خاتون جنت کے مقدمہ وراثت کے متعلق فخرالدین رازی کا فیصلہ - تفسیر کبیرج۳ص۶۵۱مطبوعہ مصرفرماتے ہیں:
آیت یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ الخ کی تفسیر میں کہ یہ آیت عام نہیں رہی بلکہ مخصص ہے اس حکم سے کہ انبیاءعلیہم السلام کی وراثت نہیں ہو اکرتی اورشیعہ اس تخصیص کے خلاف ہیں مروی ہے کہ جناب فاطمہ علیہا السلام نے جب وراثت کا دعٰوی دائر کیا تھا توجواب میں انہوں نے مقابلہ کی یہ حدیث پڑھی تھی نَحْنُ مَعَاشِرَالْاَنْبِیَاءِ لَانُوْرَثُ مَاتَرِکْنَاہُ صَدَقَة یعنی ہم گروہ انبیاء کاوارث کوئی نہیں ہوتا بلکہ ہمارا ترکہ صدقہ ہوتا ہے تو بی بی ہے ان کی رداوراپنے دعویٰ کے اثبات میں یہ آیت مجیدہ تلاوت فرمائی لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّالْاُنْثَیَیْنِ اوراس آیت کے عموم کو انہوں نے اپنے دعویٰ کی دلیل قرار دیا تھا اورگویا بی بی یہ ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ عموم قرآن کو خبر واحد سے تخصیص نہیں دی جاسکتی اورشیعہ لوگ کہتے ہیں کہ بالفرض اگر عموم قرآن کو خبر واحد سے تخصیص دینا جائز ہو بھی تاہم اس جگہ نہیں ہوسکتی جس کی کئی وجوہات ہیں ۱)خدوندکریم نے زکریا علیہ السلام کے قول کو نقل فرمایا ہے یَرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ یعنی اپنے لئے فرزند کی دعا مانگتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرا اوراٰل یعقوب کا وارث ہو گا نیز فرماتا ہے وَوَرِثَ سُلَیْمَانِ دَاودَ اورسلیمؑان داوؑد کا وارث ہو ا اوران آیتوں میں علم اوردین کی وراثت یقیناً مراد نہیں کیونکہ علم اوردین وراثت میں کسی کو منتقل نہیں ہوسکتا بلکہ یہ کیسی چیز ہے اوروراثت میں منتقل ہونے والی چیز مال ہی ہے پس معلوم ہوا کہ وہ پیش کردہ حدیث غلط ہے کیونکہ خلاف قرآن ہے۔
۲)وراثت نبویؐ کا تعلق حضرت عباس جو آپ کے چچا تھے اورحضرت علیؑ جو چچازاد اورداماد تھے اورحضرت فاطمہ جو دختر تھی ان سے تھا اوریہ لوگ عالم بھی تھے اورزاہد بھی تو اگر آپ نے یہ فرمانا تھا تو ان لوگوں کو فرماتے جن کو اس چیز سے واسطہ تھا ایک ایسے شخص کو فرمانا جو درمیان میں کوئی واسطہ نہ رکھتا ہو ایک بے معنی سی بات ہے اورظاہر ہے کہ حضرت رسالتمابؐ کی وراثت سے ناقل حدیث کوکوئی تعلق وواسطہ نہ تھا پس معلوم ہوا کہ حدیث اعتبار سے ساقط ہے۔
۳) اگر بالفرض حدیث کو درست تسلیم کیا بھی جائے تو ممکن ہے مَا تَرَکْنَا لَانُوَرِّثُ کا مفعول ہو یعنی ہم گروہ انبیاءجس چیزکو بطور صدقہ چھوڑ جائیں اس کا کوئی وارث نہیں ہو سکتا لہذا سارے مال کی وراثت کی نفی نہ ہوگی۔
اس تمام مطلب کو ذکر کرنے کے بعد جواب میں صرف ایک جملہ پیش فرماتے ہیں کہ اس مناظرہ کے بعد جناب فاطمہ ابوبکر پر راضی ہوگئی تھیں اوراجماع قائم ہوچکا ہے کہ جو کچھ ابوبکر نے کیا تھا او ہ درست تھا لہذا یہ اعتراضات ساقط ہیں۔
انصاف کا خون دیکھئے روایت تسلیم ہے اوربی بی پاک کا حتجاج بھی تسلیم ہے نیز بی بی پاک کے استدلال پر بھی نکتہ چینی نہیں اس کے بعد نحن معاشرالانبیا والی فرضی حدیث پر شیعوں کی طرف سے پیش کردہ اعتراضات بھی تسلیم ہیں لیکن کس قد جرات وجسارت سےکہہ دیا کہ بی بی راضی ہوگئی میں پوچھتا ہوں کہ بی بی اس کے غلط فیصلہ پر کیسے راضی ہوگئی جبکہ اس کی فرضی حدیث کو غلط ثابت کرنے کے لئے آپ آیت قرآنی پیش فرماچکی تھیں جس کے جواب سے وہ عاجز تھے تو اس کے بعد رضاکا محل کونساباقی رہتا ہے جبکہ آپ کا لقب صدیقہ مسلم بین الفریقین ہے کیا حضرت ابوبکر نے بی بی کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کرکے معافی طلب کی تھی اورحقوق الناس میں معافی مانگنے کی صورت یہ ہے کہ گزشتہ اپنے فعل سے معذرت اوراپنے پاس باقی ماندہ حقوق مالیہ کی واپس ادائیگی کیا بی بی کو حق وراثت دے کر سابق غلطی سے معذرت طلب کی گئی تھی اوراگر ایسا نہیں ہو تو بی بی کی رضامندی کیسے یعنی رضامندی کی دوصورتیں ہیں یا اس کے فیصلہ پر ضامندی اوریا اسکے جرم کی معافی فیصلہ پر رضامندی ناممکن ہے کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ بی بی نے قرآن مجید کے فیصلہ کے خلاف رضامندی کا اظہار کیا جو ان کے عصمت کے منافی ہے ااورانکے جرم کی معافی کی صورت اس لئے نہیں کہ انہوں نے نہ اس جرم کا اقرار کیا اورنہ مال مطلوبہ واپس دے کر معذرت پیش کی جس طرح بی بی پاک کے استدلال کا مدعی علیہم کے پاس جواب نہ تھااسی طرح بی بی پاک کے مقدمہ کے وکلاءعلمائے شیعہ رضوان اللہ علیہم کے استدلات کے جواب مدعی علیہ کے وکیل نام نہاد علامہ رازی کے پاس بھی نہیں تھا لیکن بی بی پا ک کے دعوؤں کی اہمیت کو کم کرنے ورمدعی علیہ کی لاج رکھنے کےلئے اس کے علاوہ اورکوئی چارہ ہی نہ تھا کہ کہہ دیا بس وہ راضی ہوگئیں۔
اب ذرا خاتون جنت کی رضامندی ملاحظہ فرمائیے صحیح بخاری کتاب الخمس اورباب غزوہ خیبر میں جب بی بی نے اپنا حق طلب کیا اوراس کے مقابلہ میں وہ مفروضہ حدیث پڑھی گئی اوربی بی کو خالی پلٹایا گیا تو بی بی غضبناک واپس پلٹی اورپھر مرتے دم تک حضرت ابوبکر سے بائیکاٹ کئے رہیں اورباپ کے بعد کل چھ ماہ زندہ رہیں باپ غزوہ خیبر میں یہ لفظ زیادہ ہیں کہ جب بی بی کا انتقال ہو اتو حضرت علیؑ نے ان کو رات کے وقت دفن کیا اوربوبکر کو جنازہ ودفن میں شرکت کی اطلاع تک نہ دی تفصیلی بحث تفسیر کی جلد اول یعنی مقدمہ میں ص 151یا ص154پر ملاحظہ فرمائیے پہلاایڈیشن۔
نیز ابن قتیبہ دینوری اپنی کتاب الامامتہ والیاستہ میں لکھتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر وحضرت عمر دونوں مل کر بی بی پاک کے پاس برائے معذرت پہنچے تو بی بی نے اپنا منہ دیوار کی طرف پھیر لیا ورجب انہوں نے سلام کہا تو بی بی نے ان کو سلام کا جواب تک نہ دیا (حالانکہ ردّسلام واجب ہوا کرتا ہے گویا بی بی ان کو رد سلام کے قابل نہ سمجھتی تھی ) اس کے بعد بی بی نے اپنی وراثت کے مقدمہ کو دہرایا اورفرمایا کیا اسلام کی رو سے تیرے قریبی تیرے وارث ہوں اورہم اپنے باپ حضرت محمد مصطفیؐ کے وارث ہوں لیکن پھر وہی مفروضہ حدیث دہرائی گئی اوربی بی پاک نے ناراضگی کی اورباتیں بھی کہیں اورآخر میں فرمایا کہ میں اللہ کو ااوراس کے فرشتوں کو گواہ کرکے کہہ رہی ہوں کہ تم دونوں نے مجھے ناراض کیا ہے اورتم نے مجھے راضی نہیں کیا اوراپنے بابا کے پاس پہنچ کر تم دونوں کی شکایت کروں گی اورنیز فرمایا ہر نماز میں میں تمہارے لئے بددعا کروں گی یہ پوری روایت تفسیر کی پہلی جلد یعنی مقدمہ تفسیر میں ص173یا ص176پر درج ہے۔
اور اسی مطلب کی تائید کرنے والی ایک روایت اسی مضمون کی صحیح مسلم میں بھی موجود ہے کہ یہ معذرت خواہی کیلئے گئے اور بی بی نے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ ہر نماز میں یا ہر نماز کے بعد تمہارے لئے بد دعا کرتی رہونگی۔
کاش! دامن خلافت کو بچانے اور بی بی کے دعوے کی اہمیت کو ساقط کرنے سے قبل تاریخی واقعات کا جائزہ لے لیا ہوتا اورنہیں تو کم ازکم صحاح ستہ کا مطالعہ کرلیا ہوتا تاکہ بی بی پاک کی رضامندی کا فیصلہ ہو جاتا ہاں کیوں نہیں مصنف کواس قسم کی باتیں بھولی ہویہ نہیں ہوتیں اورخصوصاً اس قسم کے مختلف فیہ مسائل زیر نگاہ ہوتے ہیں جبھی تو آیت وراثت کی تفسیر میں بی بی پاک کی وراثت کے مقدمہ کو ذکر کرہی دیا وراپنی پارٹی کے حق میں فیصلہ سنا کر خاموش ہوگیا ضرور بخاری ومسلم کے مقامات باربار پڑھے ہوں گے اوراس موقعہ پر تو گہری نظر سے ان کا مطالعہ کیا ہوگا اورصفحات تاریخ بھی پلٹے ہوں گے کہ کہیں یہ مل جائے کہ بی بی راضی ہوگئی لیکن کہیں ہوتا تو ملتا اوربی بی کی رضامندی کی صورت بھی ہوسکتی تو کوئی لکھتا کیونکہ میں عرض کرچکا ہوں بی بی کی رضامندی محالات میں سے ہے اس لئے کہ غلط فیصلہ پر رضامندی شان عصمت وطہارت اورصداقت کے منافی ہے اورمجرم پر رضا مندی بعید ازعقل ہے کیونکہ نہ اس نے حق دیا نہ معافی ہوئی لیکن اس نام نہاد علامہ بلکہ امام بے چار ے کے پاس اورتو کوئی حیلہ نہ تھا پس لکھ دیا کہ وہ راضی ہوگئی تھیں لیکن یہ کھٹک دل میں باقی رہی کہ یہ جواب کافی نہیں اس کو تاریخ وحدیث بلکہ عقل ونقل قبول کرنے کےلئے تیار نہیں تو دل میں سوچا کہ اس سے سر کا جاوں پس فوراً دوسری بات کہہ دی کہ چونکہ اجماع امت قائم ہے کہ جو کچھ خلیفہ نے کیا ہے وہ درست ہے لہذا اعتراضات سب بے کار ہیں۔
ہاں ایسے ہی لوگ تو امام کہلاتے ہیں جن کے نثریہ جات اس قسم کے ہوں کہ حاکم وقت کا فیصلہ قرآن کے خلاف ہو عقل کے منافی ہواورحقدار کا حق تلف ہوتا رہے اوروہ بیچارہ چیختا چلاتا رہے لیکن اکثریت اس کے حکم کے سامنے دب کر خاموشی اختیار کرے یا اس کی کسی مصلحت کی بنا پر ہاں میں ہاں ملادے اورپھر کوئی مولوی اورخصوصاً علامہ کہہ دے کہ وہ حقدار پہلے چیختا چلاتا رہا اوربعد میں وہ خاموش اورراضی ہوگیا تھا یا یہ کہہ دے کہ خواہ وہ کتنا ہی فریاد کرتا رہے اورروتا رہے لیکن حاکم وقت کا جو فیصلہ ہو چکا ہے خلاف قرآن ہو تو ہو عقل نہ مانے تو نہ مانے لیکن چونکہ عوام نے تسلیم کرلیا ہے اوراجماع ہو چکا ہے تو پس صحیح ہے اب عوام کیوں نہ کہیں اسے علامہ اورکیوں نہ امامت کا لقب ملے۔
یہاں پر ایک حدیث مجھے یاد آتی ہے کہ بہترین جہاد کلمہ حق ہے جو سلطان جابر کے سامنے کہا جائے اوراسی حدیث کو تقیہ کے بطلان کی دلیل بنا کر پیش کیا جاتا ہے لیکن جب وہ کلمہ حق اہلبیت عصمت کے کسی دعٰوی کی دلیل بنتا ہے ہو تو اس وقت یہ جہاد ساقط ہے بلکہ حاکم وقت کی ہاں میں ہاں ملانا ہی ایمان ہے حق تو یہ ہے کہ مدعی کی دلیل بھی ناقابل تردید ہے اورماننا بھی نہیں کیونکہ سارے لوگ راضی ہوچکے ہیں پس اکثریت کی ہاں میں ہاں ملانی ہی ہے یہ ہے تحقیق اوربالغ النظری کی شان۔
ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں کہ ایا حضرت علی امت کافرد نہیں تھا کیا جناب بتول معظمہ امت کی فرد نہیں تھیں کیا حضرت سلیمان مقداد اورابوزر وغیرہ امت کے افراد نہیں تھے اورکیا مدینہ میں یہ لوگ موجود نہیں تھے کیا یہ لوگ اس فیصلہ پر راضی تھے جب ایسا نہیں تو عوام کو دھوکا دینے کےلئے یہ بہانہ کیوں۔
ہاں اس دھاندلی کا پتہ اس وقت چلے گا جب ایک طرف میدان محشر میں جناب بتول معظمہ اپنا دعوی دائر کریں گی اوردوسری طرف مدعی علیہم ہوں گے اگر اس وقت تم نے یہ کہا کہ بی بی راضی ہوگئی تھی تو ضرور جناب بتول معظمہ حضرت محسن کو پیش فرمادیدں گی اوروہ دروازہ خود گواہی دے گا جس پر لکڑیاں جمع کی گئی تھیں نیز قران کی میراث والی آیات پکار پکار کر خاتون کی صداقت کی گواہی دیں گی یقینا جب اس میدان میں اس مفسر قرآن کو جواب دہی کےلئے کھڑا کیا گیا تو سمجھ آجائے گی کہ اکثریت کی ہاؤہو سے دب کر دلیل کا ساتھ چھوڑنا کیسا ہوا کرتا ہے۔
ہاں بی بی تیرا دعوٰی سچا تھا اورتو حق پر تھی جن لوگوں نے تیرا حق چھینا یا تیرے حق پر پر دہ ڈالا وہ واقعی قیامت کے روزتیرے جوابدہ ہوں گے اورہم دنیا وآخرت میں ان سے بری ہیں۔