تیسرے امام حضرت
حسین بن علی بن ابی طالب علیہ السلام
tesray imam hazrat hussain bin ali bin abi talib alih
alsalam
ولادت باسعادت ۳ شعبان
المعظم سنہ 4 ھ مدینہ منورہ میں سیدہٗ طاہرہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بطن
مبارک سے ہوئی۔ آپ کا نام نامی بھی حضور ﷺنے رکھا ۔ ساتویں دن عقیقہ کیا۔ آپ کی
کنیت ابو عبد اللہ اور لقب سیدالشہداد زیادہ مشہور ہے۔ چھ برس کی عمر میں نانا کا سایہ عاطفت سر سے اٹھ گیا پرشیعی روایت کے ماتحت زیادہ سے زیادہ نانا کے بعد 3 ماہ تک ماں کا سایہ سر پر رہا اور یہ بھی ختم
ہوگیا ۔ حضور کی ان سے بے حد محبت تھی کندھوں پر سوار کر کے دو نو بھائیوں کو
مدینہ کی گلیوں میں بعض اوقات پھراتے رہے
ان کے لہائے مبارک کے بار بار بو سے لیتے تھے حدیث صحیح میں آپ نے فرما یا حسن و وحین جوانان جنت کے
سردار ہیں۔ آپ آیت تطہیر کے بھی مصداق ہیں کیونکہ حضور نے حضرت علی حضرت فاطمہ ا
مام حسن اور حسین ان سب کو اٹھا کر کے ان کے اوپر ایک چادر ڈال دی اور آیت تطہیر
پڑھی اور پھر کہا اے خدا یہی معرے حقیقی اہل بیت ہیں (تذکرة الخواص نقلاً ازمسند
احمد بن حنبل) ، آپ بھی حالت سجدہ میں بعض اوقات رسول اللہ کی پشت مبارک پر سوار
ہو جایا کرتے تھے اور اتنے تک حضور سر نہ
اٹھاتے جب تک یہ اپنی مرضی سے اترنہ جاتے۔ آپ کا بھی دستور تھا کہ ہرسال پا پیادہ حج بیت اللہ کوجاتے
تھے (تذکرہ الخواص )
ایک دفعہ امام حسینعلیہ
السلام مسجدنبوی میں داخل ہوئے جب حضرت عمر
ممبررسول پر بیٹھ کر تقریر کر رہے تھے تو
آپ نے دیکھ کر فرمایا میرے باپ کے منبر سے اتر آؤ حضرت عمر نے اٹھالیا اور اپنے
پہلو میں ان کو بٹھالیا – ( تذکرة الخواص )
آپ چھ برس ابتدائی اپنے
نانا رسول اللہ کے زیر سایہ رہے پھر خلفائے ثلٰثہ کے سیاسی اقتدار کو دیکھا۔ پانچ
برس اپنے والد ماجد کی حکومت کے سائے میں
کوفہ میں رہے اور سیاسیات ملکیہ میں نمایاں کردارادا فرما یا چنانچہ جنگ صفین میں
آپ نے جنگی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ فرمایا حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد
چھ ماہ تک امام حسن علیہ السلام کے اقتدار کا زمانہ دیکھا ۔ پھر اپنے بھائی کے
ہمراہ واپس مدینہ میں پلٹ کر آگئے اور بیس برس متواتر معاویہ کے دور اقتدارمیں گوشہ
نشینی کی زندگی بسر کرتے رہے سنہ 60 ھ 22 رجب کو معاویہ مرگیا اوراس کا بیٹا یزید عنید تخت نشین ہوا۔ہوا
کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار کو بدلنے والے جمہور مسلمانوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کر
لی اور زہری کہتا ہے مجھے سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن عمر پر تعجب آتا ہے کہ
انہوں نے حضرت علی کی بیعت تو نہ کی لیکن یزید کی بیعت کرلی ۔ ( تذکرة الخواص)
حالات مذہبی وسیاسی پلٹا کھا
چکے تھے سابق حکومتوں نے مذہب اور سیاست کو اور دین و حکومت کو ایک سمجھ رکھا تھا۔ پہلی تین حکومتوں میں
عوام کے ذہن نشین کر ناکہ اقتدار الگ ہے اور دین الگ ہے بہت شکل تھا کیونکہ زمانہ
پیغمبر کے قرب کی وجہ سے اسلامی تعلیمات
سے متاثر عوام چونکہ سلاطین وقت کو بھی ظاہری طور پر اسلامی کردار کا حامی پاتے
تھے لہٰذا وہ اس دقیق فرق کو سمجھنے سے
قاصر تھے۔ اس لئے حضرت علی نے تھوڑے دنوں تک مجالس انصار میں پہنچ کر اپنی آواز بلند
کی تو اس نتیجہ تک پہنچے کہ سر دست خاموشی ہی بھلی ہے پس حسب ضرورت مسائل بیان کر دیتے تھے جب کو ئی دریافت کرتا تھا ورنہ خاموش ہی رہتے تھے۔