سورہ النساء رکوع 15 - محرمات ابدیہ ، رضاعی محرمات ، رضاع کے شرائط
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالاَتُكُمْ وَبَنَاتُ ٱلأَخِ وَبَنَاتُ ٱلأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاَّتِى أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ ٱلرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَآئِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ ٱللاَّتِى فِى حُجُورِكُمْ مِّن نِّسَآئِكُمُ ٱللاَّتِى دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُواْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلاَئِلُ أَبْنَائِكُمُ ٱلَّذِينَ مِنْ أَصْلاَبِكُمْ وَأَن تَجْمَعُواْ بَيْنَ ٱلاخْتَيْنِ إَلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ غَفُوراً رَّحِيماً ﴿٢٣﴾
حرام کی گئیں تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور ماسیاں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور وہ مائیں جنہوں نے تمہیں اپنا دودھ پلایا ہے اور دودھ کی بہنیں اور تمہاری عورتوں کی مائیں اور ان کی بیٹیاں جو تمہاری پرورش میں ہیں جن عورتوں سے تم دخول کرچکے ہو پس اگر تم نے دخول نہ کیا ہو ان سے تو پھر کوئی گناہ نہیں تم پر اور عورتیں تمہارے ان بیٹوں کی جو تمہاری صلب سے ہیں اور یہ کہ اکٹھی دو بہنیں (نکاح میں) کرو مگر وہ جو گزر چکا ہے تحقیق اللہ غفورٌ رحیم ہے ﴿٢٣﴾
حُرِّمَتْ حرمت کا متعلق جس نوع سے ہوگا اسی کامخصوص نفع حرام ہوگا مثلاً اگر کھانے والی چیزوں پر اس لفظ کا اطلاق ہو تو مراد ہوگا کھاناحرام ہے اورعورتوں پر اطلاق کی صورت میں مراد ہے کہ ان سے نکاح کرنا حرام ہے کیونکہ حرمت کاتعلق ذات سے نہیں ہوا کرتا بلکہ اس کے منافع سے ہوا کرتا ہے اُمَّھٰتُکُمْ یعنی ہر وہ عورت کہ سلسلہ ولادت میں آپ کی نسبت اس تک پہنچے پس ماں کی ماں اورباپ کی ماں اورپھر جس قدر سلسلہ اوپر چلاجائے گا سب اسی لفظ کی روسے حرام ہوں گی کیونکہ وہ سب مائیں ہیں بنتکم یعنی ہر وہ عورت کہ سلسلہ ولادت میں اس کا نسب آپ پر منتہی ہو۔
پس بیٹی کی بیٹی اوربیٹے کی بیٹی اوراس کے بعد جس قدر سلسلہ نیچے چلاجائے گا وہ سب اسی لفظ کامصداق ہونگی کیونکہ اولاد کی اولاد کہلاتی ہے
عَمَّاتُکُمْ جمع ہے عمة کی یعنی ہروہ عورت جو بہن ہوایسے شخص کی جس کی طرف آپ کا سلسلہ نسب پہچنتاہو پس اس لفظ میں باپ دادا پر دادا وغیرہ کی بہنیں اورنانا پر ناناوغیرہ کی بہنیں سب داخل ہیں۔
خٰلٰتُکُمْ جمع سے خالہ کی یعنی ہر وہ عورت جو بہن ہو ایسی عورت کی جس کی طرف آپ کا سلسلہ نسب پہنچتاہو تو ماں نانی اورپرنانی وغیرہ کی بہنیں سب اس لفظ میں داخل ہیں۔
بَنٰتُ الْاَخ اس سے مراد بھائی کی مونث اولاد کا سلسلہ ہے جہاں تک نیچے چلاجائے گا۔
بَنٰتُ الْاُخْتِ اس سے مراد بہن کی مونث اولاد کا سلسلہ ہے جہاں تک نیچے چلاجائے گا۔
پس یہ سات قسم کی عورتیں ہیں جن کی نسبی قرابت نکاح سے مانع ہے (۱) ماں (۲)بیٹی(۳)بہن (۴)پھوپھی (۵)خالہ(۶) بھتیجی(۷)بھانجی اوراس کا مختصر طور پر قاعدہ کلیہ یہ سمجھناچایئے کہ چار قسم کی عورتیں حرام ہیں (۱)ہر وہ عورت جواصول میں داخل ہے (۲) ہر وہ عورت جوفروع کے سلسلہ میں داخل ہے (۳) ہر اصل کی پہلی فرع (۴) پہلی قریبی اصل کی ہر فرع یایوں کہہ دیجئے کہ قرابت طولیہ کی فوقانی وتحتانی ہر عورت حرام ہے اورقرابت عرضیہ میں قرابت طولیہ فوقانیہ کی پہلی اصل کی ہر فرع حرام ہیں۔
مجمع البیان میں بروایت ابن عباس منقول ہے کہ خداوندکریم نے عورتوں میں سے سات قسموں کو نسبت سے حرام قرار دیاہے اورسات قسموں کو سبب سے حرام کیااوروہ یہ ہیں (۱)رضاعی ماں (۲)رضاعی بہنیں (۳)زوجہ کی ماں (۴)زوجہ مدخولہ کی بیٹیاں(۵) منکوحہ فرزند (۶)دوبہنوں کو اکٹھے نکاح میں لانا(۷)گزشتہ آیت میں باپ کی زوجہ۔
سورہ النساء رکوع 15 - رضاعی محرمات
جو عورتیں قرابت نسبی کی وجہ سے حرام ہوا کرتی ہیں وہی قرابت رضاعی سے بھی حرام ہوں گی چنانچہ جناب رسالتمآبؐ کا فرمان ہے ہے اِنَّ اللہَ حَرَّمَ مِنَ الرَّضَاعَۃِ مَا حَرَّمَ مِنَ النَّسَبِ: النَّسَبِ یعنی خدانے رضاع سے وہی عورتیں حرام کی ہیں جو نسب سے حرام کی ہیں۔
اُمَّھَاتُکُمُ الّٰتِیْ اَرْضَعْنَکُمْ تمہاری وہ مائیں حرام ہیں جنہوں نے تمہیں دودھ دی ہے پس اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل عورتیں داخل ہیں۔
- وہ عورت جس نے دودھ دیا ہے
- وہ عورت جو دودھ پلانے والی عورت کی ماں ہو خواہ نسب سے خواہ رضاع سے اسی طرح اس کی دادیاں اورنانیاں نسبی ورضاعی سب حرام ہوں گی۔
- وہ عورت جو دوھ پلانے والی عورت کے شوہر کی جو اس کا رضاعی باپ ہے مائیں دادیاں نانیاں خواہ نسبی ہوں یارضاعی۔
- دودھ پینے والے کی نسبی ماں یانسبی نانی اورنانے کی رضاعی مائیں اورپھر اوپر کا یہ سب سلسلہ۔
- دودھ پینے والے کے نسبی باپ یادادے دادی کی رضاعی مائیں اورہذاالقیاس۔
وَاَخْوَاتُکُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ تمہاری رضاعی بہنیں یعنی دودھ پینے والے کے نسبی والدین کی جو رضاعی اولاد ہوگی وہ ا س کے بھائی بہنیں شمار ہوں گے اوران کی نسبی یارضاعی اولاد اس کے رضاعی بھانچے اوربھتیجے ہوں گے پس ان سب سے اس کا نکاح حرام ہوگا نیز اسی قاعدہ کے ماتحت نسبی بھائی بہنوں کی رضاعی اولاد اورپھر ان کی نسبی یا رضاعی اولاد آخرتک اسی حکم میں ہے اوراس مقام پر چندمسائل اوربھی ہیں جن کا ذکر ضروری ہے۔
مسئلہ رضاعی لڑکیاں اوران کی نسبی یارضاعی اولاد اوریہ سلسلہ نیچے کی طرف جہاں تک چلاجائے اسی حکم میں ہے۔
مسئلہ نسبی فرزند یابیٹی کی رضاعی لڑکیاں اورپھر ان کی اولاد خواہ رضاعی خواہ نسبی جہاں تک چلی جائے سب حرام ہے۔
مسئلہ رضاعی فرزند کی لڑکیاں خواہ رضاعی ہوں یانسبی اوراسی طرح ان کی اولاد کا بھی یہی حکم ہے
مسئلہ رضاعی پھوپھیاں اوررضاعی ماسیاں بھی اسی طرح حرام یہں جس طرح نسبی سلسلہ میں حرام ہیں پس اس سلسلہ میں باپ دادا پر دادا وغیر ہ کی رضاعی بہنیں اورماں نانی پر نانی کی رضاعی بہنیں سب داخل ہیں۔
سورہ النساء رکوع 15 - رضاع کے شرائط
- دودھ نکاح سے ہو خواہ دائمی ہو یا متعہ ہو بنابریں اگر دودھ دینے والی عورت نکاح سے خالی ہو تو اس کے دودھ کا کوئی اعتبار نہیں نیز منکوحہ ہونے کے علاوہ وہ حاملہ ہو یا بچے کی ماں ہو پس اگر بچہ جننے کے بغیر اورحمل کے زمانہ کے علاوہ اس کا دودھ ہو جائے تو وہ رضاع نہ بنے گا۔
- اس قدر دودھ پئے کہ اس سے بچہ کو گوشت پیدا ہواورہڈی مضبوط ہو لہذااس مقدار سے کم کا کوءاعتبار نہ ہوگا یا ایک دن رات مکمل دودھ پیتا رہے یا پندرہ مرتبہ پے درپے دودھ پئے چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ وہ رضاع حرمت کا موجب نہیں بنتا جو ایک دن رات سے کم ہو بشرطیکہ پندرہ مرتبہ پے درپے ہو کہ درمیان میں کسی دوسری عورت کا دودھ نہ پیا ہو اورایک ہی فحل کا دودھ ہو ورنہ اگر ان پندرہ مرتبہ کے درمیان کسی اورعورت کا دودھ پئے گا تو رضاع محرم نہ ہوگا اوربعض علمائے امامیہ دس مرتبہ پے درپے دودھ پینے کو کافی سمجھتے ہیں نیز دودھ پستان سے منہ لگا کر پئے اگر دودھ کر پلا یا جائے تو وہ بھی حرمت کا موجب نہ ہوگا۔
- دودھ پینے والابچہ دوسال کے اندر ورنہ رضاع کی حرمت نہ ہوگی۔
- فحل ایک ہو یعنی ایک عورت جس قدر لڑکوں کو دودھ پلائے گی بشرائط سابقہ وہ سب ایک دوسرے کے بھائی بہنیں رضاعی ہوں گے بشر طیکہ عورت اسی ایک ہی شوہر کا دودھ سب کو پلاتی رہی ہو ورنہ جس قدر بچے عورت کا دودھ ایک شوہر کے نکاح کے دوران میں پئیں گے وہ آپس میں تو رضاعی بھائی بہنیں بنیں گے لیکن اسی عورت کے پہلے شوہر کی رضاعی اولاد سے ان کارشتہ ہوسکے گا البتہ اسی عورت کی نسبی اولاد کا رشتہ نہ اس کے پہلے شوہر کی رضاعی اولاد سے ہوگا اورنہ دوسرے شوہر کی رضاعی اولاد سے ہوگااورنہ دوسرے شوہر کی رضاعی اولاد سے ہوگا۔
مسئلہ جس بچے نے ایک عورت کا دودھ حسب شرائط پیاہو اس پر اس عورت کی نسبی اولاد سب حرام ہوگی اوررضاعی اولاد صرف وہی حرام ہوگی جو اسی ایک شوہر کے نکاح کے ماتحت اس کا دودھ پی چکی ہو اوراسی طرح ا س بچہ پر رضاعی ماں کے اس شوہر کی اولاد بھی حرام ہوگی جس کے نکاح میں اس نے دودھ پیا تھا خواہ اس شوہر کی اولاد اسی عورت سے ہو یا کسی اورعورت سے ہو۔
مسئلہ دودھ پینے والے بچے کے نسبی بھائی بہنیں بچے کے رضاعی ماں باپ کی اولاد میں رشتہ کرسکتے ہیں خواہ اس بچے سے بڑے ہوں یا چھوٹے۔
مسئلہ دودھ پینے والے بچے کانسبی باپ بچے کے رضاعی باپ کی اولاد نسبی ورضاعی میں نکاح نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اس کے لئے بمنزلہ اولاد کے ہو چکے ہیں اسی طرح بچہ کا باپ دودھ پلانے والی عورت کی نسبی اولاد سے بھی نکاح نہیں کرسکتا چنانچہ اخبار صحیحہ میں وارد ہے۔
مسئلہ : مسئلہ سابقہ کی روسے اگر نانی یانانے کی منکوحہ بچے کو دودھ پلائے تو چونکہ بچے کی نسبی ماں اس کی رضاعی بہن بن جاتی ہے لہذا بچے کے باپ پر وہ حرام ہوجائے گی۔
مسئلہ جس طرح اگر رضاع پہلے ثابت ہو تو نکاح نہیں ہوسکتا اسی طرح اگر نکاح ہو چکنے کے بعد رضاع آجائے تو نکاح باطل ہوجائے گا مثلاً اگر ایک بچے یا بچی کو اس کے باپ کی ساس دودھ پلائے تو اس کانکاح ٹوٹ جائے گا اس مسئلہ کی جزئیات بہت نکالی جاسکتی ہیں
وَاُمَّھَاتُ نِسَآءِکُم یعنی تمہاری عورتوں کی مائیں تم پر حرام ہیں اس میں ہر وہ عورت داخل ہے جس کی طرف زوجہ کانسب پہچنتاہو یعنی اس کی مائیں دادیاں نانیاں خواہ نسبی ہوں یارضاعی وہ سب حرام ہیں اس میں فرق نہیں کہ عورت سے دخول کیا ہویانہ۔
مسئلہ بنابریں اگر کوئی شخص کسی مرد سے لواط کرے تو اس پر مفعول کی ماں بہن اوربیٹی سے نکاح کرنا حرام ہے وَرَبَآئِبُکُمُ الَّتِی یعنی زوجہ کی وہ اولاد جو تمہاری پر ورش میں ہے اورپرورش میں ہونے کا ذکر اس لئے ہے کہ عام دستور یہی ہے کہ زوجہ کی سابق شوہرکی اولاد اس کے ہمراہ ہوکر دوسرے شوہر کے ہاں پرورش پاتی ہے ورنہ نکاح کی حرمت میں اس وصف کوکوئی دخل نہیں اگر بالفرض زوجہ کی سابق شوہر کی لڑکیاں اس کی پرورش میں نہ بھی ہوں تاہم اس مرد کا ان سے نکاح کرنا حرام ہے بشر طیکہ اس زوجہ سے دخول کر چکا ہو ورنہ اگر دخول کئے بغیر اس کو طلاق دے دے یاعورت قبل ازدخول مرجائے تو اس کی سابق شوہر کی لڑکیاں اس کے نکاح میں آسکتی ہیں نیززوجہ کی سابق شوہر سے لڑکیاں اوران کی اولاد اسی طرح زوجہ کی سابق شوہر سے لڑکے کی اولاد یہ سب رَبَاءِبُکُم میں داخل ہیں۔
َوحَلَآئِلُ اَبنَآءِکُم الخ یعنی تمہارے صلبی لڑکوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں بیٹوں پوتوں نواسوں کی بیویاں سب اس میں داخل ہیں خواہ بیٹے یا پوتے ونواسے نسبی ہوں یارضاعی بنابریں صلبی قیدرضاعی بیٹے کے اخراج کےلئے ہے بلکہ پرورش پانے والے ادعائی بیٹوں کی نفی کےلئے بھی ہے کہتے ہیں چونکہ رسالتمابؐ نےزید کی عورت سے نکاح کیا تھا تو مشرکین نے زبان طعن درازکی تھی کہ دیکھورسول نے اپنی بہوسے شادی کرلی ہے تو یہ آیت اتری اورنیز خدانے فرمایا وَمَاجَعَلَ اَدعیآءَکُم اَبنَآءَکُم خدانے تمہارے ادعائی بیٹوں کو حقیقی بیٹوں کا مقام نہیں دیا یعنی متنبی ابن نہیں ہوا کرتا اورجس طرح باپ پر بیٹے کی حلیلہ زوجہ حرام ہے اسی طرح پیٹے پر بھی باپ کی اوردادا نانا وغیرہ کی حلیلہ زوجہ سے نکاح کرنا حرام ہے چنانچہ اس سے قبل فرماچکاہے وَلَاتَنکِحُوامَانَکَحَ اٰبَآءکُمْ مِنَ الّنِسَآءِ ۔
وَاَنْ تَجْمَعُوْ بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ یعنی دوبہنوں کو نکاح میں جمع کرنا حرام ہے قرآن مجید میں جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے ان کو تفصیل سے بیان کردیا گیا ہے جو عورتیں اس تفصیل سے باہر ہیں ان سے نکاح کی حرمت نہ ہوگی پس خالہ اوربھانجی اوراسی طرح پھوپھی اوربھتیجی سے نکاح کرنے کےلئے ان سے اجازت حاصل کرنا ضرروری ہے اورمذہب امامیہ کا یہی فتویٰ ہے جو اہلبیت رسالتؐ کے فرامین سے اخذ کیا ہوا ہے اگر یہ بھی حرام ہو تیں تو قرآن مجید میں جہاں دوبہنوں کے بیک وقت نکاح میں جمع کرنے سے منع وارد ہوئی ہے ان سے بھی منع ہو جاتی تو چونکہ خدانے محرمات ابدیہ کے تفصیلی ذکر میں ان کو ذکر نہیں کیا تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ ان کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے چنانچہ اگلی آیت میں صاف طور پر فرمارہا ہے اُحِلَّ لَکُم مَّاوَرَآءَذَالِکُمْ یعنی ان بیان شدہ عورتوں کے علاوہ ہر قسم کی عورتیں تم پر حلال ہیں۔