانچہ مودودی صاحب بھی خلافت و ملوکیت سنہ 174 پر اس امر کا اعتراف کرچکے ہیں۔

ان حالات کے پیش نظر ایک زبردست اقدام کی ضرورت تھی اور لوگوں کو کافی طاقت و قوت کے ذریعے اس لمبی غفلت اور طویل نیند سے جگانا تھااور انہیں ایک بار پھر باور کرانا تھا کہ اقتدار اور دین دو الگ الگ چیزیں ہیں اور اب حضرت علی کے زمانہ کی طرح حالات نہ تھے کہ لوگ اقتدار اور مذہب میں فرق نہ کرسکیں کیونکہ اس وقت اقتدار کا رویہ مذہب کے قریب قریب تھا اس لئے فرق کرنا عوام کے لئے مشکل تھالیکن اس وقت اقتدار کا راستہ مذہب کے راستے سے بہت دور نکل گیا تھا۔ اور حکومت کا طرز عمل اسلامی کردار سے بہت مختلف ہو چکا تھا اس لئے صرف ٹھوکر مارکر عوام کو جگانا ضروری تھا پس امام حسین علیہ السلام نے یزید کی تخت نشینی کا اعلان ہوتے ہی کمرہمت با ندھی اور توکل کی پشت پر سوار ہو کر عزم صمیم کر کے گھرسے نکل پڑے اور بالآخر اسلامی تقدیر کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور لہگوں کے لئے حق و باطل اسلام و اقتدار اور امامت و ملوکیت کے درمیان ایسا امتیازی نشان قائم کردیا جس کو کبھی مٹایا نہیں جا سکتا۔

آپ جب مدینہ سے چلے تو مکہ ہی منزل مقصود تھی اور چہار ماہ کا عرصہ وہاں رہے ۔ عبداللہ بن زبیر بھی مکہ ہی میں تھا۔ اموی غیر اسلامی حکومت اور ان کے مظالم کے تذکرے اور اسلامیان عالم کے لئے اس سے نجات پانے کی تدابیر بھی زیر غور آتی رہیں لیکن پوری طاقت کے بغیر کسی اقتدار کا تختہ الٹنے کا تصور بھی کوئی دانا انسان نہیں کرسکتا اور خصوصاً جب کہ بزید جیسا مذہب و دین کی قیور سے آزاد نا خدا ترس انسان تخت حکومت پر تمکن ہو جس سے اقتدار کی حفاظت کے لئے ہر بڑے سے بڑے گناہ اور سخت سے سخت جرم کو کر گذرنے کی توقع کی جاسکتی ہو اور ایسے حالات میں جب کہ لوگوں میں دینی قیادت اور دیاسی قیادت کے درمیاں فرق کا تصور بھی نہ ہو بنابرین مودودی صاحب کا یہ دعوٰی قطعًا حقائق سے چشم پہشی کے مترادف ہے۔براشبہ وہ اہل عراق کی دعوت پر یزید کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے تشریف لے جارہے تھے، سنہ 179 خلافت وملوکیت ۔ بلاشبہ مودودی صاحب کا یہ شبہ غلط ہے جس کو اگلے لفظوں میں خود انہوں نے اپنے قلم سے باطل کر کے رکھ دیا ہے۔ فرماتے ہیں یہ تو امر واقعہ ہے کو وہ کوئی فوج لے کر نہیں جارہے تھے بلکہ ان کے ساتھ ان کے بال بچے تھے اور صرف 32 سوار اور چالیس پیادے اسے کوئی شخص بھی فوجی پڑھائی نہیں کہ سکتا اگر اسے فوجی چڑھائی کوئی نہیں کہ سکتا تو ایک بہت بڑی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے روانگی اسے کون کہ سکتا ہے؟

ایک تبصرہ شائع کریں